ایران میں اکیس فروری کو گیارھویں پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ جس کے لئے کل پچپن ہزار پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے تا کہ 290نشستوں کے لئے اُمیدواروں کو چنا جا سکے۔ اس میں صرف تہران سے تیس ارکان پارلیمان منتخب ہوتے ہیں ان کے علاوہ پانچ نشستیں مذہبی اقلیتوں کے لئے ہوتی ہیں جو یہودیوں، زرتشتیوں اور آرمینیائی مسیحیوں وغیرہ کے لئے ہیں۔تقریباً پونے چھ کروڑ ایرانی ووٹ دینے کے اہل تھے جن میں سے تیس لاکھ نئے ووٹر تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صرف وہی اُمیدوار انتخاب میں حصہ لے سکتے تھے جنہیں شورائے نگہبان یا سرپرستوں کی مجلس نے پہلے منظور کیا ہو۔ یہ شوریٰ منتخب نہیں ہوتی بلکہ نامزد شدہ بارہ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جن میں چھ شیعہ فقیہہ ہوتے ہیں جنہیں رہبر معظم جو اس وقت علی خامنہ ای ہیں مقرر کرتے ہیں۔ یہ رہبر سربراہ مملکت کا بھی کردار ادا کرتے ہیں اور تمام سیاسی و مذہبی معاملات میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمام مسلح افواج، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کے علاوہ اہم ترین سرکاری ادارے رہبر یعنی علی خامنہ ای کو جواب دہ ہیں۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خود علی خامنہ ای جب صرف پچاس سال کی عمر میں 1989ء میں رہبر یا ولایتِ فقیہہ بنے اس وقت امام خمینی کی موت کے بعد سب کے بڑے شیعہ عالم امام منتظری تھے، مگر چونکہ رُوح اللہ خمینی کی موت سے صرف چھ ماہ قبل انہیں نائب رہبر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اس لئے علی خامنہ ای جو آٹھ سال ایران کے صدررہ چکے تھے نئے رہبر معظم اور ولایتِ فقیہہ منتخب کئے گئے تھے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے چالیس سال کے عرصے میں آٹھ آٹھ سال کے وقفے سے کل پانچ صدور ایران پر حکومت کر چکے ہیں۔ علی خامنہ ای، ہاشمی رفسنجانی، محمد خاتمی، احمدی نژاد اور موجودہ صدر حسن رُوحانی۔پارلیمانی انتخابات کے لئے تمام اُمیدواروں کو پہلے شورائے نگہبانی جانچ پڑتال کے بعد منظوری دیتی ہے جسے رَدّ کر دیا جائے تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس طرح اکیس فروری کو ہونے والے انتخابات کے لئے پندرہ ہزار اُمیدواروں نے درخواست دی تھی جس میں سے آدھے سے زیادہ مسترد کر دیئے گئے اور سات ہزار اُمیدواروں نے دو سو نوّے نشستوں کے لئے انتخاب لڑے جو اکتیس صوبوں تک پھیلے ہوئے تھے۔مسترد شدہ اُمیدواروں میں زیادہ تر اصلاح پسند تھے جو انتخاب لڑنے سے محروم کر دیئے گئے اور زیادہ تر قدامت پسند مذہبی لوگوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔ اس دفعہ انتخاب میں صرف بیالیس فیصد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا اور تقریباً ڈھائی کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ جن میں باون فیصد مرد اور اڑتالیس فیصد خواتین تھیں جو کہ ایک اچھا تناسب ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اس دفعہ حق رائے دہی استعمال کرنے کا تناسب سب سے کم تھا ،خاص طور پر تہران جیسے سب سے بڑے شہر میں صرف ایک چوتھائی لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ جبکہ 2016ء کے انتخابات میں ووٹ دینے والوں کا تناسب ساٹھ فیصد سے زیادہ تھا۔ اس کم تناسب کی سب سے بڑی وجہ تو یہی تھی کہ اصلاح پسند اُمیدواروں کو لڑنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی اور موجودہ ارکانِ پارلیمان بھی ردّ کر دیئے گئے تھے۔
ظاہر ہے جب لوگ دیکھتے ہیں کہ صرف سرکاری منظور شدہ اُمیدوار ہی انتخاب لڑ رہے ہیں تو اُن میں جمہوری عمل سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ 80موجودہ ارکان پارلیمان کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ شورائے نگہبان کسی بھی ایسے اُمیدوار کو میدان میں آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی جو ولایتِ فقیہہ یا رہبر کے مؤقف سے اختلاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اصلاح پسند لوگوں نے ایران کے کل اکتیس صوبوں میں سے بائیس میں کسی بھی اُمیدوار کی حمایت نہیں کی جن میں تہران بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ نومبر 2019ء میں ہونے والے مظاہروں میں جس بری طرح مظاہرین کو کچلا گیا اس سے بھی عوام میں ایرانی ریاست کے خلاف جذبات بھڑک رہے ہیں اور ساتھ ہی یوکرائن کے طیارے کا غلطی سے مار گرایا جانا بھی باعث توہین سمجھا گیا ہے۔
انتخاب میں کم رائے دہی کے تناسب کی ایک وجہ کورونا وائرس کا خوف بھی بتایا جاتا ہے۔ زیادہ تر پڑوسی ملکوں نے ایران کی سرحدیں بند کر دی ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اسی لئے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات کو ملتوی کر دیا جائے تا کہ پہلے کورونا وائرس پر قابو پایا جائے اور پھر انتخاب ہوں، جب کہ رہبر معظم علی خامنہ ای نے الزام لگایا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں ایران میں کورونا وائرس کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا کر انتخابات کو متاثر کیا ہے۔ کئی اصلاح پسند رہنمائوں نے انتخاب میں ووٹ بھی نہیں ڈالے۔ مثلاً سابق نائب وزیر داخلہ مصطفیٰ تاج زادے نے بھی ووٹ ڈالنے سے انکار کیا جبکہ سابق صدر محمد خاتمی نے ووٹ ڈالا۔یاد رہے کہ سابق صدر محمد خاتمی نے 2009ء میں انتخابات کے بعد ہونے والے مظاہروں کی حمایت کی تھی اسی لئے اُن کا ایرانی ذرائع ابلاغ میں مکمل بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور ان کی تصویریں تک شائع نہیں کی جاتیں مگر اس بار جب وہ ووٹ ڈالنے گئے تو ان کی تصاویر شائع کی گئیں تا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ سب نے حصہ لیا۔ اسی طرح سابق صدر احمدی نژاد نے بھی ووٹ ڈالا، گوکہ ان کے کئی اتحادیوں کو انتخاب سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔اسی طرح موجودہ صدر حسن رُوحانی کے حامی رکن پارلیمان علی مطاہری نے بھی ووٹ ڈالا گوکہ وہ اصلاح پسندوں میں مقبول ہونے کے باعث خود انتخاب کے لئے نااہل قرار دیئے گئے تھے۔ علی مطاہری کو برملا کہا گیا تھا کہ انہیں نااہل اس لئے قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے خامنہ ای کی کئی باتوں سے اختلاف کیا تھا۔ یاد رہے کہ 2009ء کے صدارتی انتخاب میں ہارنے یا ہرائے جانے والے اُمیدوار حسین موسوی دس سال سے گھر میں نظربند ہیں۔
اس طرح کے انتخابات کےبعد قدامت پسندوں نے دو سو تیس نشستوں پر کسی اصلاح پسند کا مقابلہ نہیں کیا اور آسانی سے جیت گئے۔ تہران میں تمام تیس نشستوں پر قدامت پسند جیت گئے۔ تہران سے جیتنے کے لئے کم سے کم ووٹوں کی تعداد چھ لاکھ تھی، جب کہ اصلاح پسند علی رضا محجوب جو مزدور یونین کے سربراہ ہیں صرف پچانوے ہزار ووٹ لے سکے۔ جیتنے والوں میں یا جتائے جانے والوں میں زیادہ تر قدامت پسند اور انتہائی قدامت پسند اُمیدوار ہیں۔اب ان حالات میں ایران میں ایک جمہوری حکومت کی شدید ضرورت ہے جو حالات پر پردہ نہ ڈالے بلکہ شفاف طریقے سے ان مسائل کا سامنا کرے۔ اوّل تو ایران کے مشکوک انتخابات لوگوں میں مایوسی کا باعث بن رہے ہیں۔ ایران کی حکومت مکمل طور پر علی خامنہ ای کے قبضے میں پچھلے تیس برس سے چلی آ رہی ہے۔ منتخب صدور آتے اور جاتے ہیں مگر حتمی فیصلوں کا اختیار علی خامنہ ای کو ہی ہے جو ریاستی اداروں کو منتخب اداروں پر ترجیح دیتے ہیں اور منتخب صدر اور ارکان پارلیمان علی خامنہ ای کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس طریق کار میں تبدیلی کی ایران کو اشد ضرورت ہے۔