• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح پھولوں کی خوشبو ہوتی ہے اسی طرح انسانوں کی بھی خوشبو ہوتی ہے۔ جس طرح ہر پھول کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اسی طرح انسانوں کی بھی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے اوروہ ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہوتی ہے۔ جس طرح بعض پھولوں کی خوشبو تیز اوربعض کی بھینی بھینی ہوتی ہے اسی طرح بعض انسانوں کی خوشبو تیز اور بعض کی مدھم مدھم ہوتی ہے۔ جس طرح بعض پھول ”بے خوشبو“ محض دکھاوے کے پھول ہوتے ہیں اسی طرح انسانوں کی اکثریت بے خوشبو ہوتی ہے۔ جس طرح بعض جنگلی پھولوں کی بدبو پاس سے گزرنے والوں کی طبیعت مکدر کردیتی ہے اوروہ جلد از جلد اس بدبو سے دور ہوجانا چاہتے ہیں اسی طرح بعض انسانوں کی بدبو بھی دوسروں کی طبیعت کو مکدرکردیتی ہے اوروہ ایسے شخص سے دوری مانگتے اورچاہتے ہیں۔ جس طرح بدبودارپودوں اور پھولوں کی خوشبو اپنے جیسوں کو مکدر یا متاثر نہیں کرتی اور ایسے بدبودار پودے ایک ہی مقام پر اکٹھے پائے جاتے ہیں اسی طرح وہ انسانی اجسام جوبو دیتے اوربو پھیلاتے ہیں عام طور پر اپنے ہی جیسوں میں رہتے ہیں جنہیں نہ ان سے بدبو آتی ہے اور نہ ان کی طبیعت مکدر ہوتی ہے لیکن وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانی خوشبو سونگھنے کی صلاحیت بخشی ہوتی ہے صرف وہی لوگ بدبودار جسموں کی بومحسوس کرتے اورسونگھ سکتے ہیں۔
یہاں تک لکھ چکا ہوں تو یہ وضاحت کرنے کو جی چاہتا ہے کہ میرااشارہ ہرگز اس خوشبو کی جانب نہیں جسے لوگ مہنگے داموں خرید کراپنے کپڑوں پر انڈیل لیتے ہیں یا لگا لیتے ہیں تاکہ وہ جس محفل میں جائیں تو اسے معطر کردیں۔ جس طرح بعض مولوی حضرات اپنی قمیصیں، جبے اورعمامے کے علاوہ اپنی ریش مبارک پر بھی اس قدر تیز خوشبولگالیتے ہیں کہ سارا محلہ، ساری گلی ان کی خوشبو سونگھنے لگتی ہے۔ جس طرح بعض خواتین گرمیوں کے موسم میں اپنے پسینے کی بو کو چھپانے کے لئے قیمتی خوشبوئیں لگا کر گھر سے باہر نکلتی ہیں اور خوشبو سونگھنے والوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہیں۔ دراصل یہ ساری خوشبوئیں جو لوگ اپنی اپنی جیب کی وسعت کے مطابق لگاتے ہیں خارجی خوشبوئیں کہلاتی ہیں جبکہ میں باطنی خوشبو کی بات کر رہاہوں۔ اکثر اوقات خارجی خوشبو باطنی خوشبو کو دبا دیتی ہے اوربعض اوقات لوگ اپنی باطنی بدبو کو دبانے کے لئے بھی تیز خوشبوئیں لگاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روشن باطن والے معصوم جسم اپنی خوشبو رکھتے ہیں اور وہ خوشبو ان کے پسینے میں بھی موجود ہوتی ہے لیکن جوں جوں انسان کے باطن میں غرور، کینہ، حسد، جھوٹ، لالچ اورفریب اپنی جگہ بناتاچلا جاتا ہے اس کے باطن کی خوشبو بدبو میں بدلتی چلی جاتی ہے اور جب انسان اپنی خوشبو سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ دوسروں کی خوشبو سونگھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے۔اس صورت میں وہ ان پودوں اور پھولوں کی مانند ہوتا ہے جنہیں ہم بے خوشبو پھول کہتے ہیں۔ بعض دکھاوے کے پھول کاغذ کے پھول اسی طرح جوں جوں انسان کے اندر دنیا گھستی چلی جاتی ہے وہ سگ ِ دنیا بنتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں غرور، حرص و لالچ، جھوٹ و فریب اس پر غالب آتے چلے جاتے ہیں توں توں اسی رفتار اور اسی مقدار سے وہ بدبودار پودوں کی مانند بدبو پیداکرنے لگتا ہے جو ایسے لوگ نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ محسوس کرسکتے ہیں جن کا تعلق خود اسی قسم اورنوع سے ہوتاہے لیکن ان حضرات کا ایسی فصل میں دم گھٹتا ہے جہاں چنبے یا گلاب یا موتیے کے پھول مہکتے ہیں۔ صوفی شاعر میاں محمد صاحب نے اس لئے فرمایا تھا کہ
قدر پھلاں دی بلبل جانے، صاف دماغاں والی
قدر پھلاں دی گدھ کی جانے، مردے کھاون والی
(ترجمہ… پھولوں کی قدر صرف بلبل جانتی ہے جس کادماغ صاف ہوتا ہے، پھولوں کی قدر گدھ نہیں جان سکتی جومردار کھاتی ہے)
بالکل اسی طرح بعض انسان بلبل اوربعض گدھ کی مانند ہوتے ہیں کیونکہ انسان ظاہر کا نام نہیں انسان باطن، خصلت اور کردار و عادات کا نام ہوتا ہے۔ انسان وہ نہیں جو نظرآتا ہے اصل انسان وہ ہوتاہے جواس کے اندر بستاہے۔ دیکھنے میں لوگ نہایت خوش لباس سجے سجائے اور بنے سنورتے ہوتے ہیں لیکن برتنے میں جھوٹے، دغا باز، رشوت خور بلکہ حرام خور، مغرور، ڈنگ مارنے والے اوراس قدر حریص ہوتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اسی لئے انگریزی میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ظاہر پہ نہ جاؤظاہرعام طور پر نظر کادھوکہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ بعض لوگوں سے ملاقات انسان کی خوش قسمتی اور بعض سے ملاقات بدقسمتی ہوتی ہے اور انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ اے کاش میرا ان سے تعارف نہ ہوتا کیونکہ ان کے شر سے وہ لوگ محفوظ رہتے ہیں جن کا ان سے پالا نہیں پڑتا۔
1980 کی دہائی میں مجھے ایک ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق ہوا جو جب درود شریف پڑھتا تواسے خوشبو آنے لگتی تھی اورجب وہ درود شریف پڑھتے پڑھتے اپنے آپ میں کھو جاتا تو اس کی محفل میں موجود لوگوں کوبھی ہلکی ہلکی خوشبو آنے لگتی لیکن یہ خوشبو تمام حضرات کو نہیں آتی تھی… کچھ کو آتی، کچھ کو نہ آتی، بلبل کو آتی، گدھ کو نہ آتی۔
البتہ انسانوں کی وہ قسم عظیم ترین اور اعلیٰ ترین ہوتی ہے جن کے اندر بقول حضرت سلطان باہو الف اللہ چنبے کی بوٹی ہمہ وقت مہکتی رہتی ہے۔ یہ اولیا اللہ اور صاحبان باطن ہوتے ہیں جو اللہ کی مخلوق… ہرقسم کی مخلوق سے پیار کرتے ہیں، جن کے دروازے ہر خاص و عام، معصوم و گناہگار و بدکار، مسلمان غیر مسلمان ، امیر و غریب ہر قسم کے لوگوں کے لئے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ ان کے بھی اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی قسمیں ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کووہ گلے لگاتے اور کچھ سے دوربھاگتے اور کچھ کو دور بھگاتے ہیں۔ اس موضوع پر پھرکبھی انشاء اللہ!!
تازہ ترین