• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭…مترجِم یا مترجَم؟

پہلے تو یہ وضاحت کردی جائے کہ اس لفظ کے املا میں تشدید بالکل شامل نہیں ہے ۔ بعض لوگ اسے مترجِّم یا مترجِّم (یعنی جیم پر تشدید کے ساتھ)پڑھتے یا لکھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس لفظ میںحرف میم(م) پر پیش اور تے (ت) پر زبر ہے ، البتہ رے (ر) ساکن ہے۔ اگر اس لفظ میں جیم کے نیچے زیر لگایا جائے یعنی مُتَرجِم (مُ۔تَ۔ر۔ جِ۔م)پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا: جو ترجمہ کرے، ترجمہ کرنے والا۔ لیکن اگر اس میں جیم پر زبر ہو یعنی مُتَرجَم (مُ۔تَ۔ر۔جَ۔م) تو اس کا مطلب ہوگا : جس کا ترجمہ کیا گیا ہو، ترجمہ کیا ہوا ، ترجمہ شدہ۔

ایک اور لفظ مترجِم اور مترجَم کے آخر میں ’’ہ‘‘ کے اضافے سے بنتا ہے۔ یعنی اگر مترجِم (ترجمہ کرنے والا) کے آخر میں ’’ہ‘‘ کا اضافہ کرکے لفظ ’’مترجِمہ‘‘ پڑھا جائے تو یہ مترجِم کی تانیث ہوگی یعنی ترجمہ کرنے والی، وہ خاتون جو ترجمہ کریں۔ لیکن اگر اس میں جیم پر زبر ہویعنی ’’مترجَمہ‘‘ پڑھاجائے تو مفہوم ہوگاوہ ( کتاب ) جس کا ترجمہ کیا گیا ہو، ترجمہ کی گئی، ترجمہ کی ہوئی۔ قرآن شریف اگر ترجمے کے ساتھ ہوتو اسے مترجَم (جیم پر زبر) کہتے ہیں ۔کوئی کتاب ترجمہ کی ہوئی ہو تو اسے متر جَمہ(جیم پر زبر ) کہتے ہیں۔ مترجِم (ترجمہ کرنے والا) کی جمع مترجِمیِن ہے۔

تویاد رہے کہ جومرد ترجمہ کرے وہ مترجِم (جیم کے نیچے زیر) ہے اور اگر کوئی خاتون ترجمہ کریں تو وہ مترجِمہ (جیم کے نیچے زیر)ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی لفظ میں تشدید نہیں لگائی جائے گی۔

٭…آوازہ کَسنا یا آواز کَسنا؟

افسوس کہ اب ہمارے ہاںادب اور صحافت کے معیار کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ الفاظ اور محاورات جو طویل عرصے سے استعمال میں تھے ان کے بھی غلط استعمال کی مثالیں کثرت سے سامنے آنے لگی ہیں ۔اگر اِکّا دُکاّ ایسی مثالیں نظر آئیں تو انھیں کتابت یا پروف خوانی کی اغلاط پر محمول کرکے نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ بعض اغلاط کی مثالیں اخبارات اور ٹی وی پر بھی تسلسل سے سامنے آرہی ہیں۔ ایسا ہی ایک لفظ’’ آوازہ‘‘ ہے ۔بعض لوگ اسے لفظ ’’آواز‘‘ سمجھتے ہیں اوراسی لیے’’ آوازہ کَسنا ‘‘کی بجاے ’’آوازکَسنا‘‘ استعمال کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔

عرض ہے کہ آواز کا لفظ تو اپنی جگہ پر ہے لیکن اس سے ملتا جلتا لفظ آوازہ ہے اور اس کے مفہوم میں بھی تھوڑا سا فرق ہے۔ آوازاور آوازہ دونوں فارسی سے آئے ہیں ۔آوازہ کا مطلب ہے: اونچی آواز ، پکار،شور و غل ۔ یہ گونج کے معنی میں بھی آتا ہے اور افواہ یاشہرت کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ دھوم یا صدا یا بلند آواز کے معنی میں لفظ آوازہ اقبال نے بھی استعمال کیا ہے۔ ضرب ِ کلیم میں شامل نظم ’’ہندی مسلمان ‘‘ میں کہتے ہیں :

آوازۂ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے

اسٹین گاس کی عربی فارسی بہ انگریزی لغت کے مطابق آوازہ موسیقی کی اصطلاح بھی ہے ۔لفظ آواز تواردو میں مونث ہے لیکن آوازہ مذکر ہے۔ یعنی مثلاً یوں کہیں گے کہ’’ آواز بلند ہوئی‘‘ ۔ لیکن ’’آوازہ بلند ہوا‘‘ کہا جائے گا۔

غالب نے کہا کہ :

بینوائی تر صداے نغمۂ شہرت اسدؔ

بوریا ،یک نیستاں عالم بلند آوازہ تھا

لیکن اردو میں آوازہ کے ایک اور معنی بھی ہیں اور وہ ہیں : پھبتی، طعنہ، طنزیہ فقرہ۔اور اسی مفہوم میں آوازہ کسنا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ آوازہ کی جمع ’’آوازے ‘‘ ہے ۔ اسی لیے آوازے کَسنا (یعنی فقرے کسنا ، طنزیہ جملے پھینکنا)ا کثر استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً :بازار میں لفنگوں نے ہم پر آوازے کسے (یعنی پھبتیاں کسِیں)۔ لیکن اب اس طرح کے جملے کو عام طور پر یوں لکھا اور بولا جاتا ہے کہ مثلاً بازار میں لفنگوں نے ہم پر آوازیں کسِیں جو بالکل غلط ہے۔ آوازہ کسنا محاورہ ہے اور جمع میں آوازے کسنا استعمال ہوتا ہے ۔ لہٰذ ا یہاں ’’آوازے کَسے ‘‘درست ہوگا ۔

آوازہ؍آوازے پھینکنااور آوازہ؍آوازے اُچھالنا بھی رائج ہیں۔ بلکہ اردو میں’’ آوازہ تَوازہ ‘‘کی ترکیب بھی رائج ہے اور یوں کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر: آوازہ توازہ کسا ۔ یا آوازے توازے کسے۔ گویا درست استعمال آوازہ کَسنا اور آوازے کَسنا ہے۔

تازہ ترین