• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دور میں ابھی بھی کچھ کاموں کو خواتین کے لیے بہت مشکل سمجھاجاتا ہے لیکن ماضی میں بہت سی ایسی خواتین تھیں جنہوںنے بہت دلیری سے کچھ کام سر انجام دئیےہیں۔انہیں بہادرخواتین میںفلسطینی خاتون ’’لیلٰی خالد ‘‘ کا شمار بھی ہوتا ہے ۔اس خاتون نے ایک نہیں بلکہ دو بار جہاز ہائی جیک کیا ہے اور اس کے لیے اُس نے پلاسٹک سر جری بھی کروائی تھی ۔ سننے میں تو یہ ایک فلمی کہانی لگتی ہے لیکن یہ ایک سچی کہانی ہے ۔لیلٰی خالد نے بچپن میں فلسطین کی آزادی تحریک میں شمولیت اختیارکی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک متحرک کا رکن بن کر سامنے آئی ۔لیلیٰ اوران کےساتھیوں نے 1968 ء سے 1971ء کے عرصے میں 4 جہاز اغوا کئے تھے ۔ فلسطین لبریشن فر نٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ خالد نے پہلا جہاز 29 اگست 1969ء کو اغوا کیا یہ بوئنگ 707 جہاز تھا۔

یہ جہاز اٹلی سے اسرائیل کے دار لحکومت تل ابیب جارہا تھا۔ان کے پاس یہ اطلاع تھی کہ اس جہاز میں وزیر اعظم اضحاک رابن بھی موجود ہیں۔ جیسے ہی جہاز ایشیاء کی فضائی حدود میں داخل ہوا،ایک نقاب پوش خاتون نے جہاز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور پھر پائلٹ کو حکم دیا کہ فلسطینی شہر حیفہ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے جہاز کارُخ دمشق کی طر ف موڑ دو ،کیوں دمشق جانے سے پہلے میں اپنی جائے پیدائش ،وطن مالوف حیفہ کو دیکھنا چاہتی ہوں ۔ خاتون اور اس کے ساتھی بموں سے مسلح تھے ۔ پائلٹ نے حکم کی تعمیل کی ۔ جہاز دمشق میں اتار لیا گیا۔ 

مسافروں کو یرغمال بناکر فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔ پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کی طرف مبذول ہوئی ۔ مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکروں کی بہ حفاظت واپسی کی شرائط پر تمام  یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ وہ عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ اُن کی تصویروں کو اتنی شہرت ملی جو اس سے پہلے کسی مسلمان خاتون کو نہیں ملی تھی۔مقبولیت کا یہ حال تھا کہ یورپ میں رہنے والی لڑکیوں نے اس کا ہیئر اسٹائل ،اسکارف پہنے کا انداز اور لیلیٰ جو انگوٹھی پہنتی تھی وہ فیشن کی دنیا میں مقبول ہونے لگی ۔پہلی مرتبہ ہائی جیک کرنے کے بعد اس نےچھ بار پلاسٹک سر جری کروائی اور اپنی صورت مکمل طور پر تبدیل کروالی ۔

اس سے اگلے سال 6 ستمبر 1970 ء کو اس نے اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر ایمسٹر ڈیم سے نیو یارک جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کام یاب نہ ہو سکی ۔اس طیارے کو بر طانیہ کے ایک ائیر پورٹ پر اُتا ر لیا گیا اور لیلی ٰ کے ایک ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کر د یا گیا جب کہ اسے گر فتار کر لیا گیا ۔ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فلسطینی جانبازوں نے ایک اور طیارہ اغوا کرکے مسافروں کو یر غمال بنا لیا ۔مذاکرات میں لیلٰی خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔

یوں ان کو قید سے رہائی ملی ۔اپنی خود نوشت سوانح عمری "My People Shall Live " میں انہوںنے اپنی کہانی لکھی ہے ۔یہ دل کو دہلادینے والی کہانی ہے ۔یہ کتا ب 1973 ء میں شائع ہوئی جب کہ لیلٰی خالد کی زندگی پر فلم 2005 ء میں بنی ۔فلم کانام "Leila Khalid Hijacker "ہے اور اس کو ایمسٹر ڈیم کے فلمی میلے میں بڑی پذیرائی ملی ہے۔

تازہ ترین