• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ شاہد خاقان عباسی کی گرفتار ہونے سے کچھ عرصے قبل کی بات ہے میں اور عزیز دوست صحافی طارق عزیز شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی غرض سے ان کے گھر پر موجود تھے اس ملاقات میں یہ واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنی سیاسی سوچ کے سبب سے اپنی گرفتاری کی کسی وقت بھی توقع کر رہے ہیں۔ LNGمعاہدے کے حوالے سے ایک ایک تفصیل ان کو ازبر تھی لیکن اس بات پر پریشان بھی تھے کہ ان کو ایک ایسے کیس میں الجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جس کے اثرات صرف پاکستان پر داخلی طور پر ہی نہیں تھے بلکہ قطر جیسے اہم ملک اور دیرینہ دوست کے حوالے سے خارجہ امور کے طور پر بھی سامنے آسکتے تھے بہرحال اگر فیصلہ ساز اتنا سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تو جو کچھ جولائی 2017سے کھلے عام وطن عزیز کے ساتھ ہورہا ہے وہ نہ ہوتا۔ شاہد خاقان عباسی بضد رہے ورنہ بہت عرصے قبل ہی زندان سے آزادی حاصل کر لیتے میری بات کی دلیل اسلام آباد ہائیکورٹ کے یہ ریمارکس ہیں کہ حکومت نے کسی اور ملک (امریکہ) سے گرانٹ لے کر اس ملک نے خودایک فرم کی خدمات حاصل کیں اس وقت صوبے کے لیے عوامی فنڈز کا استعمال نہیں کیاگیا بلکہ US-AIDکے فنڈز استعمال کیے اس معاملے میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے کوائف لاگو ہی نہیں۔ ان ریمارکس کے بعد کیس کی حقیقت سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان جو توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہاتھا اور بدقسمتی سے لگتا ہے کہ عنقریب دوبارہ کرے گا۔ اس کے ایسے معاہدے کو صرف سیاسی ضروریات کے تحت آلودہ کرنا کتنا بھیانک ہے جبکہ آپ کے سامنے قطر جیسا ملک ہو کہ جس کی بین الاقوامی اور وطن عزیز کے خارجہ معاملات سے لیکر دفاع اور معیشت تک میں حیثیت مسلمہ ہو۔ امریکہ اور افغان طالبان کا دوحہ میں ہونے والا معاہدہ اس دعوے کی منہ بولتی دلیل ہے۔ جبکہ اسی طرح گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان اور قطر کے باہمی تعلقات بتدریج بڑھتے چلے گئے جس کی وجہ سے دونوں ممالک دوستی اور باہمی مفادات کے نئے رشتوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اسی دوران چونکہ پاکستان نے عرب تنازعوں میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کو ایک غیر جانبدار دوست کے طور پر بھی دیکھا جانے لگا۔ پاکستان میں قطر کے سفیر مبارک المنصوری اس دوستی کو بڑھانے میں غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔جیسا کہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان جنرل مشرف کی آمریت کے دور میں توانائی بحران کے اندھیروں میں ڈوب گیا تھا۔ان اندھیروں کا خاتمہ 2013کے بعد برق رفتاری سے ہوا جس میں قطر سے کیے گئے LNGمعاہدے کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ معاملہ صرف انرجی بحران سے نمٹنے تک محدود نہیں رہا بلکہ قطر اور پاکستان نے دفاعی شعبوں میں بھی ایک دوسرے کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ قطر اپنی افواج کی جانب توجہ دے رہا ہے اسی دوران اس کی نظریں پاکستان کے دفاعی طیارہ سازی کی صنعت کی طرف بھی اٹھیں اور اس کے نتیجے میں قطر نے پاکستان سے آٹھ سپر مشاق طیارے خریدے۔ کافی عرصے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ پاکستان کو نئے بحری راستے تلاش کرنا چاہئیں۔ قطر اور پاکستان دونوں نے نئے بحری تجارتی راستے کا انتخاب کیا اور حماد پورٹ سے کراچی پورٹ تک سروس شروع کر دی۔ اس سروس کے نتیجے میں قطر سے اشیا براستہ کراچی، امریکہ، یورپ اور ایشیا ودیگر ممالک کو فراہم کی جارہی ہیں۔ خیال رہے کہ یہ بحری راستہ اس وقت اختیار کیا گیا اور ان دونوں بندرگاہوں کے درمیان رابطہ قائم کیا گیا جب پاکستان سی پیک کی بدولت بندرگاہوں کے معاملات میں ویسے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ جبکہ قطر کے اپنے خطے میں تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہوگئی کہ قطر کو بھی یہ بحری راستہ بہت مناسب لگا۔ 2017سےاب تک یہ راستہ رواں دواں ہے۔ اسی دوران قطر نے اسلام آباد اور کراچی میں دو ویزے کے دفاتر کھولے جبکہ On Arrivalویزے کی سہولت بھی مہیا کر دی۔ اسی دوران اسلام آباد میں قطر کے فوجی اتاشی کا بھی منصب سامنے آگیا۔ اسلام آباد میں قطر کے فوجی اتاشی کے آنے کا ایک واضح پیغام پوری دنیا کو گیا کہ قطر پاکستان سے دفاعی شعبے میں مزید قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔ اسی دوران پاکستان اور قطر کی باہمی تجارت 2.6ارب ڈالر تک پہنچ گئی 2018میں یہ 233فیصد تک بڑھ گئی۔ قطر نے 3ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی ڈیپازٹ کی صورت میں بھی گزشتہ سال کی جبکہ اسکول سے باہر 10لاکھ پاکستانی بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی معاشی تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔اس وقت صرف دوحہ میں پاکستانی اور قطریوں کی چودہ سو مشترکہ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور یہ سب صرف گزشتہ پانچ برس کے مختصر عرصے میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور افغان طالبان کے معاہدے میں بھی قطر نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی پاکستان کیلئے جو اہمیت ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ ویسے امریکہ اورافغان طالبان کا معاہدہ ابھی بالکل ایک ابتدائی شکل ہے، سردست اس کو کسی کیفیت کے خاتمے کے بجائے صرف حالات کے دوران ایک قدم کے طور پر ہی دیکھا جا نا چاہیے۔ افغانستان کے جھگڑے میں افغان حکومت، افغانستان کے سیاسی بندوبست میںشامل گروہ افغان طالبان اور امریکہ کے ساتھ وہ گروپ بھی ایک اہم فریق ہے جو اس دوران افغان طالبان سے بھی علیحدہ ہو گئے ہیں وہ اس معاملے پر کس حکمت عملی کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں؟ یہ ابھی تک ایک راز ہے اور اگر یہ راز خدانخواستہ مثبت کے بجائے منفی ہوا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ بہرحال یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہم قطر افغان معاملات میں کتنی دانشمندی دکھاتے ہیں کیونکہ ابھی تک تو صرف میڈیکل رپورٹس پر جگتیں کسنا ہی دکھائی دے رہا ہے۔

تازہ ترین