• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی کے خلاف ہر حدتک جائیں گے!مہنگائی سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار کا نتیجہ! عوام کو ریلیف دینا ہوگا! ورنہ حکومت کرنے کا حق نہیں!وزیراعظم عمران خان کے منہ سے نکلے یہ جملے یقیناً تمام آدمی کے دل کو چھوگئے ہوں گے۔ لیکن کیا مسائل کا حل صرف وصرف جذباتی جملوں سے ممکن ہے؟

ایک سال سے لوگ چیخ رہے تھے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوںمیںتیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جب یہ سب اشیاء ملک میں ہی پیدا ہورہی ہیں تو پھر ان کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ صرف پٹرول کی قیمت میں اضافہ اس کی وجہ نہیں ہوسکتی؟

ٹھیک ہے آمدورفت کے لیے پٹرول یا ڈیزل کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کے استعمال سے خوراک کی قیمتوں میں اس قدراضافہ کیا معنٰی رکھتا ہے؟ اور یہ کہہ دینا کہ 15 دنوں میں خوراک کی قیمتوں کو کم کرلیا جائے گا،

جب حکومت کو خود "ڈیڑھ سال بعد یہ پتاچلاہے" کہ حالیہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے ہوا ہے۔ جبکہ سابق وزیر خزانہ نے ایک سال پہلے اعلان کردیا تھا کہ لوگوںکی چیخیں نکلیں گی!

اب سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس کے بیان پر یقین کریں۔ آیا وزیراعظم صحیح آس دلارہے ہیں یا وزیر صاحب درست آگاہی دے رہے تھے۔ کون صحیح ہے کون غلط اس کا اندازہ ابھی ممکن نہیں۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بیان بازی یا لفاظی کافی نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت نے بہت خوبصورت خواب دکھادیئے۔ بہت ہی بلندوبانگ دعویٰ کردیئے ۔

لیکن ہر گزرتا ہوالمحہ ان کے دعوؤں کی قلعی کھول رہا ہےاور عوام کو خواب خرگوش سے بیدارکررہاہے کہ ابھی بھی منزل بہت دور ہے۔ قول وفعل میں اب بھی ویسا ہی تضاد ہے جیسے پہلا تھا۔ دعویٰ صرف دعوے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

کیونکہ اتنے دنوں سے شور مچنے کےباوجود مہینے بھر بعدوزیراعظم کا جاگنا اور جذباتی جملے بولنا اس بات کا غماز ہے کہ منصوبہ بندی ابھی بھی نہیں کی گئی ہے۔

صرف بیان داغ دیا گیا ہے ۔ کیونکہ مسئلہ کے حل کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہوتا ہے کہ اس " مسئلہ کی وجہ" معلوم کی جائے جب وجوہات کا علم ہوجاتا ہے تو اس کے بعد انہی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایک کرکے ان کے تدارک کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ لیکن وزیراعظم نے " زمینی حقائق" Ground realitesجاننےبغیر حسب سابق سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پہ ڈال دیا۔

اب یہ راگ اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ اس کے الاپنے سے کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہوگا۔ اگر ماضی میں جائیں تو ذرا یاد کیجئے کہ کنٹینر پہ بار بار اعلان ہوتا تھا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آتے ہی کرپشن ـ"90 دن میں ختم کردی جائے گی"۔

اب ڈیڑھ سال سے اوپر ہوگیا کرپشن ختم ہونے کے بجائے نئے نئے انداز سے جنم لے رہی ہے۔ یعنی دعویٰ دعویٰ ہی رہے۔ لوٹے ہوئے مال کی واپسی کے لیے اربوں روپے نیب اور مقدمات پہ خرچ ہوگئے لیکن " ایک پائی" واپس نہ آئی۔

اور اسی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے انتظار میں کوئی دوسرے اہم منصوبوں پہ کام نہ ہوسکا۔ کوئی نئے بجلی، گیس ، ٹرانسپورٹ ، ڈیم کے منصوبے شروع نہ ہوسکے۔

ٹیکسوں کے اہداف کا تخمینہ اور دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ تارکین وطن اور سمندر پار پاکستانیوں سے غیرمعمولی رقم کا حصول ایک خواب ہی رہا ۔ اب بھی ساڑھے تین سال باقی ہیں اپنے گرد امیروں کو نہیں محب وطن پاکستانیوں کو جمع کریں۔

مشیروں کو نہیں منتخب افراد کو وزارتیں دیجئے۔کیونکہ یہ افراد اپنے حلقہ اور ووٹرز کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ جبکہ غیرمنتخب افراد مشیر بننے کے بعد حقائق کے بجائے اپنے عہدے کی مدت بڑھانے کے لیے شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بن جاتے ہیں۔ اور اپنی عینک وزیراعظم کو پہنادیتے ہیں جو سب صحیح، ہر طرف امن وچین ہی دکھاتی ہے ۔

ایسے میں وزیراعظم صاحب بھی گردن میں بغیرخم ڈالے سب کو للکارتے ہیں۔ پلک جھپکتے میں ہر مسئلہ کے حل کا اعلان کردیتے ہیں۔ جبکہ طریقہ کار کا علم ان کو بھی نہیں ہوتا ۔ ویسے بھی تو " کن فیکون" صرف ایک ہی ذات کرسکتی ہے۔جو ہر عیب سے پاک ہے انسان نہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین