• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں ہر سال 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اس دن کے حوالے سے ہر سال ایک تھیم دیتی ہے۔ امسال کی تھیم ’’صنفی مساوات‘‘ (Generation Equality) ہے، جس کا مقصد خواتین کو ہر شعبے میں مساوات فراہم کرنا ہے۔صنفی مساوات کاشور عرصے سے ہورہا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ تاحال برابری کہیں نظر نہیںآرہی ۔گر چہ آج کی عورت ہر شعبے میں اپنے آپ کو منوارہی ہے لیکن صنفی تفریق اپنی جگہ موجود ہے۔ ایساکیوں ہے ؟ اس حوالے سے چند نام ور خواتین کے خیالات پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا ۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

’’تمہیں معلوم ہے برابر والے اسلم صاحب کی بیٹی نوکری کرنے لگی ہے اور سنا ہے بہت اونچی پوسٹ پر نوکری ملی ہے۔اس کے ماتحت بہت سارے لڑکے کام کرتے ہیں۔پتا نہیں کیسے اتنی اُونچی پوسٹ پر نوکری مل گئی۔کیسے ماں باپ ہیں جو بیٹی کو نوکری کرنے کی اجازت دے دی‘‘ ۔یہ فر سودہ خیالات سے بھر پور جملے ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں سننے کو ملتے ہیں ،کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی کے ٹونٹی ٹونٹی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن سوچ کے اعتبار سے ابھی تک انیسیویں صدی میں جی رہے ہیں ۔پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہے لیکن ہمارے معاشرے کی سوچ میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ اس دور میں بھی اتنی دقیانوسی سوچ ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلوائی جاتی لیکن اپنی بیوی،بیٹی یا بہو کے علاج کے لیے لیڈی ڈاکٹر کو ہی تر جیح دی جاتی ہے ۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں جہاں معاشرے میں فر سودہ سوچ کے حامل افراد موجود ہیں وہیں ایسے متعدد افر اد بھی ہیں جو اپنی بیٹیوں کو اعلٰی تعلیم دلا رہے ہیں، اپنی بیٹیوں کو اُونچااُڑنے کے مواقعے فراہم کررہے ہیں،نا کہ ان پر بے جا پابندیاں لگا کر قیدی کی طر ح چار دیواری میں بند رکھا ہوا ہے ۔ اسی لیے تو آج کی عورت پُر اعتماد ،کام یاب ،پُر جوش،بھر پورصلاحیتوں کی مالک اور ہر فن مولا ہے ،امورخانہ داری کے ساتھ دفتری معاملات بھی بہ خوبی سنبھال رہی ہے۔ مثل مشہور ہے ’’ایک کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘‘ بالکل اسی طر ح ایک کام یاب اور تعلیم یافتہ عورت کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے ۔یہ باپ ،بھائی اور شوہر کا وہ غیر متزلزل اعتماد ،بھروسہ اور یقین ہی ہوتا ہے ،جو اسے زمانے کی تلخیوں اور مشکلات کا ڈٹ کر سامنے کرنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود ایک عورت آج بھی اپنی بقا اور صنفی عدم مساوات کی جنگ لڑرہی ہے ۔ 

جب ہم ایک کام یاب عورت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم صرف اعلٰی عہدوں پر فائز خواتین کا ذکر کررہے ہیں ۔بلکہ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو سارا دن گھریلوکام سرانجام دیتی ہیں، یہ کام بھی کسی کل وقتی ملازمت سے کم نہیں ۔2019 ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 49.6 فی صد حصہ خواتین پر مشتمل ہے ،اس کے باوجود یہ طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔حالاں کہ ایسا نہیں کہ پاکستان میں حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے کام نہیںکیا جاتا یا ان کے لیےقوانین نہیں بنائے گئے ہیں ۔ 

پاکستان میں حقوق نسواں کے لیےکے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے او ر اس حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں ،مگر ان پر عمل در آمد نہ ہونے کے باعث خواتین آج بھی استحصال اور عدم مساوات کا شکار ہیں ۔لیکن عورت کی اپنے حقوق سے محرومی کی یہ تصویرصرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ،مغرب کی عورت بھی کم وپیش ایسے ہی حالات سے دوچار ہے وہاں بھی صنفی امتیاز کسی نہ کسی صورت موجود ہے اورعورت حقوق کی پامالی اور استحصال کا شکار ہے ۔اسی لیے ہر سال 8 مارچ کو’’ خواتین کا عالمی دن‘‘ منا یا جاتا ہے ۔اگر ہم خواتین کے عالمی دن کا تاریخی پس منظر دیکھیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عورتوں کے مظالم کی داستانیں کسی ایک خاص خطے سے وابستہ نہیں ۔

بلکہ مشرقی ممالک کی طر ح مغربی ممالک کی خواتین کوبھی آزادی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مردوں کے مد مقابل ہی کھڑا ہونا پڑا ہے۔ چاہیے وہ کھیل کا میدان ہو ،میڈیا کوریج ہو یا سائنس وٹیکنا لوجی کی دنیا ہو… خواتین کے لیے ہر جگہ برابری ہونی چاہیے ،اسی طر ح دنیا ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوسکتی ہے ۔اب اگر اسی تناظر میں پاکستان کاجائزہ لیا جا ئے ،تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری بہ ہمت خواتین ہر شعبے ،ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں ۔

پوری عزت اور آبرو کے ساتھ اپنے باپ ،بھائی اور شوہر کا نام روشن کررہی ہیں ۔راہ میں حائل رکاوٹوں کو مہارت کے ساتھ عبور کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں ۔زندگی کے ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابل کر رہی ہیں ۔باہر کی دنیا کے ساتھ ساتھ وہ امور خانہ داری بھی بہ خوبی سر انجام دے رہی ہیں ۔اور معاشرے کی بے جا سختیوں کے باوجود وہ ہار نہیں مانتیں ۔در حقیقت یہی بہادر اور حوصلہ مند خواتین ہی پاکستان کا اصل چہرہ ہیں ۔اور یہی اپنے ملک کا نام روشن کررہی ہیں،جب تک صنفی نازک کوہر اعتبار سے یکساں سہولتیں او ر حقوق حاصل نہیں ہوں گے اُس وقت تک ہم ایک ترقی یافتہ معاشرہ قائم نہیں کرسکتے ۔ 

ہمیں ہر طر ح سےاپنی خواتین کو خود مختار بنانے کی ضرورت ہے اور دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنے ذہنوں سے یہ بات نکالنی ہوگی کہ خواتین یہ کام نہیں کر سکتیں یا وہ کام نہیں کرسکتیں ۔ہمیں اپنی آنے والی نسل کواس صنفی امتیاز سے بچانا ہوگا ،ان کو خود مختار اور باہمت بنانا ہوگا ۔خواتین کے نظریات کو منظر عام پر پیش کرنا ہوگا۔ہمارے ملک کی عورت ہر کام کرسکتی ہے بس اس کو راہ ملنے کی دیر ہوتی ہے اور راہ ملتے ہی وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ہے ۔وہ ہم سب جانتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان میں صنفی مساوات کے حوالے سے کیے جانے والے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئے ہے کہ گزشتہ 7 بر سوں میں ایسے مرد حضرات کی تعداد میں 15 فی صد اضافہ ہوا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں ۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ 76 فی صد پاکستانی مرد حضرات اور 90 فی صد عورتوں کے خیال میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور ان کو بر ابری کے حقوق بھی ملنے چاہیے ۔

اس جائزے میں رویوں اور عمل کے مابین پائے جانےوالے تفاوت اور رکاوٹیںبھی سامنے آئیں جو عورتوں کی معاشی اور سیاسی مواقع تک رسائی میں مانع ہیں ۔مجموعی طور پر صنفی مساوات کے حوالے سے پاکستان نے قدم بڑھائے ہیں ۔اس جائزے کے نتائج کو امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ )کے زیر اہتمام ’’پاکستان نے صنفی مساوات اور ارتقا ء پذیر رویے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی ایک نشست میں موضوع بحث بنایا گیا۔

مباحثے میں سول سوسائٹی ،حکومت اور بین الاقوامی برادری سے تعلق رکھنے والے 70سے زاید نمائندوں نے شر کت کی ۔پاکستا ن میں امریکی مشن کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے سفیر پال جونز نے اس بات پر زور دیا کہ معاشروں کی ترقی کے لیے عورتوں کے لیے تعلیم اور روز گار کے مواقع ،معیاری طبی سہولتیں اور ٹیکنالوجی تک رسائی بےحد ضروری ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ صنفی مساوات اور عورتوں کو با اختیار بنانا محض ترقی کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہر ملک کے ترقیاتی اہداف کا مرکزی نقطہ ہے۔

پنجاب نے 2016 ء میں صنفی مساوات پر پہلی رپورٹ پیش کی تھی ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبے میں زندگی کے قریباً ہر شعبے میں صنفی مساوات ہے ۔2014 ء میں 15 سال سے بڑی لڑکیوں کی شر ح ِخواندگی 58 فی صد تھی ،جب کہ یہی شر ح لڑکوں میں 67.6 فی صد تھی ۔اس کے علاوہ خا ص طور پر شہری علاقوں میں کام کرنے والے مردوں اورعورتوں کے مابین بھی شدید عد م مساوات پایا جا تا ہے ۔شہری اور دیہی پنجاب میں 25 سے 60 سال کی عمر میں مردوں کے کام کرنے کی شر ح 90 فی صد سے زیادہ ہے ،جب کہ عورتوں میں یہی شر ح 18 تا 22 فی صد ہے ۔46 فی صد عورتوں کو جو معاوضہ ملتا ہے وہ کم سےکم آمدنی کے زمرے میں آتا ہے ۔ سر کاری اداروں ،خا ص طور پر قانون کے شعبے میں عورتوں کا تناسب بہت کم ہے ۔پاکستان میں خواتین تشدد کی زد میں رہتی ہیں ،جس میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر ہونے والا تشد دشامل ہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق پنجاپ میں 2012 ء سے 2015 ء تک غیرت کے نام پر 922 قتل ہوئے، تیزاب پھینکنے کے 110 واقعات رپورٹ ہوئے ،جب کہ چولھے سے جلنے کے دس واقعات پیش آئے ۔صرف 2015 ء میں ریپ کے 2701 کیسز در ج ہوئے ۔عورتوں کے خلاف تشدد کی بلند شر ح ،بشمول کام کرنے کی جگہوں پر ہراسانی کی وجہ سے خواتین اپنے تحفظ کی خاطر کام کرنے سے کتراتی ہیں۔ حکومت نے عورتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات تو کیے ہیں لیکن معاشرے کی رجعت پسند سوچ کی وجہ سے عورتوں کو طاقت بخشنے کے اہداف پورے نہیں ہو رہے ہیں۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ معاشرے کی سوچ میں اسی وقت تبدیلی آسکتی ہے جب سماجی شمولیت اور صنفی مساوات کے لیے مسلسل کوششیں کی جائیں ۔ہمار ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نےعورت کا کردار امور ِخانہ داری تک ہی محدود کردیا ہے ،جب کہ مردوں کو گھروں سے باہر کام کرتے دکھایا جاتا ہے ۔اگر عورت کو باہر کام کرتے دکھا یا بھی جاتا ہے تو وہ عموماً خدمات والے شعبے ہوتے ہیں ۔مثلاً ڈاکٹر اور استاد۔عورتوں کو پائلٹ ، انجینئرز، سائنس داں یا بزنس وومن کے روپ میں نہیں دکھا یا جاتا ،حالاں کہ ان شعبوں میں بھی ان کی بڑی تعداد کام کررہی ہے ۔کوئی کچھ کہے ۔حقیقت یہ ہے کہ صنفی تفریق آج بھی ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟جب کہ آج کی عورت ہر شعبے میں اپنےآپ کو منو ارہی ہے ۔

جنگ جاری ہے...!
مہتاب اکبر راشدی

مہتاب اکبر راشدی، سابق رُکن صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ، اب تک عورت کا صنفی مساوات کا شکار ہونے کی وجہ ہمارا ماحول ،معاشرے کی بنیادی رسوم اورروایتیں ہیں ،ہم کسی طر ح کے ماحول میں بڑے ہوئے ہیں ،کتنا سیکھا ہے، اپنے آپ کو کسی حد تک تبدیل کیا ہے یہ تمام چیزیں ایک عورت کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔اس سلسلے میں جو سب سے بڑے رکاوٹ ہے وہ تعلیم کی کمی ہے،جس کے نہ ہونے کی وجہ سےاب تک ہم صنفی مساوات کا خاتمہ نہیں کر پارہے ہیں۔تعلیمی سلسلے میں عورت تو پیچھے ہے ہی ،مرد بھی اس میں پیچھے رہ جاتا ہے ،کیوںکہ وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ جو سلوک اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ کر رہا ہے نہ مذہب اس میں رکاوٹ ہےاور نہ کوئی اور، یہ اس کی اپنی کی ازخود پابندیاں ہیں، جو عورت کو معاشرے میں اپنا مقام نہیں بنانے دیتیں۔

ایک عورت کو آزادی دینا ،تعلیم دلوانا آنے والی نسلوں کے لیے کتناضروری ہے لیکن ایک مرد اس بات کو نہیں سمجھتا ۔اگر ہم اپنے صوبوں کی بات کریں تو ان کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے انہیں قدیم چیزوں کو لے کر چل رہے ہیں ،اسی وجہ سے وہ وہیں کھڑے ہیں۔جہاں صدیوں پہلے تھے ،دراصل وہ اپنا مائنڈ سیٹ بدل ہی نہیں چاہتے ۔وہاں کے لوگوں کا بس ایک ہی رونا ہے ہمارے ہاںیہ رواج نہیں ،یہ رسم نہیں ہے ۔ان فرسودہ خیالا ت میں ایک عورت پس ماندہ زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہے اور آنے والی نسلیں بھی اس کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

میں یہ نہیں کہوں گی کہ معاشرے میں تبدیلی نہیںآرہی لیکن اس تبدیلی کی رفتار بہت ہی کم ہے ۔اس طرح ہمیں اپنی عورت کو خود مختار بنانے میں صدیاں لگ جائیں گی ،کیوںکہ اس کی زندگی کی بھاگ دوڑ تو مرد کے ہاتھ میں ہے ۔حالاں کہ ہمارے معاشرے کی ہر عورت صلاحیت سے بھر پور ہے،اگر اُس کو موقع ملے تو وہ بہت آگے نکل سکتی ہے ۔ایک عورت اپنے لیے جس شعبے کا بھی انتخاب کرتی ہے وہ اس میں اپنی صلاحیتوں کے جو ہر بہ خوبی دکھا تی ہے ۔اگر اپنے شہر کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ہر شعبے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔گزشتہ دنوں ایک انجینئر نگ یونیورسٹی میں جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں پر لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی تعداد تھی جو انجینئرنگ کے شعبے میں تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ 

ان ٹیکنالوجیز میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جو کسی زمانے میں لڑ کیوں کے لیے مشکل سمجھی جاتی تھیں ۔لیکن ایک عورت کو یہ سب کرنے کے لیے اپنے گھر کی سپورٹ کی لازمی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر وہ یہ سب کرنے کے لیے اکیلے نکل جاتی ہےتو معاشرہ ا س کو جینے نہیں دیتا ،اس کی راہ میں مشکلا ت کھڑی کردیتا ہے ۔اورآج جولڑکیاں تعلیم کی راہ میں ترقی کررہی ہیں ۔اسی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان کے اہل خانہ ،خاندان ان کو سپورٹ کررہے ہیں ۔ان کے گھروالوں نے ان کو معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی آزادی دی ہے ۔ اور ایسا کرکے وہ یہ ثابت کرتی ہیں کہ اگر ان کو آزادی ملےتو بہت کچھ کرسکتی ہیں ۔تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرد یا عورت ہونا ضروری نہیں ہے ،بلکہ اس کے لیے روشن ذہنوں کا ہونا ضروری ہے ۔

اس ترقی یافتہ دور میں بھی اگر ایک عورت آزادی سےتعلیم حاصل نہیں کر پارہی توا س کا مطلب تو یہی ہے کہ ہم ابھی تک دقیانوسی خیا لا ت کے مالک بننے ہوئے ہیں ۔آج ترقی اور اپنا حقوق حاصل کرنے میں عورتوں کو جو رکاوٹیں ہیں وہ گھر کی عدم سپورٹ اور سوسائٹی میں بہت ساری چیزوں کو قبول نہ کرنا ہے ۔ لیکن شہروںمیں کافی حدتک تبدیلی آگئی ہے ۔آج عورت موٹر سائیکل بھی چلا رہی ہے ۔مختلف قسم کےبزنس بھی کررہی ہے ۔فٹ پاتھوں پر ٹھیلے بھی لگا رہی ہے ،غرض یہ کہ وہ سارے کام کررہی ہے جو ایک مرد کرتا ہے لیکن ان سب کے باوجود صنفی مساوات کا خاتمہ نہیں ہورہا۔ جس معاشرے میںیہ احساس پید اہو جائے کہ تعلیم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں کے لیے اہم ہے وہ معاشرہ بہت تیزی سے ترقی کرتا ہے ۔ 

ہماری سوسائٹی کا تو المیہ یہ ہے کہ بہو ڈاکٹر چاہیے لیکن وہ نوکری نہیں کرے گی ۔اپنے پرو فیشل کو جاری نہیں رکھےگی ۔ ہمیں اپنی سوچوںکو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسلا م میں عورت پر تشدد کرنے کا نہیںکہا گیا اور نہ ہی اس سے کوئی کام جبراً کرانے کا حکم دیا گیا ہے ۔جس جمہورت پر ہمیں اتنا فخر ہے ،اُس میں تو خواتین کی جدوجہد کو منظر عام پر لایا ہی نہیں جا تا ۔قانون سازی میں اُن کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے ،کیوں پارلیمنٹ میں خواتین کا کوٹہ 50 فی صد نہیں کیا جاتا ۔ایسا نہیں ہے کہ خواتین کم عقل یہ نا سمجھ ہیں۔کیوںسیاسی پارٹیوں کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ 50 فی صد نشستیں خواتین کے لیے مختص کریں۔

اُن کے لیے 23 فی صدجو سیٹیں ہیں ،ان کے علاوہ اوپن سیٹیوں کا آپشن بھی ہونا چاہیے ،تا کہ خواتین مقابلہ کرکے آگے آئیں ۔ہمیں ان سب چیزوں پر مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عورت اگر کوئی چھوٹا سابھی غلط کام کرے تو اسے ایشو بنالیا جاتا ہے ۔عورت کا لبا س اہم مسئلہ بن جاتا ہے۔ گزشتہ سال عورت مارچ کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا یا گیا ۔اگر آپ کو اچھا نہیں لگا تو آپ نظر انداز کردیں ۔دوسری طر ف جب ایک عورت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے ،ا س کا ریپ کر دیا جا تا ہے، تب تو کوئی اس طر ح آواز بلند نہیں کرتا ۔بیچ سڑک پر عورت کو ہراساںکیا جا تا ہے تب تو کوئی شور نہیں مچاتا ۔

میرا معاشرے سے ایک سوال ہے ؟کیا ہر کام کو میڈ یا پر اُچھالنا ضروری ہے ؟۔ایک مہذب معاشرہ وہ ہی کہلاتا ہے ،جہاں عورتوں کو ہر طر ح سے تحفظ فراہم کیا جائے اور ہر روپ میں اُ س کی عزت جائے ۔خواتین کے حقوق کے لیےقوانین تو وضع کیے گئے ،مگر ان کا اطلاق بھی لازمی ہونا چاہیے ۔غیرت کے پیمانے اس میں نہیں ہیں کہ آپ کی لڑکی باہر پڑھنے جائیںگی تو لوگ کیا کہیں گے ۔غیرت اور شعور تقاضہ کرتا ہے کہ آپ کی لڑکی اتنی بہ شعور اور تعلیم یا فتہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے لیے اچھے برے کا فیصلہ کرسکے اور صرف ایک دن کو نہیں بلکہ ہر دن کو خواتین کے تحفظ کا دن سمجھنا چاہیے ،ان کے حقوق اور مساوات کی بات ہر دن کرنی چاہیے ۔

جنگ جاری ہے...!
عظمٰی نورانی

عظمٰی نورانی ممتاز سماجی رکن ،پنا ہ شیلٹر ہوم کی روح رواں ہیں ان کا کہنا ہے کہ، ہمارے معاشرے میں پدر شاہی نظام قائم ہے،ہم ابھی تک اسی نظام میں جی رہے ہیںاور جب تک یہ نظام قائم رہے گا ،خواتین کے حقوق اور مساوات کی جنگ جاری رہے گی ۔ اس کا ریشو کہیں کم ہے اورکہیں زیادہ ہے لیکن ہے مشرق اور مغرب دونوں میں۔ میں یہ ضرور کہوں گی کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے خواتین نے کبھی اپنے لیے جدوجہد نہیں کی ہےیا وہ آگے نہیں بڑھی ہیں ۔قیام پاکستان کے وقت بھی خواتین نے جدوجہد کی تھی اور آج بھی کر رہی ہیں ۔صنفی مساوات کے حوالے سے پیش رفت ضرورہوئی ہے لیکن بہت کم ہوئی ہے۔ آج جو بھی حقوق خواتین کو حاصل ہیں وہ ان ہی کی جدوجہد اور محنت کا ثمر ہیں ،انہوں نے ہی اپنے حق کے لیے آواز اُٹھا ئی ،احتجاج کیے ۔

تب کہی جا کے یہ معمولی سے حقوق حاصل کیے ہیں ۔ خواتین کی حقوق حاصل کرنے کی جنگ تو1981 ء میں شروع ہوگئی تھی ،جب ویمن ایکشن فورم بنا تھا ۔ اس جدید دور میں نوجوان نسل بھی اپنےحق کے لیے آواز بلند کررہی ہے ۔اور ان کے مسائل پچھلی نسلوں سے مختلف ہیں ۔میرے شیلٹر ہوم میں اب جو بھی کیسز آتے ہیں وہ بہت ہی چھوٹی لڑکیاں ہیں جو پسند کی شادی کے لیے یا کسی کام میں آگے بڑھنے کے لیے لڑرہی ہیں ۔ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں کہ ہمارے مذہب میںعورت کو یہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ،وہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ میرا ایک سوال ہے ؟ کیا ہمارے مذہب میں عورت کو مارنے کی ،اُس پر تشدد کرنے کی ،غیرت کے نام پر قتل کرنے کی اور ہراساں کرنے کی اجازت ہے؟۔عورت تو ہر روپ میں قابل ِاحترام ہے ۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ قوانین تو بہت بنا دیئے گئے ہیں لیکن عمل در آمد اب تک نہیں ہوا ۔ایک اور بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے جو مرد اور عورت دونوں میں ہے، اسی لیے ہم یہ فرق نہیں کر پاتے کہ ہم جو اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ سلوک کررہے ہیں وہ صحیح ہے یاغلط ،یہی وجہ ہےکہ عورت اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طر یقے سے نہیںاُجاگر کرپارہی ہے ،اُس طرح سے آگے نہیں بڑھ رہی ہیں ،جس طر ح سے بڑھنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ ایک وجہ نقل و حرکت (mobility)بھی ہے ،جب عورتیں گھروں سے نکلتی ہیں تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔چاہیے وہ بسوں میں سفر کررہی ہوں یا پیدل چل رہی ہوں۔

ایک مائنڈ سیٹ جو ہمارے معاشرے میں ہے کہ عورت کا در جہ مرد سے کم تر ہے ،وہ مرد سے ایک قدم پیچھے ہے۔اور صنفی تفریق ہم بچپن سے اپنے گھروں میں بھی دیکھتے آئے ہیں ۔صدیوں پہلے جس چار دیواری میں عورت بند تھی ،آج بھی وہ چار دیواری مکمل طور پر کھلی نہیں ہے ۔آج کی عورت بھی اس کی سختیوں میں پس رہی ہے ۔بہت ساری رکاوٹیں ابھی بھی ان کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ عورت خود مختار بن سکتی ہے ،اگر اس کو تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ سے زیادہ موا قعے فراہم کیے جائیں ،ہر کام آزادی سے کرنے کی اجازت ہو ۔ ایک تعلیم یافتہ عورت بہتر فیصلہ سازی بھی کرسکتی ہے ۔اس معاشرے میں جو عورت کا ایک تاثرہے وہ اس کا خود کا بنا یا ہوا نہیں، بلکہ مرد کا بنایا ہوا ہے ۔

ہمارا میڈیا عورت کا مثبت امیج کیوں نہیں دکھا تا ؟کیوں میڈ یا پر یہ نہیں دکھایا جاتا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت کس طر ح معاشرے میں اپنا کردار ادا کررہی ہے ۔مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتاکہ ہمارے ڈراموں میں ہمیشہ ایک عورت کو مار کھاتی، روتی پیٹی اور تشدد بر داشت کرتے ہی کیوں دکھا یا جاتا ہے ؟ عورت ،صنف نازک ہے ،اس کو اسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی ،جس جوش وخروش سے 2019 میں ہونے والی عورت مارچ کو سوشل میڈیا پر ایشو بنا یا گیا ،اس کے خلاف آواز یں بلند کی گئی ، بالکل اسی طر ح ،اْس وقت بھی آواز یں اُٹھا یا کریں ، جب ایک پانچ سال کی بچی کا ریپ ہوتا ہے ،ایک کمسن لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جا تا ہے۔،گول روٹی نہ بنانے پر تشدد کیا جاتا ہے ، جب تو کوئی اس طرح آگے نہیں بڑھتا ۔یہ غیرت صرف عورت کے غلط کام کرنے پر ہی کیوں جاگتی ہے؟

……٭٭……٭٭……٭٭……

جنگ جاری ہے...!
فاطمہ حسن

فاطمہ حسن ادب کی دنیا کا ایک معروف نام ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،’’برسوں سے رائج ہمارے سماجی روئیے صنفی عدم مساوات کی وجہ ہیں۔عورت کو کم تر مخلوق ،کمزور ،ناقص العقل ثابت کرنے اور محکوم رکھنے میں مصنفین اور مبلغین نے یکساں کردار ادا کیاہے۔ تاریخ کے صفحات پر حاشئے میں بھی ان کا ذکر نہیں جب کہ تمدن کو پروان چڑھاتے میں اس کا بڑا کردار ہے۔خاص طور سے جہاں قبائلی سرداری اوربادشاہی نظام رائج ہے وہاں انسانوں کو محکوم بنانے کے لئے عورت آسان ٹارگٹ ہے اور اسے کمتر مخلوق سے بھی پست ایک شے سمجھا جاتاہے ۔

جسے بیچنا خریدنا،تحفے میں دینا بلکہ قتل تک کردینا جائز ہے۔چناں چہ ونی ، کارو کاری اور غیرت کے نام پر دیگرقتل جیسی ظالمانہ رسوم سماج کا حصہ ہیں۔لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دی جائےاور معاشی میدان میں فعال بنایا جائے۔ان میں خود اعتمادی پیدا کی جائے۔لڑکے اور لڑکیوں سے برابر کا سلوک کیا جائے۔ عورت اور مرد دونوں میں یہ شعور ہونا چاہئے کہ وہ معاشرے میں رائج عدم مساوات کے رویّوں کو جو غلط تصورات پر قائم ہیں رد کریں ۔

انہیں استحکام نہ دیں،حقوق حاصل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد چاہئے۔ جہاں معاشرتی ناہمواری اپنی انتہا پر ہو وہاں ہر سطح پرغیر متوازن ردعمل نظر آئے گا۔مثلا" ہماری نا ولوں اور افسانوں میں عورت کو فرشتہ یا شیطان بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اب ٹی وی ڈرامے بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں۔عورت کو باشعور انسان سمجھا جانا چاہئے۔خود مختاری کے لئے خود انحصاری ضروری ہے۔

تازہ ترین