• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذیا بطیس ایک ایسا عارضہ ہے، جو سَر تا پیر ہر عضو، ہر نظام کو متاثر کرتا ہے اور اگر احتیاط نہ برتی جائے، تو نہ صرف مختلف پیچیدگیاں لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،بلکہ مریض کسی عضو سے محروم بھی ہوسکتا ہے۔جیسا کہ پیروں کے زخم،جوذیابطیس سے منسلک دیگر طبّی مسائل میں سب سے عام اور علاج کے ضمن میں منہگا ترین مسئلہ گردانا جاتا ہے،اگراس کا علاج بروقت اور کسی تجربہ کار ماہرِ امراضِ ذیابطیس سے نہ کروایا جائے، تومعمولی سا زخم بھی ٹانگ یا پیر کٹنےکی وجہ بن سکتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر 20سیکنڈ بعدذیابطیس سے متاثرہ ایک مریض کی ٹانگ یا پاؤں کاٹ دیا جاتا ہے، تاہم، ماہرینِ ذیابطس کا کہنا ہے کہ اگر پیروں کی حفاظت سے متعلق آگاہی فراہم کردی جائے ،تو 80فی صد مریضوں کو معذور ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

ذیابطیس کے سبب پیروں میں ہونے والےزخموں کوتین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم طبّی اصطلاح میں نیورو پیتھک فُٹ السر(Neuropathic Foot Ulcer) کہلاتی ہے۔اس قسم میں زخم ،پیروں کی حِس میں کمی یا نہ ہونے کے باعث ہوتے ہیں۔اسکیمیک فُٹ السر(Ischemic Foot Ulcer) ، پاؤں میں خون کی گردش کم ہوجانے کے نتیجے میں یہ زخم ہوجاتے ہیں،جن میں شدید درد بھی ہوتا ہےاور نیورو اسکیمیک فُٹ السر(Neuroischemic Foot Ulcer) میں پیروں کی حِس اور خون کی گردش میں کمی کے سبب زخم ہوتے ہیں۔ذیابطیس سے متاثرہ زیادہ تر مریض پیروں کے زخموں کا شکار نہیں ہوتے، مگرسب میں امکانات ضرورپائے جاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق قریباً 15فی صد مریض پیروں کے زخموں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پیروں کے زخموں کی عام علامات میں پاؤں کی حِس میں کمی، چلتے ہوئے پیروں یا پنڈلیوں میں درد، پیروں پر سخت جِلد یا گٹھے بننا شامل ہیں۔

ویسے تو ذیابطیس سے متاثرہ تمام مریضوں کواپنے پیروںکاہرہفتے ازخودمعائنہ کرناچاہیے، مگر جن میں زخم کی علامات پائی جائیں،وہ روزانہ کریں۔متعدد مریضوںکو ازخود معائنے سے متعلق درست معلومات نہیں ہوتیں، تو سب سےپہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں پیرمتوّرم تو نہیں، پیروں میں گٹھے تو نہیں پڑرہے ، پیروں کی انگلیوں کا درمیانی حصّہ سفیدی مائل، سخت جِلد، کوئی زخم، دانہ یا خراش تو نہیں یا پھر پیر یا انگلیوں کی ساخت اور رنگت میں کوئی تبدیلی تو نہیں آرہی۔اگر خدانخواستہ ان میں سے کوئی ایک بھی علامت پائی جائے، تو فوری طور پر اپنےمعالج سے رابطہ کریںاور کسی بھی قسم کی سیلف میڈی کیشن یا کوئی پھوڑا وغیرہ ہو ، توخود سے کٹ لگانے سےہر صُورت اجتناب برتیں۔

پیروں میں زخم کاعلاج مرض کی اسٹیج کے مطابق کیا جاتا ہے۔اگران زخموں میںمعمولی نوعیت کاانفیکشن ہو، تو یہ عام ادویہ سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔لیکن درمیانی یا شدید درجےکے انفیکشن میں اینٹی بائیوٹک انجیکشنز (بذریعہ ورید)تجویز کیے جاتے ہیں، جن کا استعمال وقت پر اور معالج کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق مقررہ دنوں تک کرنا بے حد ضروری ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض مریض معالج کی ہدایات پر مکمل طور پرعمل نہیں کرتے یا تو ادویہ کی مقدارازخود کم کردیتے ہیں یا پھر ان کے استعمال کے اوقات میں تبدیلی کرلیتے ہیں، جو قطعاً درست نہیں۔ 

یاد رکھیے، ذیابطیس میں مبتلا مریضوں کی قوّتِ مدافعت کم ہوتی ہے، اس لیے اینٹی بائیوٹکس بھی زیادہ دِنوں تک اور بعض کیسز میں تو ایک ساتھ دو ،دو تجویز کی جاتی ہیں، لہٰذا اپنا معالج خود بننے کی کوشش کریں، نہ ہی دوست احباب کے مشوروں پر عمل کیا جائے کہ بعض اوقات یہی عوامل معذوری یا پھر موت کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔نیز، ہمیشہ کسی ایسےڈائی بیٹالوجسٹ سے علاج کروایا جائے، جوجو پیروں کے زخموں کے علاج میںخاص طور پر تربیت یافتہ ہو۔

عام طور پر مریض، مرض کنڑول ہونے کی صُورت میں ماہانہ یا سالانہ معائنہ کروانے سے گریز کرتے ہیں، تو یہ رویّہ بھی درست نہیں۔بعض اوقات مریض کو لگتا ہے کہ اس کا مرض کنٹرول میں ہے، مگر طبّی اعتبار سے ایسا ہوتا نہیں ،لہٰذا پیروں میں حِس موجود ہونے کے باوجود سال میں ایک بار لازماً معائنہ کروائیں۔البتہ حِس کم یانہ ہونے کی صُورت میں ہر چھے ماہ بعد اور اگر پیروں میں حِس کی کمی کے ساتھ خون کی گردش بھی کم ہو، تو ہر تین ماہ بعد پیروں کا معائنہ ناگزیر ہے۔علاوہ ازیں، اگر حِس کی کمی کے باعث پیر میں زخم ہو، ٹانگ یا پیر کٹ چُکا ہو ،تو ہرمہینے باقاعدگی سے معائنہ کروایا جائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر پیر میں قدرے چھوٹازخم ہوجائے،تو علاج کی مَد میں تقریباً 50ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور اس خرچ میں صرف معالج کی فیس اور ادویہ وغیرہ شامل ہیں، جب کہ مریض کے اسپتال آنے جانے، پرہیزی کھانے اور اسپتال میں داخلے کی صُورت میں ڈس چارج ہونے والے اخراجات شامل نہیں۔ پھر یہ زخم مندمل ہونے میں کم از کم تین ماہ اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔تاہم، اس ضمن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں، تو کافی حد تک پیروں کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔مثلاً پائوں پر کبھی بھی براہِ راست گرم پانی ڈالیں، نہ ہی گرم پیڈ،گرم پانی کی بوتل اورانفراریڈ لیمپ سے( براہِ راست) سِکائی کریں،کیوں کہ پیر سُن ہونے کے سبب حرارت کی شدّت کا اندازہ نہیں ہوتا۔بہتر یہی ہے کہ پانی کا درجۂ حرارت جانچنے کے لیے کسی اور کی مدد لیں اور اگر کوئی نہ ہو ،تو کہنی سے پانی کا درجۂ حرارت جانچا جائے۔

اسی طرح ٹب میں پانی گرم کرکے اس میں پیر کبھی نہ ڈالیں،جب کہ ہیٹر کی طرف بھی پیر کرکے نہ سوئیں۔ نیز،ننگے پائوں چلنے سے بھی گریز کیا جائے،کیوں کہ اگر کوئی چیز چُبھ جائے تو مریض کوتکلیف کااحساس تک نہیں ہوتا۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگرمریض موٹر سائیکل پر سفر کررہے ہوں ،توزیادہ تر کیسز میں پیر سُن ہونے کی وجہ سے سائیلنسر سے جل جاتے ہیں اورزخم ہوجاتے ہیں،تو اس حوالے سے بھی احتیاط برتیں۔اسی طرح ہمیشہ آرام دہ جوتے استعمال کیے جائیں کہ تنگ جوتا یا چپّل، پیروں کےزخموں کاسبب بن سکتے ہیں۔ موزے بھی کاٹن ہی کے استعمال کریں،جو روزانہ تبدیل کیے جائیں۔

نیز،جب بھی نیا جوتا یا چپّل خریدیں، پہلے گھر میں چند دِنوں تک کچھ دیرپہن کر چہل قدمی کی جائے،تاکہ رواں ہوجائیں۔ کیوں کہ بعض اوقات نیا جوتا دیر تک پہننے کے باعث زخم ہوجاتے ہیں یا چھالے پڑجاتے ہیں،جب کہ سفر پر بھی نیا جوتا ساتھ لےجانے سے گریز کریں۔علاوہ ازیں، وقتاً فوقتاً زیرِ استعمال جوتوںکے اندرونی حصّوں کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ جو جوتے خاصے پُرانے ہوچُکے ہوں،مثلاًجن کے کنارے گِھس چُکے ہوں، کُھردرے یا تلوے پُرانے ہونے کے باعث جوتے کے اندر دھنسےہوئےیا سخت ہوں، استعمال نہ کیے جائیں۔نہانے یا وضو کے بعد پیر تولیے یا ٹشو پیپرسے لازماًخشک کریں،خاص طور پر انگلیوں کے درمیان کا حصّہ ۔کیوں کہ نمی سے پھپھوندی لگ سکتی ہے،جو بعدازاں انفیکشن کا باعث بن جاتی ہے۔ 

اگر پیر کی انگلیوں کے درمیانی حصّوں میں سفیدی نظرآئے، تو سمجھ جائیں کہ فنگل انفیکشن کا آغاز ہوچُکا ہے،لہٰذافوری طور پرڈاکٹر سے رجوع کریں۔ذیا بطیس میں مبتلا مریضوں کو اعصابی کم زوری کی وجہ سے عموماًپیروں میں پسینہ نہیں آتا ، جس کے نتیجے میں پیروں کی جِلد خشک ہوکر پھٹنا شروع ہوجاتی ہے اور انفیکشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،تو پاؤں، خاص طور پرانگلیوں کے درمیان معیاری موئسچرائزر، تیل یا پٹرولیم جیلی لگائیں۔ناخن ہمیشہ نہانے کے بعد سیدھے کاٹیں یا پھر انگلی کے خم کے ساتھ، جب کہ ناخنوں کے کنارے کاٹنے سے گریز کریں۔اگر نظر کم زور ہے یا موٹاپے کے باعث ناخن کاٹنے کے لیے جھکنا دشوار ہو، تو کسی دوسرے فرد کی مدد لیں۔ 

ناخن کے کھردرے حصّوں کو فائل یا ایمری بورڈ(Emery Board)سے ضرور ہم وار کریں۔اپنے معالج سے ہر ملاقات میں پیروں کا معائنہ لازماً کروائیں، تاکہ اگر خدانخواستہ انفکیشن یا Foot Corn ہو،تو بروقت علاج ہوسکے۔ اگرپیروں میں زخم کا سبب خون کی گردش میں کمی ہے(جس کی عام علامات میں چلتے ہوئے پنڈلیوں میں اور لیٹے ہوئے پائوں یا کولھے میں درد ، پائوں میں ٹھنڈک محسوس ہونا ،پیر ٹھنڈے رہنا یا پیروں کے ایسےزخم جو علاج کے باوجود ٹھیک نہ ہو رہے ہوں، شامل ہیں)، تو ادویہ استعمال کرنےکے ساتھ روزانہ چہل قدمی لازماً کی جائے۔

یاد رکھیے،اگر ایک بار پاؤںمیں زخم ہوجائیں تو دوبارہ ہونے کےامکانات پہلے کی نسبت بڑھ جاتے ہیں۔نیز، خدانخواستہ پیر کاٹنے کی نوبت آجائے، تو ذہنی اور جسمانی اذّیت کے ساتھ ملازمت سے نکالے جانے کاخطرہ سَر پر منڈلاتا رہتا ہے، لہٰذاسب سے آسان اور بہتر حل یہی ہے کہ پیروں کی خاص طور پر حفاظت کی جائےکہ پیر ہیں، تو خیر ہے۔

(مضمون نگار، کنسلٹنٹ ڈائی بیٹالوجسٹ ہیں اور ماڈرن کنسلٹنٹ کلینک، ڈیفینس، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین