• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی۔۔۔ بریڈ فورڈ
بریڈفورڈدعوت حق کے ابتدائی دنوں میں صحابہ کو حکم تھا کہ اپنے اسلام کو کافروں کے سامنے ظاہر نہ کیاجائے ۔ اس سے ابتدائے دعوت ہی سے مخالفت کااندیشہ تھا ۔اس لیے چپکے چپکے دعوت دی جاتی رہی ۔ شمع رسالت کے گرد پروانے جمع ہونے شروع ہوگئے ، مکے کی سنگلاخ زمین میں شجراسلام کی آبیاری ہونے لگی ۔یہ کیفیت کوئی پانچ چھ سال تک رہی ہے ۔ جب مومنوں کی تعداد ، اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد انتیس تک پہنچی توحضر ت ابوبکر کادل بہت خوش ہوا ۔ وہ جو عرصے سے خوشبو اپنے نہاں خانہ قلب میں چھپائے بیٹھے تھے ۔ وہ مہک جو عرصہ دراز سے روکے ہوئے تھی اب وہ پھیلنا چاہتی تھی ، باہر نکلنا چاہتی تھی ۔یہ ایک کیفیت ہے جس کو وہ لوگ اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں جو اس دور سے گزرے ہوئے ہوں ۔ اسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک دن ابوبکرعرض کرنے لگے ، حضور اجازت دیں کہ میں کفار مکہ کے سامنے اپنے ایمان کااظہار کروں ابتدا میں آپ نے انکار فرمایا۔لیکن ابوبکر کے اصرار سے اجازت دے دی سب ساتھیوں کو لے کر ابوبکر صحن کعبہ میں آپہنچے ۔ساتھی سامنے بیٹھ گئے اور ابوبکر نے خطبہ شروع کردیا۔ یہ سب سے پہلا خطبہ ہے جو اسلام کی تاریخ میں پڑھا گیا ، جسے ابوبکر نے صحن کعبہ میں سنایا ۔ کفار مسلمانوں کا یہ اکٹھ دیکھ رہے تھے ۔ جب انہیں احساس ہوا کہ ابوبکر تو اسلام کی تبلیغ کررہاہے تو وہ بھی ان کے قریب آگئے ۔پہلے آوازیں بلند کیں کہ کیا کررہے ہو ۔ جواب دیااللہ کانام لے رہے ہیں ۔ کفار نے کہا تمہیں خانہ کعبہ میں یہ حرکت کرنے کی جرات کیسے ہوئی ۔ فرمایاللہ کے گھر میں بھی اگر اللہ کانام نہ لیاجائے تو پھر کہاں لیاجائے ۔ کفار بولے تمہیں ہم نے اس سے روکاہے کہ اپنے گھر میں جو مرضی کرو لیکن یہاں ہماری مرضی کے بغیر کوئی وعظ تقریر اور خاص طور پر اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ابوبکر نے کہاتم ہمیں نہیں روک سکتے ۔ کرلوجو کچھ کرنا چاہتے ہو ۔ بس ان الفاظ کا کہناہی تھا کہ سب مشرکین مسلمانوں پر بھوکے گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔ اور ابوبکر کو نشانے پر رکھ لیا ۔حالانکہ ان کی عزت و شرافت مسلمہ تھی ۔ ان کاوقار مانا ہواتھا۔ لیکن اسلام کے ساتھ مشرکین کی عداوت ہر لوہ و لحاظ سے برتر ہوگئی ۔ حضرت ابوبکرؓ کو اتنا مارا کہ سارا چہرہ لہولہان ہوگیا ۔ ناک کان سب سے خون رسنے لگا ۔جوتوں سے لاتوں سے ان کواندھا دھند ضربیں لگائیں ۔کفار حضرت ابوبکر کو مارتے اور ساتھ ساتھ طعنہ دیتے جاتے کہ اَتَجْعَلَ الْٰالِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِداًبھلا دیکھو سب خداؤں کو ایک ہی خدا کردے گا۔ عتبہ بن ربیعہ نام کابدبخت اس قدر جوشیلا تھا کہ اس نے بڑی بے رحمی سے ابوبکر کو ضربیں لگائیں ۔ حضرت ابوبکر مار کھاتے جاتے تھے اور زبان سے رب کائنات کی بڑائی بیان کرتے جاتے تھے ۔تَبَارَکْتَ یَا ذَ الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِا ے عزت و جلال والے تیری ذات بڑی بابرکت ہے ۔اس وقت کیا حال ہوا ہوگا آنحضورؐ کا جن کے پیارے دوست کو ظالموں نے محض اللہ کانام لینے کی پاداش میں اتنا زخمی کردیا ۔ آہ سچ سے راہ وفا میں یہ مقام تو آتا ہی ہے ۔آہ یہ تو وہی بات ہوئی جو مومن آل فرعون نے حضرت موسیٰ ؑکے قتل کافیصلہ کرنے پر فرعون سے مخاطب ہوکرکہی تھی کہ تم اس کو محض اس لیے قتل کرناچاہتے ہو کہ وہ کہتا میرا رب اللہ ہے ۔(سورہ مومن)حضرت ابوبکربے ہوش ہوگئے ان کی سانس اکھڑ گئی ،ان کو بے ہوش ہوتادیکھ کر دشمن بھاگ گئے ، صحن کعبہ خالی ہوگیا ۔ابوبکر کے قبیلے بنوتمیم کو خبر ملی تو وہ صحن کعبہ میں جمع ہونے لگے ۔ ابوبکر کو اٹھا کر ان کے گھر پہنچا دیا ۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اس واردات کے بعد جب حضرت ابوبکر گھر پہنچے ہیں تو یہ حال تھا کہ سر پر جس جگہ ہاتھ لگتا وہیں سے بال الگ ہوجاتے ۔ سب سے زیادہ بدبختی کامظاہرہ عتبہ نے کیا ہے ۔ بنوتمیم نے مسجد کعبہ میں اعلان کردیا کہ اگر ابوبکر اس حادثے میں اس جہان سے خدانخواستہ گزرگئے تو ہم اس کے بدلے میں عتبہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔ بھرپور بدلہ لیں۔بنوتمیم کے اس اعلان سے مکے میں سراسیمگی پھیل گئی ۔ چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔حدود حرم میں ایک نئی جنگ ، نئی چپقلش اورایک خوفناک معرکے کے آثار پیدا ہوگئے ۔ ادھر ابوبکر شام تک بے ہوش رہے ۔اپنے پرائے سبھی ان کے اردگرد کھڑے ہیں کہ دیکھیں ابوبکر کو ہوش آتاہے یانہیں ۔ دوپہر گزرگئی ، شام آگئی ، دن ڈھلنے لگا، اور سورج غروب ہوگیا… اچانک ابوبکر کی آنکھوں میں حرکت پیدا ہوگئی ۔پتلیوں میں چمک پیدا ہونے لگی ۔لب ہلنے لگے ۔سب دوڑے کہ انہیں پانی پلائیں ۔ اور ہوش میں لائیں ۔ لیکن ابوبکرنے نقاہت کے باوجود پانی پینے سے انکارکردیا ۔لب ہلتے دیکھ کر لوگ قریب ہوئے تو سنا کہ ابوبکر پوچھ رہے ہیں ۔ رسول اللہ کا حال کیساہے ۔یہ سن کران سب کو بڑا تعجب ہوا ، انہیں بڑی مایوسی ہوئی کہ جس کی وجہ سے یہ ساری مصیبت آئی ہے ، پھر بھی اسی کا دم بھر رہاہے ۔نہ کھانے کی ہوش ، نہ پینے کی طلب ، بس خواہش ہے تو یہی کہ رسول اللہ کیسے ہیں۔ یہ سنتے ہی قبیلے کے لوگ بددل ہوکر چلے گئے کیونکہ انہیں یہ راز معلوم نہ تھا کہرخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ ایسا دوسرا آئینہنہ کسی کی بزم خیال میں نہ نگاہ آئینہ ساز میںاور ابوبکر کی والدہ سے کہنے لگا انہیں کچھ کھلاؤ پلاؤ اور کچھ سمجھاؤ ۔ ابوبکر کی والدہ ام خیر اب اپنے بیٹے کے ساتھ تنہا رہ گئیں ۔ فوراً دودھ گرم کرکے لائیں کہ کچھ پی لو ۔ کمزوری و نقاہت بہت زیادہ ہے ۔ لیکن ابوبکر کی ایک ہی رٹ تھی کہ رخ مصطفیٰ کے دیدار بنا کچھ نہ کھاؤں گاماں کہنے لگی مجھے تو کچھ پتہ نہیں ہے کہ آنحضور کاحال کیسا ہے ۔ ابوبکر نے کہا آپ عمر کی مومنہ بہن ام جمیل فاطمہ سے جاکر دریافت کریں ۔بوڑھی ماں گرتی پڑتی فاطمہ کے گھر گئی ۔ام جمیل سے ابوبکر کی والدہ نے آنحضور کے بارے میں دریافت کیا۔ وہ بھی عام دستور کے مطابق اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں ۔ فرمانے لگیں میں کیا جانوں کون محمد اور کون ابوبکر؟ لیکن تمہارے بیٹے کی یہ حالت سن کر رنج ہوا ۔ اگر کہو تو میں چل کر اس کی حالت دیکھوں ۔ ام خیر کے ساتھ ام جمیل بھی آگئیں اور ابوبکر کی حالت دیکھ کرتحمل نہکرسکیں اور بے تحاشا رونے لگ گئیں کہ بدکرداروں نے کیا حال کردیاصاحب محمد کا۔خداان سے نمٹے ۔ابوبکر نے بمشکل آنکھ کھول کر ام جمیل کو روتے دیکھا تو ان سے بھی رسول اللہﷺ کاحال دریافت کیا ۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی والدہ کی طرف اشارہ کیا کہ وہ سن رہی ہیں ۔ ابوبکر نے کہا ان کی فکر نہ کرو ۔تب ام جمیل نے خیریت سنائی کہ آنحضور تو بحمد اللہ بالکل خیرت سے ہیں ۔اور آپ کی طرف سے بہت فکرمند ہیں ۔ ابوبکر نے پوچھا کہ اس وقت آنحضور ہیں کہاں ؟ ام جمیل نے بتایاکہ دار ارقم میں تشریف رکھتے ہیں ۔ فرمایااس وقت تک میں کوئی چیز نہ کھاؤں گا نہ پیئوں گا جب تک آنحضور کی زیارت نہ کرلوں ۔ والدہ نے اس کاانتظار کیا کہ لوگوں کی آمدورفت بند ہوجائے ۔ مبادا کوئی دیکھ لے اور اذیت پہنچانے کا سوچے ۔جب رات کا کافی حصہ گزر گیا تو بیٹے کو لے کر آنحضور کی خدمت میں ارقم کے گھر پہنچ گئیں۔ حضرت ابوبکر ؓ آنحضور سے لپٹ گئے۔ آنحضور بھی لپٹ کر روئے ۔ اوروہاں پر موجود مسلمان بھی رونے لگے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔وہ آستاں نہ چھٹا تجھے سے ایک دم کیلئےکس کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیےجفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیںستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا نہیںاس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے درخواست کی کہ یہ میری والدہ ہیں ۔ آپ ان کیلئے ہدایت کی دعا بھی فرمادیں اور ان کو اسلام کی تبلیغ بھی فرما ئیں ۔ آنحضور نے پہلے ان کیلئے ہدایت کی دعا فرمائی ۔اس کے بعد ان کو اسلام کی ترغیب دی ۔ وہ بھی اس وقت مسلمان ہوگئیں ۔
تازہ ترین