• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علمائے کرام مدارس میں بچوں پر تشدد کا نوٹس لیں!

ہمارے دینی مدارس میں اساتذہ کے ہاتھوں بچوں پر تشدد یوں تو بالعموم روز مرہ کا معمول ہے لیکن لاہور کے نواحی علاقے کے ایک مدرسے میں ظلم کی حد ہی ہو گئی جب ایک طالب علم کو سبق یاد نہ کرنے پر مبینہ طور پر اتنا مارا پیٹا گیا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس نے اس واقعہ کے بارے میں جو مقدمہ درج کیا ہے اس کے مطابق 9سالہ گلفام پر جو قرآن پاک پڑھنے مدرسے میں جاتا تھا، قاری شعیب اور قاری بلال نے اس بری طرح تشدد کیا کہ اس کی حالت غیر ہو گئی، اسے نازک حالت میں اسپتال لے جانا پڑا جہاں اس نے دم توڑ دیا۔ دونوں قاری حضرات کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جلد اصل حقائق سب کے سامنے آ جائیں گے۔ بچے کی المناک موت پر علاقے کے لوگوں نے رنگ روڈ پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کر دی اور پولیس اور واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف نعرے بازی کی۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں لاکھوں بچے مدرسوں میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، صرف پنجاب میں 5ہزار سے زائد مدرسے ہیں جو وفاق المدارس کی تنظیم سے منسلک ہیں۔ ایسے مدارس بھی ہیں جن کا کسی تنظیم سے الحاق نہیں مگر وہ قرآن حکیم کی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو تواتر سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض خوف کے مارے مدرسوں کو ہی خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ پنجاب کی حکومت نے 2005میں اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی لگا دی تھی مگر مدارس کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پھر جسمانی سزا کسی ایک صوبے تک محدود نہیں، پورے پاکستان میں دی جاتی ہے۔ سندھ اسمبلی نے 2016میں ایک قانون منظور کیا جس کے تحت سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا سے تحفظ فراہم کیا گیا مگر مدارس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک سروے کے مطابق ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بچوں کے ذہن ناپختہ ہوتے ہیں، جن پر شیطان غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ بچوں کو اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے جبکہ دینی اسکالرز کا کہنا ہے کہ ہاتھوں میں بچوں کو مارنے کے لیے بید رکھنا اور ان پر جسمانی تشدد کرنا غیر اسلامی فعل ہے۔ ان کی رائے میں پاکستان میں مدرسوں کے منتظمین طلبہ کو پڑھانے کے سائنسی طریقہ سے نابلد ہیں۔ دینی مدارس میں نہ صرف پڑھانے کا کلچر بدلنے بلکہ نصاب میں تبدیلیاں لانے کی بھی ضرورت ہے، بچوں کو جسمانی سزا دینا، انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جسمانی سزا سے بچوں میں جارحانہ طرزِ عمل اور سماج دشمن رویے بھی جنم لیتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی لگا رکھی ہے۔ قومی اسمبلی کے 2013ء میں منظور کردہ قانون کے مطابق بچوں کی جسمانی سزا پر پاکستان میں پابندی ہے مگر اس پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ مدارس تو سرے سے اس معاملے میں آزاد ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے قواعد و ضوابط صرف اسکولوں کے لیے ہیں، ان پر بھی عملدرآمد کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔ لاہور میں اساتذہ کی مار پیٹ سے دینی مدرسے کے طالبعلم کی موت ایک دلگداز واقعہ ہے۔ علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ اس کا سختی سے نوٹس لیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اصول و ضوابط وضع کریں۔ حکومت بھی نظام تعلیم، خصوصاً دینی مدارس میں جو اصلاحات لانا چاہتی ہے اس میں بچوں کو جسمانی سزا سے تحفظ پر خصوصی توجہ دے۔ انہیں ایسا تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے جس میں کوتاہیوں پر سرزنش بےرحمانہ مارپیٹ کے عنصر سے پاک ہو۔

تازہ ترین