• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب انتونیو گوتریس کا چار روزہ دورۂ پاکستان اور اس میں ان کا ابلاغ بہت معنی خیز اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی عظیم سفارتی فتح ثابت ہوا۔ 

سال ہونے کو ہے جب نو منتخب بھارتی ہندو بنیاد پرست قیادت نے پلوامہ کے خونی ڈرامے پر یکدم پاکستان پر لگائے الزام کو سچ ثابت کرنے اور انتقام کا وعدہ پورا کرنے کا تاثر دیتے، پاکستان کے خلاف محدود فضائی حملے کی مہم جوئی میں ذلت آمیز شکست سے خود ہی دنیا پر پاک فضائیہ کی اعلیٰ پیشہ ورانہ دفاعی صلاحیت اور اپنا نکماپن عیاں کر دیا۔ 

چند روز بعد ہی انتخابی فتح کے نشے میں ڈوبی بھارتی حکومت اور الیکشن مہم میں اس سے محو ہونے والے کروڑ ہا ووٹرز کا مورال مکمل زمین سے لگ گیا۔ ایسا ہونے میں چند روز بھی یوں لگے کہ برہمنی کارپوریٹ سیکٹر کا ایجنٹ بھارتی مین اسٹریم میڈیا، جو دنیا کے میڈیا اسکالرز کی رائے میں مکمل ریاستی میڈیا بن چکا ہے، نے پاکستان کے خلاف کی جانے والی ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کی شرمناک شکست میں تبدیل ہونے کو اپنی بڑی فتح بناکر پیش کیا۔

لیکن پاکستان کے دنیا کے سامنے ٹھوس ثبوتوں کے سامنے حقائق لانے، بھارتی پائلٹ کی گرفتاری اور رہائی اور خود بھارتی اپوزیشن، فضائیہ کے سربراہ، سابقہ فوجیوں اور میڈیا کے پروفیشنل سیکشن کے چبھتے سوالوں کی بوچھاڑ پر شکست سے پہلے وزیراعظم مودی کی مایوسی اور بوکھلاہٹ کو بھارتی ووٹرز سے لے کر ساری دنیا نے پڑھ لیا کہ حقائق کیا ہیں۔

اس پس منظر کے ساتھ 5ماہ بعد ہی بھارتی بنیاد پرست وزیراعظم نے اپنے دست راست نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول اور سیاسی جانشین وزیر داخلہ امیت شا کے ہاتھوں اپنے گلے میں آرٹیکل 370اے اور 35اے کی تنسیخ، شمال مشرقی علیحدگی پسند ریاستوں کو بھڑکانے والے کالے قوانین، سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں 310روزہ (جاری) کرفیو اور دہلی دھرنا کے طوق اپنی گردن میں ڈالے، جو نہ اتارے جا رہے ہیں اور گلے میں پہنے پہنے عذابِ مسلسل بن گئے ہیں۔ 

مسئلہ کشمیر 5ماہ میں دو مرتبہ سیکورٹی کونسل (بند کمرے میں ہی سہی) میں زیر غور آیا اور جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس (2019) میں عمران خان، طیب اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کے مسئلہ کشمیر پر جرأتمندانہ، حقیقت پسندانہ اور پُراثر خطاب نے نہ صرف یہ کہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان کے اولین سفارتی ہدف اور بھارت کے بالکل برعکس، سنگین عالمی اور شدت سے حل طلب مسئلے کے طور پر اجاگر کرنے میں نتیجہ خیز کردار ادا کیا بلکہ تینوں فاضل اور بہادر عالمی مسلم رہنمائوں نے طاقتور یا حجم میں بڑے ممالک کے ’’قومی مفادات‘‘ کے مقابل اقوام متحدہ کے منظور اور تنازعات کے منظور شدہ حل کو اہمیت نہ دینے اور مزاحمت کرنے اور اس کی باہمی منافقانہ قبولیت کی ذہنیت کا پردہ بھی چاک کر دیا۔

ہر تین رہنمائوں کے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کی حقیقت کو دنیا پر واضح کرنے سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی پریکٹس کا یہ باطل لیکن قبولِ عام بیانیہ کہ خارجی تعلقات میں اصول، منشور اور عالمی اتفاق کی کوئی اہمیت نہیں، سب کچھ’’قومی مفاد‘‘ ہے، چیلنج ہوگیا۔ 

اور یہ سوال پیدا ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی اور اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں زیادہ مقدم اور اہم ہیں ، یا ان سے متضاد کشمیر اور اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں پر بھارت اور اسرائیل کے ’’قومی مفاد‘‘ (قبضے) کو تسلیم کر لیا جائے؟کیا کسی طاقتور یا محض بڑے حجم کے ملک کی مزاحمت یا ہٹ دھرمی سے اقوام متحدہ کی قراردادیں اور فیصلے ختم ہو سکتے ہیں؟ 

بلاشبہ سیکورٹی کونسل کے ’’قومی مفاد‘‘ کی آڑ میں عالمی ادارے کے منشور اور قراردادوں سے متصادم لی گئی پوزیشن (بزور ویٹو پاور) اور بڑی منڈیوں کی بھی عالمی اتحاد سے ٹکرائو کرنے والے ’’قومی مفادات‘‘ نے اقوام متحدہ کے اعتماد و وقار کو زیرو کرکے رکھ دیا تھا۔ 

فقط چار کیسز اقوام متحدہ کے مایوس کن کردار اور اس کے کرتا دھرتائوں کی ذہنیت کو مکمل بے نقاب کر چکے تھے مسئلہ کشمیر اور فلسطین اور پھر سوڈان اور انڈونیشیا کی تقسیم کیلئے ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کا بذریعہ ریفرنڈم خود مختار ریاست کا درجہ حاصل کرنا۔

لیکن دنیا ایسے نہیں چل سکتی نہ چل رہی ہے۔ پورے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور سائوتھ چائنا تک جنگ و جدل کا ماحول ہے اور ایٹمی جنگ تک کے خطرات امڈ رہے ہیں۔ 

اگر دنیاکا پُرامن ہونا مطلوب ہے تو اقوام متحدہ کے منشور کا احترام کرنا ہوگا اور اس کے طے شدہ فیصلے، جو پوری عالمی برادری کے اتفاق و اتحاد کی شکل ہے، کو من و عن نافذ العمل کرنا ہوگا۔ طیب اردوان، مہاتیر محمد اور عمران خان نے مکمل عقلی دلائل اور عملی اور زندہ حقائق کی روشنی میں عالمی برادری پر یہ ہی واضح کیا ہے۔ 

ان تینوں کا یکساں بیانیہ ’’اصول، منشور اور عالمی فیصلے کچھ نہیں اصل حقیقت قومی مفادات کی ہی ہے‘‘۔ٹھیک ٹھاک چیلنج ہے، جو ملائیشیا اور ترکی نے اپنے جائز قومی مفادات کو دائو پر لگا کر اور پاکستان نے اپنی شدید بحرانی کیفیت میں دیا ہے۔

اسی کا حاصل ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب انتونیو گوتریس اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے پاکستان کے چار روزہ دورے پر آئے اور اس دوران انہوں نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دو طرفہ مذاکرات سے حل کرنے پر زور دے کر اس زندہ حقیقت پر مہر ثبت کردی کہ ’’مسئلہ کشمیرایک عالمی حل طلب مسئلہ ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اپنے تئیں اس کا حل نکال چکا ہے، جس پر عملدرآمد کیلئے پاک، بھارت دوطرفہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ گویا بھارت پر واضح کردیا گیا ہے کہ قبضے، عسکری مزاحمت جیسے کشمیر کو ہڑپ کرنا، اپنا قومی مفاد بتا جتا ، آج کی دنیا میں نہیں مانے جا سکتے۔ 

پھر یہ بھی کہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی تشویشناک اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے متصادم سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے، وگرنہ گوتریس تین مرتبہ کرفیو ختم کرنے پر زور نہ دیتے۔ 

چین، ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کے تاریخی سفارتی کردار سے ہی سیکرٹری جنرل یو این کا دورۂ پاکستان ممکن ہوا جو برسوں سے جمود لیکن پاکستان کی مسلسل سفارتی کوششوں کا حاصل ہے، جس میں پاکستان کو ایک پُرامن اور عالمی امن میں کردار ادا کرنے والا رکن ملک قرار دیا گیا۔ 

مودی کا اس حاصل پر اس کے سوا کوئی جواب ہو بھی نہیں سکتا کہ ’’ہم عالمی دبائو کی کوئی پروا نہیں کرتے‘‘۔ یہ وہ مودی ہے جو پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کے مشن پر تھا۔

تازہ ترین