تحریر…حیدر نقوی
گوکہ بارہ سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے مگر کل کی ہی سی بات لگتی ہے جب اُس وقت کے حاکم پرویز مشرف نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے پاکستان کے تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو فوری طور پر آف ائیر کرنے کا حکم دیا تھا یہاں تک کہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے جیو ٹی وی کی دبئی سے چلنے والی نشریات کو بھی رکوادیا تھا۔ گوکہ بعد میں پرویز مشرف اپنے اس عمل پر بہت پچھتائے تھے تاہم وہ اور اُن کے ساتھ شریک اقتدار سیاست دانوں نے ٹی وی چینلز کے ساتھ انتقامی کاروائی کرتے وقت کسی کی نہ سنی تھی۔
آج بھی تقریباً ویسا ہی ماحول بن چکا ہے اور جیو ٹی وی سے ہی ایک دفعہ پھر اس قلع قمع کا آغاز کیا جاچکا ہے ۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اگر گھر کے بڑے کو بلاجواز گرفتار کیا جائے گا تو باقی گھر کے افراد اُس پر صدأ احتجاج بلند کریں گے اور گرفتار کرنے والے عناصر سے سوال کریں گے کہ یہ ناحق کیوں۔
ارباب اقتدار اتنی تو عقل رکھتے ہی ہیں اُس کے باوجود جیو ٹی وی کے آواز بلند کرنے کو خلاف قانون قرار دے رہے ہیں اور چینل کو پاکستان میں متعدد مقامات پر بند کردیا گیا ہے۔ جب پرویز مشرف نے ٹی وی چینلز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس وقت اُن کے ساتھ جو شریک اقتدار تھے وہ اس وقت بھی حکومت میں ہیں یا اس کے حامی ہیں ۔
اُن میں شیخ رشید احمد، جہانگیر ترین ، فردوس عاشق اعوان، غلام سرور اعوان ، غوث بخش مہر ، مہر برادران، اُس وقت کے ڈی جی آئی بی بریگیڈئر اعجاز شاہ ، خسرو بختیار ، خورشید قصوری، حفیظ شیخ ، زبیدہ جلال ، لیاقت جتوئی ، سردار یار محمد رند، ہمایوں اختر ، عامر لیاقت حسین ، طاہر صادق ، فواد چوہدری کے چچا چوہدری شہباز ، محمد میاں سومرو ، عبدالرزاق داؤد ، عمر ایوب خان ، ڈاکٹر سلمان شاہ متحدہ قومی مومنٹ ، فنکشنل لیگ اور دیگر ۔
اب ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب میڈیا کے اوپر قدغن کا آغاز ہوچکا ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو ایک ایسے کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے جو کہ ابھی انکوائری کے مرحلے میں داخل نہیں ہوا چوہدری برادران جو کہ پہلے ہی یہ داغ اپنے اوپر لگوا چکے ہیں کہ جب اُن کی پارٹی کی حکومت میں پاکستان کے سارے ٹی وی چینلز بند کردیئے گئے تھے دوبارہ اس طرح کا کوئی داغ اپنے اوپر لے سکتے ہیں یا نہیں ۔
چوہدری برادران پاکستان کی سیاست میں برادرانہ سیاست کے علمبردار ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ کوئی بھی مہمان ان کے در سے روٹی شوٹی کھائے بغیر واپس نہیں جاتا یہ رکھ رکھاؤ اعلیٰ برتاؤ اور دوستیاں بڑھاؤ کی سیاست کرتے ہیں آج وقت نے ان کو بہترین موقع دیا ہے کہ اٹھیں اور میڈیا کو بچانے کا علم تھامے تاکہ جو داغ مشرف کے دور میں ان کی سیاست پر لگا وہ دُھل جائے اپنے دوستوں سے بات کریں اپنے اتحادیوں سے بات کریں اور حکومت اور میڈیا کے درمیان بننے والی اس خلیج کو ہمیشہ کے لیے ختم کرادیں۔
اپنے ہم خیال حکمرانوں شاہ محمود قریشی ، چوہدری سرور ، شفقت محمود ، سردار مینگل ، جام کمال ، خالد مقبول صدیقی ، پیر پگارا ، محمد میاں سومرو جیسے سینئر لوگوں کو ساتھ بٹھائیں اور فاصلے گھٹائیں جو وزیر اعظم کو صحیح مشورہ دیں اور ایک ایسے وقت میں جب ہمیں کورونا سے لڑنا ہے ہم آپس میں متحد ہوں اور کورونا سے جنگ میڈیا کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی یہ بات پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
میڈیا کو جس جس نے بھی قابو کرنا چاہا تاریخ اُن پر آج بھی ہنستی ہے آئیں کچھ سنجیدہ تاریخ بنائیں اور اس حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کے لیے عقلمندانہ مشورے دیں۔