اردو کی یہ مقبول ترین ادیبہ رضیہ بٹ 19 مئی 1924 کو راولپنڈی، میں پیدا ہوئیں، جبکہ بچپن پشاور میں گزرا۔ ان کا مکمل نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ علمی و ادبی گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے کم عمری میں ہی ادبی ذوق کی آبیاری ہوئی اور آپ لکھنے کی طرف مائل ہوگئیں۔ والد کی حوصلہ افزائی کی بدولت چالیس کی دہائی میں نئے لکھنے والوں میں نمایاں مقام حاصل کیا ۔ پہلی کہانی’’لرزش‘‘ 1940 کے وسط میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک رسالے’’حور‘‘ میں چھپی۔ 1946 کا سال ان کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس سال ایک طرف تو ان کی شادی ہوئی اور دوسری طرف ان کا پہلا مقبول ناول’’نائلہ‘‘ شائع ہوا۔ لکھنے کی صلاحیت ان میں زمانہ طالب علمی سے ہی تھی، وہ اپنے اسکول میں خاص طور پر مضامین لکھنے میں ایسی مشاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں کہ اساتذہ کو یقین تھا، ان کے اندر کوئی کہانی نویس چھپا بیٹھا ہے۔آگے چل کر وقت نے اس اندازے کو درست ثابت بھی کیا۔ جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو تحریک پاکستان عروج پر تھی، وہ مسلم لیگ کی نسائی تنظیم کا حصہ بن کر بطور ننھی کارکن اس جدوجہد میں عملی طور پر شامل ہوئیں۔ جس میں ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ تھا۔
تقسیم کے فوری بعد ان کا ناول’’بانو‘‘ شائع ہوا، جو تحریک پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔قارئین ان کے نام اور کہانیوں سے روشناس ہونے لگے۔ ناول’’ بانو ‘‘کو پاکستان ٹیلی وژ ن نے ڈرامائی تشکیل بھی دی گئی، جبکہ اس پر فلم بھی بنی، جس کو ناگزیر وجوہات کی بنا پر نمائش کے لیے اجازت نہ مل سکی۔
سات بیٹیوں کی ماں ہونے کے باوجود، رضیہ بٹ نے گھرداری اور ادبی مصروفیات میں توازن رکھا۔ ذاتی زندگی اس قدر مصروف اور متحرک گزارنے کے باوجود لکھنے کے تسلسل میں میں کوئی فرق نہ آنےدیا۔ اپنے اردگرد سے کہانیاں اور کردار چنتی رہیں اور ناول لکھتی رہیں۔ ان کی کہانیوں میں سماجی معاملات، نفسیات اور احساسات کو قلم بند کیا گیا۔ ادبی نقادوں سے ان کے لیے سطحی ادب تخلیق کرنے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے، لیکن یہ اٹل حقیقت ہے، ان کی کہانیاں چاہے کتابی صورت میں چھپی ہوں، یا ٹیلی وژن اور فلم کی اسکرین پر ،ایک بڑے طبقے کو متاثرکرنے میں کامیاب رہیں، ان کے بارے میں رائے اچھی اور بری تو ہوسکتی ہے، لیکن ان کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
گھریلو کہانیوں کی ملکہ کہلانے والی رضیہ بٹ نے آج کی لکھنے والی خاتون قلم کاروں پر بھی اپنے اسلوب کے نقش چھوڑے بلکہ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹیلی وژن کی معروف ڈرامانگاروں فاطمہ ثریا بجیا اور حسینہ معین جیسے تخلیق کاروں کے ہاں بھی، رضیہ بٹ والے اسلوب اور نگارشات کی زیریں لہر شامل ہوتی محسوس ہوتی ہے۔
رضیہ بٹ نے اپنی ادبی زندگی میں 50 سے زائدناول اور 350 کے لگ بھگ کہانیاں لکھیں، سیکڑوں مضامین اور غیر تخلیقی تحریریں ان کے علاوہ ہیں۔ 1998 میں اپنی خودنوشت بھی لکھی، جو 2001 میںشائع ہوئی۔ ان کی لکھی ہوئی مشہور کہانیوں میں ریشم، آئینہ، رفاقتیں کیسی، فاصلے، میں کون ہوںاور دیگر کہانیاں شامل ہیں، جبکہ ان کے مقبول ترین ناولوں میں نائلہ، بانو، صاعقہ، انیلا، شبو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی، ناہید، انیتا، بسمہ، بینا، مینا، نورین، نورینہ جیسے ناول ہیں، جن کے نام خواتین کے ناموں پر رکھے گئے۔ اس کےعلاوہ دیگر ناولوں میں دکھ سکھ،ریطہ ،اماں، اک لڑکی، باجی، بندھن، پناہ، خاندان، دل اور پتھر، روپ، زرتاب، زری، سانولی، فاصلے، قربان جائوں، لغزش، مجرم کون، محبت اک سچائی، مسرتوں کا شہر، ممی، میں کون ہوں، وحشی، ٹوٹے بندھن،ڈارلنگ اور ڈھل گئی رات شامل ہیں۔
’’بانو‘‘تحریک پاکستان کے تناظر میں لکھاتو ’’ناہید‘‘ ایک حالات کی ستائی ہوئی طوائف پر مبنی تھا۔ اسی طرح ’’ریطہ‘‘ نامی ناول میں روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے اور ان کے انتظار میں پتھرا جانے والوں کے بارے میں تھا۔ ان کا مقبول ترین اور پہلا ناول’’نائلہ‘‘ کا انتساب اپنے شوہر کے نام لکھا، اس ناول میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو ناول نگار نے بڑی مشاکی سے کرداروں کے ذریعے بیان کیا ہے، اسی ناول پر مشہور پاکستانی فلم’’نائلہ‘‘بھی بنی، اس کے علاوہ بھی ان کے سات ناولوں پر فلمیں بنائی گئیں، لیکن پاکستان کی پہلی رنگین فلم ہونے کے ناطے’’نائلہ‘‘ کو منفرد مقام حاصل ہوا جو1965 میں ریلیز ہوئی ۔ اس فلم کے ہدایت کار’’شریف نیئر‘‘ تھے، جنہوں نے فلم کا اسکرین پلے لکھا اور مکالمے بھی تخلیق کیے۔
موسیقی ماسٹر عنایت حسین کی تھی، گیت نگاروں میں قتیل شفائی، طفیل ہوشیار پوری اور حمایت علی شاعر جیسے قدآور نام شامل تھے جبکہ گلوکاروں میں مالا،نسیم بیگم اور مسعود رانا پر یہ گانے فلمائے گئے ۔اس فلم کا سب سے مشہور گانا’’غم دل کو ، ان آنکھوں سے چھلکانابھی آتا ہے۔ فنکاروں میں شمیم آرا، سنتوش اور درپن نے مرکزی کردار نبھائے، جنہوں نے اپنی شاندار اداکاری کی بدولت اس کہانی کو سینما اسکرین پر ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا،یہ آج بھی پاکستانی فلمی سینما کے سنہری دور کی بڑی نشانی سمجھی جاتی ہے۔
باکس آفس پر یہ فلم بہت کامیاب رہی اور شائقین نے اس ناول کی فلمی شکل میں بھی بے حد پسند کیا، یوں ناول اور فلم دونوں تخلیق کے منظرنامے پر چھاگئے۔ اردو ناولوں میں بہت بڑے بڑے ناول اب بھی ، جن پر فلمیں بنائی جاسکتی ہیں، لیکن ابھی تک کسی فلمساز نے اس طرف دھیان نہیں دیا، پاکستانی فلمی صنعت میں اچھی کہانیوں کی کمی کو، اردو ادب کی فلمی تشکیل سے پورا کیا جاسکتا ہے،پاکستانی فلم سازوں کو اس پہلو سے بھی سوچنا ہوگا۔ یہ ایک اچھا انتخاب ہوگا کہ اگراردو ناولوں کی کہانیوں کو بڑی اسکر ین کی زینت بنایا جاسکے۔