• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں، لیکن نیب سے ڈر لگتا ہے

بات چیت: منوّر راجپوت

(عکّاسی: اسرائیل انصاری)

محسن شیخانی معروف بلڈر اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے منتخب چیئرمین ہیں۔ وہ اِس سے پہلے بھی کئی بار اِس عُہدے پر فائز رہے ہیں۔ میڈیا سمیت ہر فورم پر اپنے شعبے کا بہترین انداز میں مقدمہ لڑتے ہیں۔ مُلک کی موجودہ معاشی صُورتِ حال، خاص طور پر تعمیراتی صنعت کے تناظر میں اُن کے تجزئیے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ گزشتہ دنوں’’ آباد ہاؤس‘‘ کراچی میں محسن شیخانی سے ہماری ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

س: ’’ آباد‘‘ کیا ہے؟ اور اِس کے پلیٹ فارم سے کیا سرگرمیاں سرانجام دی جاتی ہیں؟

ج: ’’ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز‘‘ جسے مختصر طور پر’’ آباد‘‘ کا نام دیا گیا ہے، مُلک بھر کے بلڈرز اور ڈیولپرز کی واحد نمایندہ تنظیم ہے، جسے ہر سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اِس تنظیم کے 11سو کے قریب ممبرز ہیں۔یہ جہاں اپنے ممبرز کے قانونی حقوق کے تحفّظ کا فریضہ سرانجام دیتی ہے، وہیں اِس کے پلیٹ فارم سے عوام کو سستی اور معیاری رہائش فراہم کرنے کی بھی سعی کی جاتی ہے۔ 

یہ تنظیم اپنے ممبرز کے ذریعے مُلکی معاشی ترقّی میں بھی ایک اہم اور نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ہم مختلف شہروں میں پراپرٹی ایگزی بیشنز کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں عوام اور تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد کی مثالی دِل چسپی رہی ہے۔ ایسی ہی ایک نمائش گزشتہ ہفتے کراچی میں ہوئی، جو اندازے سے بڑھ کر کام یاب رہی۔

س: تعمیراتی صنعت کا پاکستان کی معیشت میں کتنا حصّہ ہے؟

ج: دیکھیں جی! یہ عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ رئیل اسٹیٹ سے پوری معیشت جُڑی ہوتی ہے۔ اِس کی ترقّی سے 72 انڈسٹریز کو براہِ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ ملازمتوں کے وسیع مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کسی مُلک میں معاشی بحران ہو، تو وہاں عام طور پر تعمیراتی انڈسٹری کو اوپر اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، کیوں کہ اِس سے باقی صنعتیں بھی کھڑی ہو جاتی ہیں۔ تاہم، ہمارے ہاں اِس سیکٹر کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی، جو اِس کا حق ہے۔

س: اِس وقت تعمیراتی صنعت کہاں کھڑی ہے؟

ج: اس انڈسٹری کو تو کبھی اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ اِسے کسی نے سمجھا ہی نہیں، یہاں تک کہ اِسے انڈسٹری تک کا درجہ نہیں دیا گیا۔ بس اِسے بھی ایک اسٹیٹ ایجینسی کی طرح تصوّر کیا گیا اور اسی کی طرح ڈیل کیا گیا۔تاہم، موجودہ حکومت نے پہلی بار اِسے اہمیت دی ہے اور پہلی بار کسی وزیرِ اعظم نے بار بار اِس کی اہمیت پر بات کی ۔50 لاکھ گھر بنیں، نہ بنیں، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ان معاملات کو کم ازکم اہمیت تو دی جا رہی ہے۔ 

اِس ضمن میں صوبائی حکومت کا کردار بھی خاصا مثبت ہے۔ اب تقریباً سارے معاشی ماہرین بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ تعمیراتی انڈسٹری چلے گی، تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پہلے کبھی اِس طرح کی باتیں نہیں ہوئیں۔ واضح رہے، اِس سلسلے میں ہماری کوششیں بھی کم نہیں۔ ہم نے مسلسل محنت وجدوجہد سے اِس انڈسٹری کی اہمیت پالیسی سازوں کے ذہنوں میں بٹھائی ہے۔

س: یعنی آپ موجودہ حکومت کی پالیسیز سے مطمئن ہیں؟

ج: ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ کئی اعلانات اور فیصلے تو اچھے ہوئے ہیں، لیکن اصل بات عمل درآمد کی ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکس کے معاملات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری انڈسٹری ٹیکس دے اور خُوب دے، لیکن اس کے لیے شفّاف نظام ہمارا مطالبہ ہے۔نیز، ہم نے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو ایک قابلِ عمل پروپوزل دیا،جس کی وزیرِ اعظم نے منظوری بھی دی۔ ہم ایڈوانس ٹیکس دینا چاہ رہے تھے۔اس سے حکوت کو پراجیکٹس کا ایڈوانس ڈیٹا مل جاتا اور اُسے پتا چلتا رہتا کہ تعمیراتی انڈسٹری کیا کر رہی ہے، کتنا سیمنٹ استعمال ہوگا، کتنا اسٹیل لگے گا، مگر اس پر آئی ایم ایف نے اعتراض کردیا۔ 

دراصل، وزارتوں اور ایف بی آر میں بیٹھے کرپٹ افراد اپنی کرپشن رُکنے کے خوف سے غلط بریفنگ دیتے ہیں، کیوں کہ جب سسٹم آن لائن ہوجائے گا، تو اُن کے کھانچے بند ہوجائیں گے۔ اسی لیے وزیرِ اعظم کی منظوری کے باوجود متعلقہ وزارت اور ایف بی آر کی آئی ایم ایف کو اس طرح کی بریفننگ سے معاملہ لٹک گیا۔ پھر ہم نے آئی ایم ایف سے میٹنگ کی، دوسری میٹنگ میں مزید باتیں ہوئیں، اب تیسری میٹنگ آئی ایم ایف کے ماہرین کے ساتھ ہوگی۔ درحقیقت بیوروکریسی معاملات کو مشکل بنا رہی ہے۔افسران سوچتے ہیں کہ بلڈرز اپنے پراجیکٹس کی کروڑوں روپے کی تشہیر کر رہے ہیں، تو اس میں سے اُنھیں بھی حصّہ ملنا چاہیے۔ 

واٹر بورڈ، سی ڈی اے، بلڈنگ کنٹرول، ایل ڈی اے یعنی سارے ہی ادارے اب پراجیکٹس میں خود کو حصّے دار سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ مسائل پیدا کرتے ہیں۔ کئی کئی ماہ اور سال ہا سال منصوبوں کی منظوری نہیں دیتے، طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ بیوروکریسی کا نظام، جو ہم نے ستّر برس میں خراب کر دیا ہے، اب مُلک کے لیے ناسور بن چُکا ہے۔ اس کا توڑ ڈیجیٹلائزیشن ہے۔ مین ٹو مین ڈیلنگ کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا، تب ہی لانگ ٹرم پالیسز بن سکیں گی۔ جب قانونی راستے بند کر دئیے جائیں، تو پھر ہر کوئی جُگاڑ یا غیر قانونی راستہ تلاش کرتا ہے اور ہمارے ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ 

بڑے منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں، لیکن نیب سے ڈر لگتا ہے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: وہ کہتے ہیں کہ بلڈر ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتے؟

ج: ایف بی آر سو فی صد غلط ہے۔ ہم تو بار بار کہہ رہے ہیں کہ خود جاکر اپنے پراجیکٹس کا ایڈوانس ٹیکس جمع کروانے کے لیے تیار ہیں۔ بتائیں، اس سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں؟ پھر بھی اُن کا یہی اصرار ہے کہ’’ نہیں، ہمیں ایڈوانس ٹیکس نہیں چاہیے، ہم تو پورا ڈیٹا دیکھ کر ہی ٹیکس لیں گے۔‘‘ ہم نے کہا کہ ہماری تجویز پر پانچ سال عمل کر کے دیکھ لیں، اگر موجودہ ٹیکس سے دُگنا ٹیکس جمع نہ ہو، تو ٹھیک ہے پرانا نظام بحال کردیں، مگر وہ اس طرف بھی نہیں آتے۔دراصل، ایف بی آر میں بہت سے ایسے بااثر افسران ہیں، جو آسانی سے شفّاف نظام نہیں آنے دیں گے۔ 

اچھا! کیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانا ہمارا کام ہے؟ ہم کاروبار کرنے آئے ہیں یا اس طرح کے معاہدے۔ یہ تو حکومتوں اور متعلقہ اداروں کا کام ہے، مگر وہ اپنی ذمّے داری پوری نہیں کر رہے۔ ہم سب سے یہی کہہ رہے ہیں کہ اکانومی کو چلنے دیں، کاروبار چلنے دیں، کاروبار نہیں ہوگا، تو ٹیکس کہاں سے لیں گے۔ تاجروں کی مثال درخت پر بیٹھے پرندوں کی سی ہے۔ اگر اُن پر فائر کیا جائے، تو دو چار مَر جاتے ہیں اور باقی اُڑ جاتے ہیں۔ اِسی طرح تاجروں کو مناسب ماحول نہ ملے، تو وہ بھی سرمایہ لے کر کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ تاجر مُلک کے دشمن نہیں، یہ تو اس مُلک کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔

س: حکومت تعمیراتی صنعت کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کرے؟

ج: سیدھی سی بات ہے، حکومت اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کوئی ایسی پالیسی طے کردے، جس سے کاروبار میں آسانیاں ہوں۔ ہم نے اس حوالے سے ایک پورٹل بنانے کی تجویز دی ہے تاکہ کسی کو این او سیز لینے کے لیے کہیں جانا نہ پڑے اور اداروں کی منّت سماجت نہ کرنی پڑے۔ نیز، اداروں کو ٹائم شیڈول کا پابند کیا جانا بھی ضروری ہے تاکہ سارے کام بروقت ہو سکیں۔ ہم باقی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ وہاں سب کام مخصوص مدّت میں خود بخود ہو جاتے ہیں، کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

پھر یہ کہ مختلف علاقوں یا پلاٹس کے حوالے سے واضح قانون ہونا چاہیے۔ ہمیں کسی این او سی کی ضرورت نہ ہو، اگر ہم اُس قانون کے مطابق تعمیرات نہ کریں، تو آکر اُسے گرادیں، لیکن اگر قانون کی پابندی کی گئی ہے، تو کوئی تنگ نہ کرے۔ ہمیں پتا ہو کہ جو پلاٹ خریدا ہے، اُس پر تعمیرات کے لیے یہ یہ قوانین ہیں، بات ختم۔ مگر اجازت ناموں کے چکر میں دو دو سال گزر جاتے ہیں، جس سے بلڈرز کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے، کیوں کہ اُس نے کروڑوں، اربوں روپے لگا کر پلاٹ خریدا تھا، یوں آخر میں وزن خریدار ہی پر پڑتا ہے۔

س: آج کل غیر قانونی عمارتوں کے خلاف سخت کارروائی ہو رہی ہے۔ ایسی تعمیرات کا ذمّے دار کون ہے؟

ج: مَیں سمجھتا ہوں، ایسی تعمیرات کے ذمّے دار ادارے ہیں۔ دیکھیے، اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمارتیں یا پلاٹ بیچنے والا ہر شخص بلڈر نہیں ہوتا۔ کنسٹرکشن کا کام کرنے والوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو قانونی کام کرنے والے ہیں، جو ’’ آباد‘‘ میں بھی رجسٹرڈ ہیں اور دوسری طرف غیر قانونی کام کرنے والے ہیں، جو ہمارے ممبر نہیں ہیں، اُن کی کوئی کمپنی ہے اور نہ ہی کہیں رجسٹریشن۔ پلاٹ خریدا، وہیں آفس قائم کیا، بکنگ شروع کی، کمرشلائیزیشن فیس دی اور نہ کسی سے منصوبہ منظور کروایا، یا زیادہ سے زیادہ گراؤنڈ فلور پلس وَن کا نقشہ منظور کروایا اور اُس پر چھے فلور بنا کر پتلی گلی سے نکل گئے۔ 

اِس طرح کے افراد کو روکنا اداروں کا کام ہے، مگر ادارے تو غیر قانونی کاموں میں اُن کی معاونت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے معزّز عدلیہ بھی ایسے لوگوں کو بلڈر سمجھ رہی ہے، جس کی وجہ سے کنفیوژن پھیل رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آدھا شہر کچّی آبادیوں پر مشتمل ہے، یہ آبادیاں وجود میں کیسے آئیں؟ کس نے منظوری دی؟ کیا کوئی بلڈر ان کے پیچھے ہے؟ دراصل، یہ سیاسی قوّتوں اور اداروں کی مل بھگت سے بنتی ہیں۔ پھر یہ کہ کچّی آبادی میں رہیں، تو کسی کو مسئلہ نہیں، لیکن پلانز اور اسکیم کے تحت پراجیکٹس بنائیں، تو سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ یوں کیوں ہو رہا ہے؟ ایسا ہونا چاہیے، ویسا ہونا چاہیے۔ 

ان غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے تو ہم متاثر ہو رہے ہیں، کیوں کہ اس طرح کے منصوبوں پر لاگت کم آتی ہے، وہ کہیں فیس دیتے ہیں نہ ٹیکسز، جب کہ ہم قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں، تو لاگت بڑھ جاتی ہے،ہزار گز کے پلاٹ پر تین سے چار کروڑ روپے فیسز کی مَد میں دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کاروباری طور پر بھی دو نمبر اور نام نہاد بلڈرز سے نقصان ہو رہا ہے، مگر لوگ ہمیں بھی ان میں شامل کرلیتے ہیں، جس پر دُکھ ہوتا ہے۔ ہم کاروباری طور پر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 

بلکہ اب تو ہمارے لوگ بھی کہنے لگے ہیں کہ قانونی کام کریں تو نیب اور نہ جانے کس کس کی پکڑ میں آجاتے ہیں، انکوائریز بھگتنی پڑتی ہیں، جب کہ غیر قانونی کام کرنے والے بچ جاتے ہیں کہ اُن کا تو کہیں ریکارڈ ہی نہیں ہوتا۔وہ آنکھیں بند کرنے کے پیسے دیتے ہیں، صرف بلڈنگ کنٹرول نہیں، انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنا حصّہ وصول کرتی ہیں۔ عدلیہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ادارے درست کروانے میں اپنا آئینی کردار ادا کرے، کیوں کہ ساری تباہی ان اداروں کی ناقص کارکردگی ہی کی وجہ سے ہے۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ کہیں عمارتوں کو ریگولرائز کیا جا رہا ہے اور کہیں توڑ پھوڑ ہو رہی ہے۔ سب کے لیے ایک جیسا قانون ہونا چاہیے۔ راشد منہاس روڈ(کراچی) پر ایک منصوبہ ہے، جس میں عوام کے ڈیڑھ سو کروڑ روپے لگے ہوئے ہیں۔ 

بنانے والوں کے پاس منصوبے کے اجازت نامے موجود ہیں، مگر اب کہا جا رہا ہے کہ وہ تو غیر مُلکی تھے، اِس لیے اُنھیں اجازت نامہ دینا ہی غیر قانونی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تعمیرات کا اجازت نامہ عوام نے دیا تھا، جو اُنھیں سزا دی جا رہی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جو عمارتیں غیر قانونی طور پر بنی ہیں، اُن کا سروے ہونا چاہیے اور ذمّے داروں کا تعیّن کیا جانا چاہیے۔ عمارتیں توڑنا حل نہیں ۔ پہلے ہی عوام کو گھر نہیں مل رہے اور جن کے گھر ہیں، اُن سے بھی چھین لیے جائیں، تو لوگ کہاں جائیں گے؟ اگر کسی عمارت کو گرانا ضروری ہی ہو، تب بھی متبادل رہائش فراہم کی جانی چاہیے، کیوں کہ عوام نے ان مکانات کے لاکھوں روپے ادا کیے ہیں۔

س: اس معاملے میں’’ آباد‘‘ کوئی کردار ادا کر رہی ہے؟

ج: جی ،ہم سپریم کورٹ میں فریق بنے ہیں اور اس حوالے سے درخواست بھی دی ہے۔ ہر سماعت پر موجود ہوتے ہیں اور کھڑے ہو کر بات بھی کرتے ہیں۔

س: عوام کو پلاٹ، مکان یا فلیٹس کی خریداری کرتے ہوئے کن امور کا خیال رکھنا چاہیے؟

ج: ہمیں چند ہزار روپے کا بکرا خریدنا ہو، تو کئی کئی دن لگا دیتے ہیں، خُوب جوڑ توڑ کرتے ہیں، مگر زندگی بھر کی جمع پونجی کسی کی چکنی چُپڑی باتوں میں آکر اُسے تھما دیتے ہیں۔ پراپرٹی خریدتے ہوئے ایک ایک چیز کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے، اُن کے ڈاکیومنٹس کھنگالیں، یہ آپ کا حق ہے۔ کیا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا اجازت نامہ ہے؟ وہ’’ آباد‘‘ کا رُکن ہے؟ اگر اُس نے ماضی میں کوئی پراجیکٹ بنایا تھا، تو اُس کا ریکارڈ کیسا رہا؟ وہاں جاکر معلومات حاصل کریں، عمارت کی کوالٹی کیا ہے؟یہ سب دیکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

س: کوئی’’ آباد‘‘ کا ممبر ہے یا نہیں، اِس سے خریدار کو کیا فرق پڑتا ہے؟

ج: ’’آباد‘‘ کے ممبر بلڈر سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک رجسٹرڈ بلڈرسے ڈیل کر رہے ہیں، جس کا تمام ریکارڈ متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہے۔ نیز، ہم نے اپنے رُکن بلڈرز سے متعلق شکایات کے ازالے کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنا رکھی ہے۔ ہر ماہ ستّر اَسّی شکایات نمٹاتے ہیں اور اس میں عوام کو زیادہ سے زیادہ فیور دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نیب، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اداروں کی جانب سے بھی متاثرہ افراد کو ہمارے پاس بھیجا جاتا ہے۔ کوئی بلڈر ڈاکیومینٹیشن چارجز زیادہ مانگ رہا ہے، عمارت معیار کے مطابق نہیں، قبضہ دینے میں لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے، تو ہم اس طرح کے معاملات میں عوام کی شکایات کا ازالہ کرتے ہیں۔

س: وزیرِ اعظم، عمران خان 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کی بات کرتے ہیں، کیا یہ منصوبہ قابلِ عمل ہے؟

ج: بالکل قابلِ عمل ہے۔ دیکھیں، پچاس لاکھ گھر بنتے ہیں یا نہیں، کام شروع ہونا چاہیے اور حکومت اس ضمن میں بہت کام کر بھی رہی ہے۔ تاہم، اس منصوبے میں بھی بیوروکریسی رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ حکومت اس منصوبے کے حوالے سے بلڈرز کو رعایتیں دینا چاہ رہی ہے، ہم سے بھی رابطہ کیا گیا تھا، مگر سچّی بات ہے کہ ہم ڈر گئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کی جانب سے رعایتی نرخ پر دی گئی زمین پر عمارت کھڑی کردیں اور کل نیب آکر پکڑ لے۔ بھئی ،خوف میں تو کاروبار نہیں ہوسکتا۔ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اس لیے بھی ڈر لگتا ہے کہ آنے والی حکومت پچھلی سے بدلہ لے گی اور مارے ہم جائیں گے۔ ہم کاروبار کے لیے دوستانہ ماحول چاہتے ہیں، جو یہاں نہیں ہے۔

س: آپ نے بھی تو کم آمدنی والوں کے لیے کوئی منصوبہ شروع کیا ہے؟

ج: عوام کو کم قیمت پر مکانات کی فراہمی میری پُرانی خواہش ہے اور اس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرتا بھی رہا ہوں۔ منہگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب گھر بنانا متوسّط طبقے کی بس کی بات نہیں رہی۔ اگر کوئی ایک لاکھ روپے بھی ماہانہ کماتا ہے، تب بھی اپنا مکان نہیں لے سکتا۔ اسی تناظر میں ہم نے ایک پراجیکٹ لانچ کیا ہے۔یہ کاسٹ ٹو کاسٹ پراجیکٹ ہے، یعنی اس میں ہم منافع نہیں لیں گے۔ 

کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت 23 شہروں میں مکانات اور فلیٹس بنا کر کم قیمت پر عوام کو دیں گے۔ اس مقصد کے لیے مفت رجسٹریشن جاری ہے، کئی شہروں میں جگہ بھی تلاش کرلی گئی ہے۔نقد ادائیگی کرنے والے قرعہ اندازی سے مستثنا ہوں گے، جب کہ قسطوں پر لینے کے خواہش مند افراد کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے ہوگا۔ انشاء اللہ اگلے تین ماہ میں منصوبے کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔

س: حکومت نے کوئی مدد کی؟

ج: حکومت کم قیمت پر مکانات کی فراہمی کے لیے جو پالیسی بنا رہی ہے، اُس سے بہت مدد مل رہی ہے۔ اس پالیسی میں منظوری اور ٹیکسز میں کافی سہولتیں دی گئی ہیں۔ ٹیکسز میں نوّے فی صد رعایت ہے۔ نیز، فنانسنگ پر بھی بات ہو رہی ہے۔ دراصل، جب کوئی ایک بلڈر ایسا منصوبہ شروع کرے گا، تو باقیوں کو بھی ترغیب ملے گی اور وہ بھی میدان میں آجائیں گے۔

س: پچھلے دنوں وزیرِ اعظم نے بڑے شہروں میں بلند عمارتوں کی تعمیر کی بھی بات کی تھی؟

ج: ہاں، حکومت نے اِس حوالے سے ایک بِل منظور کروایا ہے، جس میں اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مخصوص علاقوں کی نشان دہی کردیں تاکہ اُنھیں چھوڑ کر باقی مقامات پر بلند عمارتیں بنائی جا سکیں۔ سِول ایوی ایشن اور دیگر اداروں کے بلند عمارتوں کے حوالے سے کچھ فنی نوعیت کے تحفّظات تھے۔ تاہم، ہمیں بلند عمارتوں کی تعمیر سے قبل اپنے شہری انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے بھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ پچاس منزلیں تو بنالیں، لیکن انھیں پانی ملے نہ گیس۔ دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی تو نہیں روک سکتے، لوگوں کو روزگار چاہیے، جس کی تلاش میں وہ شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ 

لہٰذا، ہمیں بڑے شہروں کے ماسٹر پلانز اِسی تناظر میں بنانے ہوں گے۔ اگر ایک بلڈر کی نظر سے دیکھیں، تو کراچی جتنا آباد ہے، اُتنی ہی زمین آج بھی خالی ہے، مگر عام لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں۔ ہم شہر اور گنجان آباد علاقوں ہی میں پھنسے ہوئے ہیں، حالاں کہ سُپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور ہاکس بے کے اطراف میں بھی بہت جگہ ہے،جہاں اچھے ماسٹر پلانز کے تحت آبادیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ صبح کے اوقات میں دبئی کی آبادی پانچ لاکھ بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ لوگ شارجہ سے کام کرنے آتے ہیں اور شام کو واپس چلے جاتے ہیں، مگر وہاں کی حکومت ان کے لیے بھی منصوبہ بندی کرتی ہے کہ کتنا پانی، بجلی چاہیے،لیکن یہاں کسی کی اس طرح کے معاملات پر توجّہ ہی نہیں ہے۔

تازہ ترین