سب سے پہلے یہ بتانا چاہوں گی کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ نہ صرف مکمل طور فعال ہے۔الحمدللہ گزشتہ ہفتے اس ادارے میں 73واں گردے کی تبدیلی کا آپریشن کیا گیا۔سال رواں کا یہ ساتواں آپریشن ہے۔اسی طرح گزشتہ ہفتہ جگر کا بھی ساتواں ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ایکٹ 2014 میں جان بوجھ کر یا شاید غیرضروری جلدی کی وجہ سے کچھ ایسے سقم رہ گئے تھے کہ ادارے میں کار کردگی اور شفافیت کے گمبھیر مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ ان مسائل پر تکنیکی ماہرین سے وسیع پیمانے پر مشاورت کے بعد ادارے کے انتظامی اور قانونی مسائل دور کئے اور نئی اصلاحات کو مروجہ قوانین سے ہم آہنگ بنا کر ادارے کو درست سمت میں چلایا ۔ اس نکتہ کا ذکر بھی اہم ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے پی کے ایل آئی کے بارے میں میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کے بر عکس تکنیکی، مالی اور قانونی معاملات میں انتہائی لاپروائی سے کام لیا گیا تھا۔ پوری توجہ ادارے کو جلد سے جلد شروع کرنے پر پر مرکوز کی گئی اور بہت سے پیچیدہ معاملات پر پوراہوم ورک نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ درجنوں آڈٹ پیراز کی صورت میں نکلا، یہاں تک کہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ جدید مشینری اور آلات کی خریداری بڑے پیمانے پر کی گئی مگر ان میں استعمال ہونے والے خصوصی مواد کی سپلائی کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جس سے وسائل کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوا۔ وزارت سنبھالنے کے بعد کی صورتحال یہ تھی کہ ادارہ قانونی، تکنیکی اور انتظامی طور پر بہت سے مسائل کا شکار تھا اور حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اسے فوری طور پر فعال بنانا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات بھی موجود تھے کہ اس ادارے کے ایکٹ کی متنازع شقوں کا جائزہ لیکر پیچیدگیوں کو د ور کر کے شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ ہمارے حکومت آنے سے قبل عدالت عالیہ نے ایک فارنزک آڈٹ کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں فنڈز میں بہت سی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ عدالت عالیہ ہی کے حکم پر اس وقت کے بورڈ آف گورنرز کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور عارضی طور ایک ایڈہاک کمیٹی متعین کی گئی تھی۔ ایک اور مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ اتنے زیادہ وسائل کا استعمال اور بہتر طریقوں سے کیا جا سکتا تھا۔ جیسے کہ جگر اور گردوں کے امراض کا باعث بننے والی وجوہات کا تدارک، یا پھر پہلے سے موجود بڑے اسپتالوں میں جدید یونٹس اور ماہرین کا اضافہ جس سے مطلوبہ نتائج بہترحاصل کئے جا سکتے تھے۔ لیکن چونکہ اس ادارے میں پہلے سے بہت سے وسائل لگا ئے جا چکے تھے اس لیے اب ایک ہی صورت تھی کہ ان وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اسی ادارے کو پہلے سے بہتر شکل میں لایاجائے۔ یہ ذکر بھی اہم ہے کہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ 2014 ایکٹ سال 2014 کے دسمبر میں متعارف کروایا گیا۔ ہمارے سابقہ وزیر اعلیٰ کےتخیل اور تصورات میں جنم لینے والے بڑے پروجیکٹس میں ایک پی کے ایل آئی بھی تھا اور ان کو اس کی تکمیل کی جلدی بھی بہت تھی۔سترہ ارب روپے کی خطیر رقم کے اس پراجیکٹ کے لیے وفاقی سطح پر موجود ایکنک جیسا فورم توکجاکسی پی سی ون بنانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی اور اس سے اگلی بات یہ کہ اتنی بڑی رقم ایک ایسے ادارے کے سپرد کی گئی جس پر مکمل حکومتی کنٹرول بھی نہیں تھا۔ پھر قانونی نکتہ نظر سے حکومت کی مداخلت کو ادارے کے معاملات میں بہت محدود کر دیا گیا تھا۔ ہماری ٹیم نے قانون کے نئے مسودہ پر کام شروع کیا اور مارچ 2019 میں نئے ایکٹ کو پاس کیا گیا۔ نئے قانون کے تحت اس ادارے کو حکومتی کنٹرول میں کر دیا گیا ہے۔ ادارے کے معاملات میں انتظامی اور مالی شفافیت متعارف کروائی گئی ہے۔مئی 2019 میں ادارے میں نئے بورڈ آف گورنر زکا قیام عمل میں لایا گیا جس میں تمام متعلقہ شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اور معروف ناموں کا انتخاب کیا گیا۔ نئے بورڈ آف گورنرز میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اسپتال انتظامیہ کی بھی نمائندگی ہو۔ اسی نوعیت کے دیگر انتظامی فیصلوں سے اس ادارے کو فعال بنا کر کام شروع کیا گیا۔ اسی طرح اسپتال کی اہم پوزیشنز جیسے کہ ڈین، اسپتال اور میڈیکل ڈائیریکٹرز،نرسنگ اور فنانس ڈائریکٹرزاور دیگر اہم عہدوں پر انتخاب ایک سیلیکشن بورڈ کے اختیار میں دے دیا گیا ہے جو میرٹ پر قابل لوگوں کی بھرتی کو یقینی بنائے گا اس سے پہلے یہ بورڈ آف ڈائریکٹر کی مرضی پر منحصر تھا جس میں شخصی پسند اور نا پسند کا عنصر میرٹ کو متاثر کر سکتا تھا۔ مزید براں اب ادارے کی اراضی حکومت پنجاب کی ملکیت ہو گی جو پہلے صرف ادارے کی ملکیت تھی۔ ہمارے حکومت میں آنے کے بعد ادارے میں نئے ڈائیلاسز یونٹس کا اضافہ کیا گیا جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اکتوبر 2019 میں کیا۔ ڈائیلاسز مشینوں کی تعداد اب 63 تک جا پہنچی ہے اور مزید اضافہ جاری ہے۔ صرف 2019 میں مندرجہ ذیل نئی سہولیات کا اضافہ کیا گیا؛ایم آر آئی، لیور ٹرانسپلانٹ، لیتھو ٹرپسی، سپیکٹ سکین، پیٹ سکین، لیب ہسٹو پیتھالوجی، ڈائیلاسز یونٹ ۲، اور ان پیشنٹ بیڈ۔
پی کے ایل آئی کے بارے میں بغیر ثبوتوں اور تحقیق کے بہت سی افواہیں پھیلائی گئیں اور کسی نے اعداد و شمار کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ میں غلط فہمیوں کو دور کر نے کے لیے یہاں کچھ اعداد و شمار بیان کرنا چاہوں گی۔ اب تک اس ادارے میں73 گردوں کی تبدیلی کے اپریشن ہو چکے ہیں جن میں سے 45صرف سال 2018میں ہوئے۔ آوٹ پیشنٹ کے مریض سال2019 میں74119 تھے جبکہ 2018میں یہ تعداد 61183تھی۔ 2019میں آئی پی ڈی پیشنٹ ایڈمیشن2493تھے جبکہ2018 میں 1508تھے۔ ریڈیالوجی پروسیجر 2019 میں 26073تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 18280تھی۔ نیوکلیئر میڈیسن کا آغاز 2019 میں کیا گیا اور اب تک اس سے 613مریض فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ 2019میں ڈائیلاسز کی تعداد 12974تک جا پہنچی جو2018 میں6140 تھی۔ ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ سینسز کی تعداد 2019 میں 1159 جبکہ 2018 میں محض106 تھی۔ یورالوجی اور گیسٹرو پروسیجرز کی تعداد2559 تھی جو 2018میں 1646 تھی۔ ادارے نے 2019میں175514پیتھالوجی ٹیسٹ کیے جو 2018میں 122413 تھے۔عوام کے ٹیکس کے پیسے سے پی کے ایل آئی پر بہت سے وسائل لگائے گئے ہیں، حکومت وقت کا کام عوامی وسائل کا بہترین استعمال ہے۔ چنانچہ ایک ایک پیسے کا استعمال امانت سمجھ کر کیا جائے گا۔ یہ ادارہ عوام کی امانت ہے اور میری ہر ممکن کوشش ہے کہ پی کے ایل آئی کو ایک سنٹر آف ایکسیلنس بنایا جائے۔