اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے تعلیمی اداروں میں بچوں پر کیے جانے والے تشدد پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہزاد رائے کی درخواست پر وفاقی اداروں میں بچوں پر ہونے والے تشدد کی قانونی گنجائش تاحکم ثانی معطل کردی ہے۔
عدالت نے شہزاد رائے کی جانب سے دائر درخواست پر حکومت سے 5 مارچ تک جواب طلب کرلیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہزاد رائے کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت کے بعد شہزاد رائے نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا بچوں پر تشدد سے متعلق تاریخی فیصلہ ہے، عدالتی فیصلے کے بعدکوئی ٹیچر بچوں کو مار نہیں سکتا۔
شہزاد رائے نے کہا کہ سندھ میں بچوں پرتشدد کے خلاف قانون موجود ہے ، بچے کی پٹائی کی جاتی ہے جو خلاف آئین ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی بہترین ریسرچ ہے کہ تشدد سے تشدد میں اضافہ ہو جاتا ہے، بچوں کو مارنا ان کی ذہنی نشونما کے لیے نقصان دہ ہے۔
واضح رہے کہ زندگی ٹرسٹ کے صدر اور معروف گلوکارشہزاد رائے نے بچوں پرتشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر آج سماعت ہو ئی ۔
گزشتہ روز شہزاد رائے کی جانب سےدائر درخواست میں سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری قانون ،سیکرٹری تعلیم ،سیکرٹری انسانی حقوق اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو فریق بناتے ہوئےکہاگیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے ، پڑھائی میں بہتری کے لیے بچوں کے لیے سزا کو ضروری تصور کیاجاتاہے ۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں آرہی ہیں ،غیر سرکاری تنظیم ”سپارک“ کی رپورٹ کے مطابق 35000 بچے سزا کی وجہ سے سالانہ سکول چھوڑ رہے ہیں،بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154 پوزیشن پر ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 89 بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دی جائے کیونکہ یہ شق بنیادی انسانی حقوق اور بچوں کے حوالے سے یو این کنونشن کی خلاف ورزی ہے، اسکولز ، جیل اوربحالی مراکز کی جگہ بچوں کو جسمانی سزا پر پابندی عائد کی جائے۔
درخواست میں یہ بھی استدعا بھی کی گئی تھی کہ اسکولوں میں بچوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کے ہر طریقے سے تحفظ کے اقدامات کرنے، یو این کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی جائے۔