لندن: ڈیوڈ شیپرڈ، انجلی راول
ہانگ کانگ: ہڈسن لوکیٹ
ہفتے کے اختتام پر سعودی عرب کی جانب سے قیمتوں کی جارحانہ جنگ کے آغاز کیا،خام تیل کو چار سال کی اس کی نچلی سطح تک پہنچانے کے بعد گزشتہ ہفتے اتوارکو کاروبار کے آغاز کے چند سیکنڈ کے اندر ہی تیل کی قیمتیں 30 فیصد تک گرگئیں۔
گزشتہ جمعہ کو قیمتوں میں یہ کمی سعوی عرب کے تیل کی کمی کے اتحاد کے خاتمے کے بعد ہوئی، کورونا وائرس پھیلنے سے طلب میں تیزی سے کمی کے باوجود روس پیداوار میں بہت زیادہ کمی کرنے سے انکار کررہا ہے۔سعودی عرب نے پیداوار میں اضافے اور کمزور ہوتی معیشت اور کورونا وائرس کا عالمی وبائی خطرہ ذرائع نقل و حمل اور ایندھن کے لیے طلب میں کمی کے باجوداس کے خام تیل کی بے نظیر رعایتی قیمتوں میں پیشکش سے ردعمل دیا۔
ریپڈان انرجی گروپ کے باب مل نیلی نے کہا کہ ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ رسد میں اضافے کے ساتھ طلب کا خاتمہ ایک ہی وقت میں ہو۔انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی کے اوائل کے بعد سے یہ سب سے زیادہ خام تیل کی قیمت میں کمی کا مرکب ہے۔قیمتوں میں کمی کا ابھی محض آغاز ہوا ہے۔
بین الاقوامی بینچ مارک برینٹ کروڈ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے یکدم زوال سے 45 ڈالر فی بیرل سے گھٹ کر 02.31 ڈالر فی بیرل پر آگیا،اوپیک اور روس کے ساتھ پیداوار کو کم کرنے کا معاہدہ کرنے کی کوشش کے چند دن بعد ہی سعودی عرب کی مؤثر قیمتوں کی جنگ کے آغاز سے تاجروں کو ڈرادیا ہے۔
امریکی بینچ مارک ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ 30 ڈالر فی بیرل کی سطح پر گرا۔
تیل کی تیزی سے گراوٹ نے عالمی مالیاتی منڈیوں کے ذریعے کافی سخت ردعمل دیا۔امریکی اسٹاک فیوچر ایس اینڈ پی 500 کے متوقع 5 فیصد گرنے کے ساتھ ایشیائی ٹریڈنگ میں گرگیا،جب بعدازاں پیر کو وال اسٹریٹ وال اسٹریٹ کھلی اور ایف ٹی ایس ای 100 نے 7.3 فیصد گرنے کا اشارہ دیا۔
سڈنی کی ایس اینڈ پی / اے ایس ایکس 200 میں 4.5 فیصد ککی کمی کے ساتھ ایشیاء پیسیفک کی ایکویٹی تیزی سے گرگئی اور عالمی مالیاتی بحران کے بعد ایک روزہ بدترین زوال کا خطرہ ہے۔ٹوکیو میں ٹاپکس میں 2.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔
سرمایہ کاروں نے ہیون ایسٹس کے اندر سرمائے کا ڈھیر لگادیا،10 سالہ امریکی ٹریژری کے منافع کو فیصد کے ایک چوتھائی سے بھی نیچے 4949.0 فیصد پیچھے دھکیل دیا گیا ہے،جو ایک ریکارڈ کمی ہے۔بانڈ کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی منافع میں کمی آگئی ہے،سونے کی قیمت 3.1 فیصد اضافے کے ساتھ 42.1694 ڈالر فی اونس ہوگئی۔
سعودی عرب کا آئندہ ماہ مزید کئی بیرل فی دن پمپنگ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔
ڈالر انڈیکس 5.0 فیصد گرنے کے ساتھ امریکی ڈالر اپنے بین الاقوامی ساتھیوں کے مقابلے میں اپنی بنیاد سے محروم ہوگیا۔جاپانی ین امریکی ڈالر کے مقابلے میں 8.1 فیصد تک مضبوط ہوکر 53.103 ڈالر تک جاپہنچا،جس نے تین سال سے زائد میں پہلی بار 104 ین کا نشان عبور کیا۔یورو 1 فیصد اضافے کے ساتھ 1394.1 ڈالر رہا جو آٹھ ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔
رائٹرز کے اعداد وشمار کے مطابق تاہم تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کی کرنسیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔گرین بیک کے مقابلے میں کینیڈا کا ڈالر 3.1 فیصد کم ہوا جبکہ ناروے کا کرون 1985ء کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں 7.4 فیصد کی کم ترین کی سطح پر آگیا۔
اوپیک کے موجودہ سربراہ سعودی عرب اب روس کو مارکیٹ میں حصہ لینے کیلئے جدوجہد پر سزا دیتا نظر آرہا ہے،یہاں تک کہ یورپ میں روس کے روایتی عقبی حصے میں صارفین کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔قیمت کی جنگ دوسرے اعلیٰ قیمت والے تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کو بھی کمزور کردے گی،بشمول امریکی شیل شعبے کو متاثر کرنے کے،گزشتہ دہائی کے دوران جس ترقی نے پہلی بار ماسکو اور ریاض کو ایک ساتھ کیا۔
یہ حربہ 2014ء کے دوران آخری قیمتوں کی جنگ میں مارکیٹ کا حصہ واپس لینے کی سعودی عرب کی کوشش کی یاد دلارہا ہے، تاہم اس بار یہ سامنےآیا ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات کی وجہ سے طلب میں کمی آرہی ہے،جس نے ہوائی سفر اور وسیع پیمانے پر معیشت کو مجروح کیا ہے۔
روس نے گزشتہ ہفتے امریکی شیل کے سکڑنے پر نظر رکھتے ہوئے تیل کی پیداوار میں کمی سے انکار کردیا،امریکا کی جانب سے روسی توانائی کمپنیوں کو پابندیوں کا ہدف بنانے کی کوششوں پر ناراضگی کے ساتھ ٹربو چارجڈ ترقی کے باوجود منافع کمانے کیلئے جدوجہد کررہاہے، تاہم سعودی عرب کے جارحانہ ردعمل سے اب کریملن کے بجٹ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
سعودی عرب کلیدی مارکیٹوں میں تقریباََ 20 فیصد کی غیرمعمولی چھوٹ کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ ماہ ایک دن میں 10 ملین سے زائد بیرل تیل نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پیداوار بتدریج 11 ملین بیرل فی دن سے تجاوز کرسکتی ہے،سعودی تیل کی پالیسی سے باخبر ایک شخص نے کہا کہ اس سےپہلے سعودی عرب تقریباََ 9 ملین بیرل ایک دن پیداوار میں کمی تجویز پیش کرچکا تھا۔
قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں تیل کی پوری صنعت کو پریشانی سامنا کرنا پڑرہا ہے،جو بحیرہ شمالی میں عوامی مالکیت والے پروڈیوسرز بڑے تیل کے ادارے جیسے رائل ڈچ شیل اور ایکسن موہل،اور مشرقی وسطی میں تیل پر انحصار کرنے والی ریاستیں 16۔2014 کے درمیان آخری بار تیل کی قیمتیں گرنے سے بتدریج بحالی کی جانب گامزن ہیں۔
آر بی سی کیپٹل مارکیٹس میں براج بورکھتریا نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی توانائی کے تمام بڑے اداروں کو واضح طور پر نمایاں کردیا۔
براجبورکھتریا نے مزید کہا کہ انہیں اپنے منافع کو پورا کرنے کیلئے برینٹ کروڈ کو 50 سے 60.60 ڈالر فی بیرل کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ کم قیمتیں تیل کے بڑے درآمدکنندگان کے لئے معمولی معاشی فروغ فراہم کرسکتی ہیں جس کا غالب امکان کورونا وائرس کے اثرات سے متاثر ہوجائیں گے، جبکہ کمزور اجناس پر انحصار کرنے والے ممالک کو بجٹ کی بہت بڑی خلیج کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اجناس کی منڈیوں کے سب سے زیادہ باثر بینکوں میں سے ایک گولڈمین ساکس نے اتوار کے روز برینٹ کیلئے اپنی قیمت کی پیش گوئی کو دوسری اور تیسری سہ ماہی کیلئے 30 ڈالر فی بیرل تک گھٹادیا، اور متنبہ کیا کہ آنے والے ہفتوں میں کمی 20 ڈالر فی بیرل تک بھی ہوسکتی ہے۔
برینٹ کے تقریباََ 36 ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کے ساتھ تجارت جاری رہی تو بتدریج قیمتیں بحال ہوگئیں،تاہم ایک دن میں 20 فیصد سے بھی کم ہے۔
کچھ سعودی عرب کے اس اقدام کو روس کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ آیا اب وہ پیداوار میں کافی حد تک کٹوتی کرنے پر راضی ہوجائےگا ،اور اس سے وہ تیل پر مبنی اتحاد کو ایک بار پھر اجاگر کرنا جو 2016 سے مارکیٹ کو مدد فراہم کررہا ہے۔تاہم روس اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اب حقیقی دباؤ کا شکا ہیں، اور تجزیہ کاروں کو دونوں ممالک کیلئے باہمی تعاون کے لئے آسان راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔
انرجی کنسلٹنسنی ایف جی ای کے تجزیہ کاروں نے کہا کہ سب کی ہار کے نتیجے کے ساتھ یہ ایک اجتماعی خودکشی ہے۔