اس وقت پوری دنیا کے ممالک توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے جتن کر رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ توانائی کی افراط اور مسلسل ترسیل کے بغیر کاروبارِ حیات کا چلنا تقریباً ناممکن ہے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے جب بھی تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو مہنگائی کو گویا پَر لگ جاتے ہیں رہی بات بجلی کی تو پاکستان کم و بیش دو دہائیوں سے اس کی تفریط اور گرانی سے الجھ رہا ہے جس کی ایک سے زائد وجوہات میں آبی ذخائر اور بجلی کے دیگر پیداواری منصوبوں کے فقدان کے علاوہ متعدد ایسے منصوبے ہیں کہ پاکستان مجبوراً مہنگی بجلی خریدنے کا پابند ہے۔ گیس کے ذخائر کم ہوتے چلے جانے کے باعث وطنِ عزیز کے صارفین ہی مشکل کا شکار نہیں، گیس سے بجلی بنانے کی راہ میں بھی رکاوٹ آتی ہے۔ اس ضمن میں خوش آئند پیش رفت یہ ہے کہ اسلام آباد میں انہی معاملات کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے لئے متعلقہ حکام کو غیرمعمولی حل تلاش کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ مقامی صارفین کو ریلیف دیا جا سکے۔ اجلاس میں متعدد تجاویز زیر غور آئیں اور معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے طویل المدتی منصوبہ پیش کیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ گزشتہ حکومت کے لگائے گئے مہنگے ترین پاور پلانٹس کا بوجھ عوام برداشت کر رہے ہیں۔ بجا کہ موجودہ حکومت کو بہت سے مسائل ورثے میں ملے جن سے عوام کو آگاہ کرنے میں بھی مضائقہ نہیں تاہم ماضی کی کوتاہیاں مستقبل کے لئے بہترین فیصلے کرنے کیلئے مشعل راہ بھی بن سکتی ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کا احیا کیا جا سکتا ہے اور جس ڈیم کی بات سابق چیف جسٹس نے کی تھی اس کی تعمیر سے بجلی کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ حکومت جو اقدام بھی مناسب سمجھے، کرے۔ اور عوام کو مشکلات سے نجات دلائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998