• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملائیشیا کے چورانوے سالہ وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اچانک اپنا استعفیٰ ملک کے فرمانروا سلطان شاہ عبد اللہ کو ارسال کر کے ملک میں سیاست اور قیادت کا نیا بحران پیدا کر دیا۔تاہم اس ضمن میں مہاتیر محمد نے استعفیٰ دیا تھا جو منصوبہ بنا رہے تھے وہ چند روز پہلے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

سلطان شاہ عبد اللہ نے مہاتیر محمد کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے ملائیشیا کا نیا وزیر اعظم سینئر سیاست دان محی الدین یامین کو نامزد کر دیا جنہوں نے اتوار یکم مارچ کو حلف اٹھا کر وزیر اعظم کا قلمدان سنبھال لیا۔ یہ سب کچھ اچانک ہو گیا مگر ملکی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے 2018کے عام انتخابات میں ملک کے دوسرے رہنما انور ابراہیم کی جماعت سے اتحاد قائم کر کے انتخابات میں فتح حاصل کی اور وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اس دوران مہاتیر محمد نے اعلان کیا تھا جب وہ وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوں گے تب انور ابراہیم ان کی جگہ سنبھالیں گے۔ انور ابراہیم ملک کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہے۔ اس طرح مہاتیر محمد کی پوزیشن بہتر تھی اور اسمبلی میں بھی انہیں انور ابراہیم کے اراکین کا تعاون حاصل تھا۔ پھر اچانک ان دونوں رہنمائوں کے مابین کچھ اختلافات ابھر آئے جس کے بعدیہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ وزیر اعظم مہاتیر محمد اپنا اپنا اتحاد بنا رہے ہیں اور انور ابراہیم سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ اختلافات کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ملکی معیشت کمزور ہو رہی تھی اور اس کے لئے مہاتیر محمدکچھ کرنا چاہتے تھے مگر انور ابراہیم کا منصوبہ کچھ اور تھا جس پر اختلاف بڑھ گیا۔ اورمہاتیر محمد وزارت عظمیٰ سے الگ ہو گئے پھرملک میں سیاسی خلاء پیدا ہو گیا۔استعفیٰ دینے کے بعد مہاتیر محمد نے دوبارہ وزیر اعظم بننے کیلئے نئے اتحادیوں سے بات چیت شروع کر دی اور ان کی جماعت نے چند دن بعد اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کے لئے سلطان شاہ عبد ا للہ سے درخواست کی جس کو بعد میں سلطان شاہ عبد اللہ نے منسوخ کر دیا۔ اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہو سکا۔ دوسری طرف مہاتیر محمد کی پارٹی کے اراکین نے نئے پارٹی کے سربراہ کا نام تجویز کر دیا اس طرح محی الدین یاسین پارٹی کے سربراہ بن گئے اور مہاتیر محمد کو فیصلہ تسلیم کرنا پڑا ،کیونکہ سلطان شاہ عبد اللہ نے ان سے کہہ دیا کہ وہ اب وزیر اعظم کے لئے کوشش نہ کریں۔ انہوں نے بھی محی ا لدین یاسین کو وزیر اعظم نامزد کر دیا ہے۔یکم مارچ کو ملائیشیا کے نئے وزیر اغظم کے طور پر محی الدین یاسین وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔

اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ محی الدین یاسین زیرک سیاستدان ہیں، تجربہ کار اور محنتی ہیں ،مگر ان کی پارلیمان میں پوزیشن مستحکم نہیں رہی۔ انہیں بیشتر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور باربار پارلیمان سے رجوع کرنا ہو گا تب مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف تجربہ کار اور ایک مضبوط سیاسی جماعت کے سربراہ انور ابراہیم ہیں جو مہاتیر محمد کے بعد وزیر اعظم کے لئے نامزد ہو رہے تھے انہوں نے اپنے حلقے اور جماعت میں خاصا کام کیا ہے۔

2018سے قبل ملک کے وزیر اعظم نجیب رزاق تھے۔ پارلیمان میں ان کی پوزیشن مستحکم تھی ،اس دوران مہاتیر محمد اور انور ابراہیم اقتدار سے باہر تھے، ان پر بھی الزامات عائد رہے تھے،مگر نجیب رزاق پر بڑی بدعنوانی کے الزامات عائد تھے۔ انہیں جیل میں ڈالا گیا مگر عدالت نے انہیں بری کر دیا۔ کہا گیا کہ نجیب رزاق کے ذاتی اکائونٹ میں جو ستر کروڑ ڈالر پائے گئے ہیں وہ سعودی شاہی خاندان نے ان کو عطیہ کے طور پر دیئے تھے،مگر دوبارہ 2018کے انتخابات میں مہاتیر محمد اور انور ابراہیم کی جماعتوں نے مشترکہ الیکشن لڑ کر اکثریت حاصل کی اور یوں مہاتیر محمد وزیر اعظم بن گئے تھے، مگر پھر وہ استعفیٰ دے کر انور ابراہیم سے بھی الگ ہو کر نیا اتحاد قائم کرنے اور دوبارہ وزیر اعظم بننے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے جس پر سب کو حیرت تھی مگر اب یہ سوال پید اہو گیا ہے کہ کیانئے وزیر اعظم کے تقرر کے بعد سیاسی بحران تھم جائے گا۔ ملائیشیا کے عوام جمہوریت پسند ،اعتدال پسند اور سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے۔1957میں اس نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی۔ یہاں برطانوی طرز کی جمہوری سیاست کا سکہ چلتا ہے۔ ملائیشیا وفاقی جمہوری دستور پر عمل کرتا ہے۔ یہاں بادشاہ کا رسمی سربراہ ہے۔ بادشاہ ہر پانچ سال بعد دستبردار ہوتا ہے اس کے بعد نو شاہی خانوادے بادشاہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ پارلیمان آزاد ہے ،چند رسمی اختیارات بادشاہ کے پاس ہیں،باقی پارلیمان کے پاس ہیں۔ نئے وزیر اعظم جن کو پارلیمان نے نامزد کیا ۔ بادشاہ سلطان شاہ عبداللہ نے بھی دستخط کر دیئے۔ محی الدین نجیب ملک کے آٹھویں وزیر اعظم ہیں، اس سے قبل وہ نائب وزیر اعظم اور نجیب کے دور میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ محی الدین یاسین اپنے آپ کو مالے کہلوانا پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ کو اعتراض ہے کہ اب ہم سب ملائیشین ہیں۔ ملک کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے قریب ہے۔ملائیشیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اس کے درمیان سمندری پٹی حائل ہے۔ بحرالکاہل میں داخل ہونے کا واحد راستہ ہے۔ اس لئے ملائیشیا کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ عوام توقع کرتے ہیں کہ سیاسی بحران کے خاتمے کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے۔

تازہ ترین