٭…نفس یا نَفَس؟
نفس (نون پر زبر ، فے ساکن ) اور نَفَس (نون پر زبر، فے پر بھی زبر)دونوں درست ہیں ، دونوں عربی کے لفظ ہیں لیکن دونوں کے مفہوم میں فرق ہے۔ البتہ ان کے استعمال میں بعض لوگ بعض اوقات گڑ بڑ کردیتے ہیں جس سے مفہوم بدل جاتا ہے اور اگر یہ شاعری میں ہو تو مصرع بھی بحر سے خارج ہوجاتا ہے۔
نفس (فے ساکن )کے معنی ہیں : جان ، روح ۔ یہ ہستی یا وجود کے معنی میں بھی مستعمل ہے ۔یہ کبھی انسان یا شخص کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اس کی جمع نُفوُس(نون پر پیش اور واوِ معروف)آتی ہے اور اسی لیے نیک لوگوں، بزرگانِ دین، اولیا، پیغمبروں یا فرشتوں کو نفوسِ قدسیہ (یعنی پاک روحیں) کہا جاتا ہے۔بڑے لوگوں کو احترماً ’’نفسِ نفیس ‘‘ (یعنی نفیس وجود)کہا جاتا ہے اور ’’بہ نفسِ نفیس ‘‘کا مطلب ہے بذات ِ خودیا ذاتی طور پر، اور اس میں احترام کا مفہوم موجود ہے۔ ’’ نفسِ مضمون ‘‘کی ترکیب میں نفس (فے ساکن )اصلیت یا موضوع کے مفہوم میں ہے۔ نفس کا لفظ مادی یا جسمانی خواہش کے لیے بھی آتا ہے اور نفسِ امّارہ اور نفس پرستی جیسی تراکیب میں یہی نفس (فے ساکن ) ہے۔ جب نفسانی خواہشات کو روکا جائے تواسے نفس کُشی کہتے ہیں۔
لیکن ایک دوسرا لفظ ہے نَفَس (نون اور فے پر زبر) اور اس کا مفہوم ہے : سانس، تنفس۔غالب نے کہا کہ:
نَفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں، انتظارِ ساغر کھینچ
نَفَس د م یا پھُونک کے معنی میںبھی آتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھونک مار کراللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے جسے دم ِ عیسیٰ یا نَفَسِ عیسیٰ کہا جاتا ہے ۔ اَنفاسِ مسیحائی سے بھی یہی مراد ہوتی ہے کیونکہ اَنفاس اسی لفظ نَفَس کی جمع ہے۔ نَفَس لمحے یا گھڑی کے معنی میں بھی آتا ہے ۔یہ لفظ یا قول یا خیال کے معنی میں بھی آتا ہے اور اسی لیے اقبال نے کہا کہ:
اقبال کے نَفَس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
گویا نفس (فے ساکن )اور نَفَس (فے پر زبر) کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
٭…خاصا یا خاصّہ؟
یہ دو الگ لفظ ہیں لیکن ان کے املا میں احتیاط نہیں کی جاتی جس سے مفہوم بدل جاتا ہے ۔ خاصا (آخر میں الف)کے معنی ہیں مناسب ،ضرورت کے مطابق، کافی ، بہت، مثلاً:مزید کاغذ نہ خریدیے گا ابھی تو خاصا رکھا ہوا ہے ۔ دوسرے معنی ہیں بڑی حد تک، مثلاً :موسم خاصا گرم ہوچلا ہے۔ تیسرے معنی ہیں ایک قسم کا سُوتی کپڑا ۔ چوتھے معنی ہیں بادشاہوں یا امیروں کا کھانا ، مثلاً :بادشاہ نے خاصا تناول کیا۔ لیکن خاصّہ کے ہجے میں صاد (ص)پر تشدیدہے اور آخر میں ہاے مختفی ہے۔ اس کے معنی ہیں خاصیت، خصوصیت، خصلت، عادت،کوئی خاص وصف، مثلاً :تنقید کرتے ہوئے حدِاعتدال سے گزر جانا بعض کالم نگاروں کا خاصّہ ہے۔