مہمان نوازوں کی سر زمین، صوبۂ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اُردو اور بلوچی کے ممتاز شاعر، عطا شاد،محقّق اور ڈراما نویس بھی تھے۔ان کی شاعری کی وہ خاص بات ہے کہ یہ اپنا ایک انفرادی ماحول رکھتی ہے، کچھ دیر کے لیے ہی سہی، لیکن قاری کو ایسے ماحول میں لے جاتی ہے ، جو بالکل منفرد اوربے حد دل کش ہے۔ عطا شاد کے بارے میں پروفیسر مجتبیٰ حُسین لکھتے ہیں کہ ’’عطاشادؔ کی شاعری میرے لیےایک سفر تھی ۔ جس میں زمین کی گردش ، موسمی تغیّرات، انسان کی انفرادی خواہشات ، اجتماعی مطالبات ،ان پر ڈھائے گئےمظالم اور اُن کے خلاف کی جانے والی جدّوجہد کی آوازیں مجھے پکارتی اور ایک ایسے عالم میں پہنچاتی رہیں، جو مجھ میں پہلے سے تھا، مگر مَیں اس سے واقف نہیں تھا۔
عطا شاد ،ؔ نئی واقفیت کی شاعری ہے ۔ ‘‘ڈاکٹر وزیر آغا نے اُن کی شاعری کے حوالے سے لکھا کہ’’ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کبھی تو بلوچی زبان میں نظم کی گئی عشقیہ داستانوں کے حوالے دیتا ہے اور کبھی بلوچستان کے ارضی آثار، یعنی چلتن بولان کا ذکر کر تا ہے۔ تاہم، ان کی شاعری میں بلوچستان کی سر زمین سے دِلی لگائو ایک ایسے منظر کی صُورت ابھرا ہے ،جو شہروں ، دیہات ، باغوںاور حد ّ ِ نظر تک پھیلے سر سبز باغات، کھیتوں کا منظر نہیں ، بلکہ ایک ایسی سنگلاخ سر زمین کا منظر ہے، جو گرمیوں میں تَپ جاتی ہے اور سردیوں میں یخ بستہ ہوجاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا خطّہ ہے، جس میں سنّاٹا کورے کاغذ کی طرح بچھا ہے ۔ جہاں کے موسم شکن ،دَر شکن چادر کی طرح چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں ۔ جہاں پتھر بوڑھے ہوچکے ہیں اور پہاڑ اپنی روئیدگی سے دست کش ہوکر اہراموں کی طرح نظر آنے لگے ہیں ۔
مگر ا س محیط و بے کراں سنّاٹے کے اندر خیمہ اور دیا، ناقہ اور چاند زندگی کی رمق کی طرح موجود ہیں۔دیکھا جائے تو یہ سبھی محض دیکھنے کی حد تک جدا جدا ہیں ، ورنہ یہ اصلاً ایک ہی چہرے کے مختلف رُوپ اور زاویے ہیں ۔ چہرہ جو خود بلوچستان کا چہرہ ہے ۔ سُرخ و سپید ، خوش بُو کا مسکن او ردیے کی طرح روشن۔ کہیں وہ چاند کا سکّہ بن کر آسمان کی طرف اُچھل جاتا ہے ،کبھی خیمہ بن کر زمین پر اُتر آتا ہے ، تو کبھی شاعر کا رُوپ دھار کر لَو دینے لگتا ہے ‘ ‘؎ قفس کریں گی یہ دو چار بوند کیا صحرا…سمٹ گیا وہ جو پندار کا سمندر تھا…مَیں شادؔ ،یوں بھی گیا اپنی عُمر سے آگے …کہ میرے ساتھ میری حسرتوں کا لشکر تھا۔
عطا شادؔ سوچتا بلوچستان ، بولتا بلوچستان اور مجسّم بلوچستان ہے ۔ ایسے معاشرے میں ،جہاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت احتیاط برتنی پڑتی ہے، انہوں نے اظہار کے لیے اشاروں کنایوں ، موسموں ، آئینوں، جھرنوں، برف ، آفتاب ، چاندنی ، کوہساروں ، رات ، چشموں، آنکھوں ، دھنک،شبنم، الائو، تیرگی ، سورج ، ماہ تاب، آتش گہہ ، دھوپ ، سبزہ ، آگ ، سردی ، گرمی ، پتھر ، موج کی آہنی دیوار ، آب و ہوا ، سراب ، اجالوں ، آب شاروں جیسے مانوس او رنامانوس استعاروں کا کثرت سے استعمال کیا۔ان کی شاعری میں جابجا برف ، سردی ، پتھر ، برفاب ، زمستان کے الفاظ کمال ہنر مندی سے بروئے کارملتے ہیں، جن میں شعری حُسن کے ساتھ ، اظہار کے نئے دَر وا ہوتے ہیں ۔؎ مجھ شاخِ برہنہ پہ سجابرف کی کلیاں…پَت جھڑ پہ تِرے حُسن کا احسان ہی رہ جائے ۔ عطا شادؔ کو ہم اتنا ہی سمجھ پائے ہیں ،جتنی ہماری شعور کی حد ہے ۔ بظاہر ،مزاحمتی شاعر نہیں، مگر اُن کے اشعار میں پنہاں مقصد کا ادراک ہو تو وہ بڑے انقلابی اور مزاحمتی شاعر کے رُوپ میں بھی نظر آتے ہیں۔
ان کے بعض اشعاردیکھنے میں تو بہت سادہ سےلگتے ہیں ،مگر ان کے اندر موجود تہہ دَر تہہ حقیقت کھوجتے ہوئےبڑے راز ہائے سر بستہ وا ہوتے ہیں ۔ ؎سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے…کس نے کہا تھا گھر لبِ دریا بنائیےاور؎ دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر…اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا۔ یعنی سختی اور صعوبت کی تدبیر یا اس کا حل اگر کم زور ہے، تو حالات وہی رہیں گے ۔ سیاسی ، سماجی اور انفرادی سطح پر اگرصحیح تدبیر نہیں کی جائے،تو حالات نہیں بدلیں گے ۔ ؎ ہمیں تو فکر ، مکاں کی بھی ہے ، مکیں کی بھی… حضور آپ تو دیوار ودَر کی سوچتے ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اس سے زیادہ گہری بات اور کیا ہوسکتی ہے ۔
اُن کی شاعری میں حال کا شعور ، تاریخ کا ادراک اور روایت کی چاشنی شعری لوازم اور رچائو کے ساتھ جابہ جا ملتی ہے ،جس سے بلوچستان کا کرب بھی جھلکتا ہے ۔ وہ ایسے داستاں گو ہیں، جو محض داستان نہیں سُناتے، بلکہ اس میں موجود کردار خود اپنی اور بلوچستان کی داستان سُنا رہے ہوتے ہیں ۔؎خنجر سے کہا ں فصل کٹی ، موجۂ خوں کی… سورج کو کبھی رات ، کبھی راکھ نہ پہنا…اس تن پہ ہر اِک تارِ کفن، مار ِکفن ہے… اس تَن کو عطا ؔخلعت ِضحاک نہ پہنا۔؎عطاؔ میں کربلا کا خمارِ تشنگی ہوں…جنم لیتا ہوں مر کے، فنا ہوتا ہوں جی کے۔؎ وہ اِک رشتۂ جاں پھول کا خاک سے ہے… وہ اِک ربطِ ازل ارض کا افلاک سے ہے۔؎ فکر امروز سے ، اندیشہ فردا سے بلند۔
اُن کے الفاظ میں ڈھل کر حانی و شہہ مرید ، مہناز شہداد،عُمراورمہر گڑھ کی داستانیںمزیدپُر اثر لگنے لگتی ہیں۔ ؎ڈوب گئے تو جھوٹے ٹھہرے… دریا پار کیا تو سچّے… ایک سو بھیڑیں رکھنے والے …یہ میرے سردار کا حکم ہے… کود پڑو !عطا شادؔ وہ عُقدہ ہے ،جو کُھلتے کُھلتے، کُھلتا ہے ۔ اُن کے ہاں ریاکاری یاد کھا وا نہیں ۔ البتہ ،وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اُس کے لیے بڑی پُرکاری سے ایسے الفاظ یا اظہاریے تلاش کرتے ہیں ،جن سے نت نئے فکری زاویے نمایاں ہوں۔
وہ کسی خاص نقطہ ٔ نظر کی پیروی کرنے کی بجائے انسانیت ، امن ، محبّت اور اعلیٰ ظرفی کا پرچار کرتے ہیں ۔ ؎عطا ؔمیں ان کو بھی دل سے دعائیں دیتاہوں…جو اپنے نفع میں ، میرے ضرر کی سوچتے ہیں۔؎کسی پہ بادِ صبا ،کسی پہ صرصر تھا…مگر گیا تو بھرا شہر دیدہ ٔ تر تھا…ہوا ہوا تو وہی حرف شعلہ پیکر تھا…میری زبان سے نکلا مجھ ہی کو خنجر تھا۔؎پارسائوں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا…ہم سے پی اور ہمیں رسوا سرِ بازار کیا… ہم بُرے کیا تھے کہ اِک صدق کو سمجھے تھے سپر… وہ بھی اچھے تھے کہ بس یار کہا، وار کیا …… سنگساری میں تو وہ ہاتھ بھی اُٹھا تھا عطا ؔ…جس نے معصوم کہا ، جس نے گنہہ گار کیا۔
وہ بلوچستان کا درد سمجھنے والے، اُس کے کرب کی تصویر پیش کرنے والے سچّے مصوّر ہیں۔وہ سنگلاخ پہاڑوں ، چٹانوں، چشموں ،تپتے صحرائوں ، چٹیل میدانوں اور موسموں کو قوّتِ گویائی عطا کرتے ہیں۔ عطا شادؔ بلوچستان کا آئینہ اور استعارہ ہیں۔جو بلوچستان کی نفسیات کو مجسم دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے،اُسے عطا شادؔ کی شاعری اور ادبی نگارشات پڑھنی چاہئیں۔
وہ بلوچستان کے ولیم ورڈز وَرتھ ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ورڈز ورتھ، فطری مناظر کے ظاہری سحر سے متاثر ہوکر اپنی تخلیقات سامنے لاتا تھا اور عطا شادؔ ان مناظر کو اپنی نفسیات او راپنائیت کی چاشنی سے ہم آہنگ کرکے مزید خُوب صُورت بنادیتے ہیں ۔؎کہساروں کی عطا ؔرسم نہیں خاموشی…رات سوجائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے۔؎مجھ شاخِ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں…پتھر پہ تیرے حُسن کا احسان ہی رہ جائے۔در اصل ہم نے عطا شادؔ کو ابھی تک سمجھا ہی نہیں ۔ ان کے ہاں نعرے بازی اور عامیانہ فقرے بازی نہیں ،اس لیے ہم ان کی حکیمانہ اپچ کو سمجھے بغیر ان کے بارے میں یہ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ وہ مشکل الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ۔؎سبز پانی میں…میرے ہاتھوں کی ریکھائیں… موج آزمائیں…پربتوں پر ہوا ئوں کے یہ پیچ و خم…میرے ہی دامنِ دل کا احوال ہیں…مہر وادی میں…بوندوں کی مالامیں… میرے انفاس کی طنابوں سے رِستی ہیں…پھول بنتی… کبھی دھول چُنتی فضا میں…میرے ہی موقلم کی دھنک ہے… روز و شب کی یہ سوغات…میری آنکھوں کے گہرے خنک شامیانے میں…سرمہ نور آسا کے رنگوں کو پھوہارے… مَیں ہوں دھرتی کا بیٹا…مجھ کو آہالہ ہے… ہر گام پر میری سوچوں کی… زرتاب ریشم… دامِ دل ہے مجھے… میری بکھری نظر کا طالب، خواب پرچم…زندگی کی عطاؔ ہے… یہ گرداب روزن کشا… میری پہچان کی سرحدوں کی ہو…امیری دھرتی میری مزرعہ جاں…میرے ہونے کا عنوان۔
نام وَر شاعر، احمد فراز عطا شادؔکے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ ایک تو اپنا ڈِکشن رکھتے تھے ، دوسری سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ اپنی سر زمین کی خوش بُو ، اپنی شاعری میں سمیٹے ہوئے تھے ۔بلوچستان کی پوری ساخت ایک مجسّم صورت ’’ عطا شادؔ‘‘ ہی میں نظر آتی تھی ۔‘‘جس فن کا ر کو اپنی دھرتی، اپنے لوگوں ،اپنے اقدار اور اپنی زمین سے پیوستہ حسین مناظر سے عشق ہو ،جو اپنی شاعری میںجابہ جاان عوامل کا ذکر فن کارانہ مہارت سے کرے ،جسے اپنے اردگرد کے ماحول ، قدرت کی صنّاعی اپنے وطن کے موسموں ، جغرافیائی خدوخال اور مناظرِ فطرت کا ادراک ہو ، وہ عطا شادؔ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ۔عطا شاد فطرت سے دُور رہ کر اس کی صنّاعی میں زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملاتے، بلکہ اپنی ذات اور سوچ کو بھی فطرت سے ہم آہنگ کرنے میں مصروف ہیں ۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کی ذات، ان کی سوچ اور فن کارانہ پُرکاری سب کچھ اسی فطرت کا حصّہ اور اسی کی مرہونِ مِنت ہے ۔ اپنی ایک نظم’’ کوہ کاکرب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ؎ یہ چشمے کے پانی میں کیسا غبار آگیا ہے …گزرتے ہوئے کاروانوں کی یادیں… جَلے پتھروں پر… ٹھہرتی شَبوں کی ، یہ کیا راکھ لکھ کر گئی ہیں… شکستہ طنابوں پر خیموں کی تحریر کیا تھی… پڑھی بھی نہ جائے، سُنی بھی نہ جائے… وہ بوڑھی زبانوں کی مشفق کہانی تھی کیا…نقش جس کے ہوائوں نے کملا دیئے ہیں… یہ جب میں نے سوچا تو ایسے لگا… جیسے وادی کے سب سرد پتھر پگھلنے لگے ہیں۔
اس نظم میں محض فطرت کو بیان نہیں کیا گیا، بلکہ شاعر کے اپنے اندر موجود صدیوں کے کرب اور احساسات بھی صاف نظر آرہے ہیں۔ کسی محفل میں بلوچستان کے نام وَر دانش وَر اور عطا شادؔ کے ایک قریبی رفیق نے ذکر چھیڑا کہ عطا شادؔ کی شاعری کے حوالے سے کوئی کمٹمنٹ نہیں تھی، کمٹمنٹ کیا ہے ؟ کس قسم کاشاعرکمیٹڈکہلاتا ہے ۔میرا خیال ہے کہ کوئی آدرش اور بہترین انسانی سوچ جو اجتماعی سماجی زندگی میں مثبت افعال کے لیےمہمیز کا کام کرے، کمٹ منٹ کہلاتی ہے ،لیکن جو شخص اپنی زمین اس کے خُوب صُورت مناظر اور اپنی دھرتی کی سوندھی خوشبو کا ذکر تسلسل کے ساتھ کرے ،کیا وہ نان کمیٹڈ کہلائے گا؟
انہوں نے ہرلحظہ اپنی دھرتی کے لوگوں کو سوچ کے نئے زاویوں سے روشناس کروایا۔انہیں بتایا کہ اس سر زمین اور موسموں کی فطری سخت گیری میں بھی لطافت اور حُسن کا پہلو موجود ہے ۔؎پھول، شرارہ ، پتھر ، سبزہ ، کچھ ہے،میری مٹّی ہے… تم سے میرے پیار کا رشتہ کچھ ہے ، میری مٹّی ہے… سورج نے چڑھتے آنگن میں کوئی دھنک لہرائی نہیں…دھوپ کا ڈھلتا ،ڈھلتا سایہ کچھ ہے ، میری مٹی ہے… آنکھوں میں مِرے دیس کے چشمے سوچوں میں مِرے دل کی چمک…لمس تمہارے جسم کا ایسا ، کچھ ہے ، میری مٹی ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک شاعر کا اپنی مٹّی سے اظہارِ محبّت کا تصوّر کیا ہوگا، جو اپنے پیار کا رشتہ جوڑنے کا سبب ہی مٹّی کو تصوّر کرے۔
ہم جب تک عطا شادؔ کو ذاتی پسند ناپسند ، شخصی حوالوں اور ذاتی افعال و اعمال سے دیکھنا نہیں چھوڑیں گے، تب تک ان کے فن کو سمجھ نہیں سکیں گے۔فن کار پر اس کے فن کے حوالے سے تعمیری تنقید ہی بہترہوتی ہے۔عطا شادؔ کے سچّے اور حقیقی فن کار اور فطری شاعر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ انہوں نے مختلف زبانوںکے حوالے سے تعصّب کا شکار ہونے کی بجائے، بعض مقامی زبانوں کے الفاظ و تراکیب اُردو شاعری میں اس طرح ڈھالےکہ وہ ایک اسلوب کی حیثیت اختیار کر گئے ۔انہوں نے کبھی بھی اپنی زمین سے تعلق کے حقیقی رشتے کو پسِ پشت نہیں ڈالا۔ان کے یہاں اُردو شاعری میں بھی بعض مقامی زبانوں کے الفاظ، تراکیب ، تشبیہات و استعارات کا استعمال اس عمدگی سے سامنے آیا کہ اُنہیں بلا چوں چرا قبولیت مل گئی۔ اور اس سے اردو شاعری کا دامن مزید وسیع ہوا۔
عطا شادؔ کی شاعری کا ایک بنیادی وصف ،جو انہیں دیگر شعرائے فطرت سے ممتاز کرتاہے، وہ یہ کہ اُن کے یہاںاپنی سر زمین سے بے انتہا محبت اور اپنائیت صاف نظر آتی ہے۔ وہ فطرت کی محض تعریف پر اکتفا کے متحمّل نہیں ہوسکتے تھے، وہ پہاڑی جھرنوں کی گنگناہٹ سے بھر پورلُطف اندوز ہونےپر بھی یقین رکھتے تھے ۔ عطا شاد،دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے بھی دوست تھے، کیوں کہ یہی ان کا مزاج اور اُن کی فطرت کے عین مطابق تھا۔سو، انہوں نے دشمنوں کے لیے بھی دعائیہ کلمات سے گریز نہیں کیا۔