• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کرونا وائرس کے داخل ہونے کی تصدیق اور ایران سے ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی و اسلام آباد پہنچنے والے دو مصدقہ مریضوں کے انتہائی قابلِ اعتماد طبی اداروں کے آئسو لیشن وارڈز میں رکھے جانے کے بعد اگرچہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں اس مرض کے حوالے سے سرگرم نظر آ رہی ہیں مگر انہیں فعال تر بنانے کی ضرورت صحت و صفائی کے پہلے سے موجود ناقابلِ فخر منظر نامے میں یقینی طور پر بڑھ گئی ہے۔ ایئر پورٹوں پر آنے والے مسافروں کے طبی معائنے میں غفلت سمیت کئی امور یقیناً توجہ طلب ہیں تاہم لمحہ موجود کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ سندھ کی حکومت نے بچوں کو وائرس سے بچانے کیلئے 28فروری تک اور بلوچستان حکومت نے 15مارچ تک تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہیں۔ اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز کے قیام کے اقدامات، ایران سے ملنے والی سرحد بند کرنے، ریلوے سروسز بند کرنے سمیت متعدد اقدامات کئے گئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسکولوں، بازاروں اور زندگی کی تمام سرگرمیوں کو غیرمعینہ مدت کیلئے معطل نہیں کر سکتے۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورتحال کو عام لوگوں میں ہیجان کا ذریعہ بنانے سے گریز کیا جائے اور مرض سے بچنے کی تدابیر، علامتوں اور وائرس کا پھیلائو روکنے کے عملی طریقوں کے بارے میں آگہی پیدا کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ کھانسنے، چھینک آنے یا تھوکنے کی ضرورت کے موقع پر کونسی معمولی احتیاط معاشرے کو خطرے سے بچانے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ جن وفاقی، صوبائی یا مقامی اسپتالوں میں مرض کی تشخیص کے آلات موجود نہیں یا ناکافی ہیں وہاں متعلقہ آلات مہیا کئے جانے چاہئیں۔ لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ وہ جب بھی ہیلپ لائن 1166پر رابطہ کریں گے، انہیں فوری طور پر اٹینڈ کیا جائے گا اور اس باب میں ایسے عذر پیش نہیں کئے جائیں گے جو پریشان حال لوگوں کے لئے مزید پریشانی کا ذریعہ بنیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جو دو مریض کراچی کے اسپتال یا اسلام آباد کے اسپتال کے آئسو لیشن وارڈ میں داخل ہیں وہ زیارتوں کے سفر پر اکیلے نہیں گئے تھے۔ دوران سفر یا واپس آنے کے بعد انکی جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان کے بارے میں معلومات حاصل کر کے احتیاطی طبی معائنہ کیا جانا چاہئے۔ یہ بات بہر طور ملحوظ رکھنے کی ہے کہ کرونا کا علاج ہو سکتا ہے۔ چین میں کرونا وائرس سے متاثر 29 ہزار 745مریض علاج کے بعد صحت یاب ہو کر اسپتالوں سے گھروں کو جا چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھ کر مریض خود بھی معمول کی زندگی کی طرف واپس آ سکتے اور دوسروں کو بھی اس مرض سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ سائنسی ترقی اور مرض کے جراثیم ہی کو استعمال کرنے سمیت ویکسین کی تیاری کے متعدد طریقوں کی موجودگی میں کرونا کا علاج بھی جلد سامنے آ جائے گا مگر کرونا وائرس عالمی تجارت کے لئے جس طور پر ڈرائونا خواب بن گیا اس کے پیش نظر مبصرین کا یہ خدشہ بےمحل نہیں کہ دنیا میں اچانک نظر آنے والی یہ کیفیت جراثیم کو افراتفری کا ذریعہ بنانے کے ان تجربات کا شاخسانہ تو نہیں جن کے بہت سے افسانے مشہور ہیں۔ انسانی فطرت میں خیر و شر کے عناصر کی موجودگی اور ان کی کشمکش ایک حقیقت ہے۔ پاکیزہ افکار کا پرچار کرنے والے بلا شبہ اپنا کام کر رہے ہیں مگر آج بعض سطحوں پر جس انداز سے انسانی مصائب کو انفرادی و گروہی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا رجحان نظر آ رہا ہے اس کے خلاف دنیا بھر کے اصلاح پسندوں کی طرف سے طاقت ور آواز بلند ہونا ضروری ہے تاکہ اس وقت ماسک اور بیماری سے بچائو کی دوسری چھوٹی موٹی چیزوں کو بازار میں مہنگا کرنے کا جو رجحان محدود پیمانے پر نظر آ رہا ہے وہ پھیلنے کا وسیع میدان ملنے کی صورت میں عالمی سطح پر بڑے بحران پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بن سکے۔

تازہ ترین