• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برّصغیر کی قدیم ترین اور پاکستان کی انتہائی معتبر جامعہ، ’’جامعہ پنجاب ‘‘لازوال تاریخ اور درخشاں روایات کی حامل ہے ۔یہ برّ ِصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں قائم ہونے والی پہلی جامعہ ہے۔جس سے تعلیم یافتہ طلبہ آج دنیا بھر میں مُلک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔جامعہ پنجاب 1882ء میں قائم ہوئی۔ یہ پاکستان کے تہذیبی و ثقافتی مرکز ، لاہور میں واقع ہے۔اس کا ایک کیمپس گوجرانوالہ میں بھی کھل چُکا ہے، جب کہ دوسرے شہروں کے لیے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ لاہور کے پرانے کیمپس کو علّامہ اقبال کیمپس اور نئے کیمپس کو قائدِاعظم کیمپس کہا جاتا ہے۔ جون 2018 ءمیں وہاں ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔ پاکستانی جامعات کی عالمی رینکنگ میں زبوں حالی کوئی نئی بات نہیں، مگر اس حوالے سے پنجاب یونی وَرسٹی میں ’’رینکنگ ایمرجینسی‘‘ نافذ کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قلیل عرصے ہی میں پنجاب یونی وَرسٹی ،عالمی ادارے ،کیو ایس کی جانب سے ایشیائی یونی وَرسٹیز کی رینکنگ میں 39درجے بہتری حاصل کرتے ہوئے 232سے 193ویں نمبر پر آ گئی اور پہلی مرتبہ ایشیا کی 200بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں بھی کام یاب ٹھہری۔ اس کے مختلف اداروں کو مضامین کے اعتبار سے رینکنگ دی گئی، جس میں جامعہ کے مختلف اداروں کا شمار دنیا کے 250 سے 500 بہترین اداروں میں ہوا۔ 

پنجاب یونی ورسٹی کا نیا چہرہ
وائس چانسلر، پنجاب یونی ورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد

اسی طرح ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونی وَرسٹی رینکنگ 2020ء میں بھی پنجاب یونی وَرسٹی دنیا کی بہترین 800سے 1000 یونیورسٹیز میں جگہ بنانے میں کام یاب رہی۔ سائنس میں تحقیق کے عالمی ادارے، نیچر پبلشنگ گروپ نے نیچرل سائنسز کے شعبے میں پنجاب یونی وَرسٹی کو نمبر وَن قرار دیاہےکہ اس نے جنرل کیٹیگری کی یونی وَرسٹی ہونے کے باوجود کلی طور پرسائنسز کی تعلیم دینے والی یونی وَرسٹیز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یاد رہے، نیچر پبلشنگ گروپ 1869ءمیں قائم ہو اتھا،جو دنیا بھر میں سائنسی تحقیقی جرائد کی اِشاعت کا معتبر ترین ادارہ ہے۔اس رینکنگ میں پنجاب یونی وَرسٹی کے سائنس دانوں کی کیمسٹری، فزیکل سائنسز، لائف سائنسز اور اَرتھ اینڈ اینوائرمینٹل سائنسز میں مجموعی کار کر دگی دوسری یونی وَرسٹیز کے سائنس دانوں سے بہت بہتر رہی ہے۔

پنجاب یونی وَرسٹی کا سب سے بڑا فورم سینیٹ ہے اور قانون کے مطابق ایک سال میں سینیٹ کے کم از کم دو اجلاس ہونا لازم ہیں۔ پنجاب یونی وَرسٹی میں سینیٹ کا اجلاس گزشتہ تیرہ سال سے منعقد نہیں ہو پایا تھا۔ تاہم، نئےوائس چانسلر نے چارج سنبھالتے ہی تین ماہ میں سینیٹ کا اجلاس منعقد کروایا اورقانون کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال میں سینیٹ کے تین اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال سینڈیکیٹ کے چار، اکیڈیمک کاؤنسل کے پانچ، ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ کے پندرہ اجلاس منعقد ہوچُکےہیں ۔ یونی وَرسٹی کے بیش ترامور قوانین کے تحت سو فی صدمیرٹ پر چلائے جارہے ہیں۔

پنجاب یونی ورسٹی کا نیا چہرہ
عالمی یومِ خواتین پر منعقدہ سیمینار کا ایک منظر

تعلیمی نظام کی بہتری اورمُلک کی معاشی و سماجی ترقّی میں کردار ادا کرنے کے لیے جامعہ کی جانب سےنئے سینٹرز کی بنیاد رکھی گئی ہے۔گزشتہ سال چارسینٹرز قائم کیے گئے، جن میں کینسر ریسرچ سینٹر،سینٹر فار سولٹی اینڈ انٹیگریٹی مینیجمنٹ،سینٹر فار سوشل ڈویلپمنٹ اینڈ سوشل اینٹرپرینورشِپ اورسینٹر فار ریسرچ آن ایس جی ڈیز شامل ہیں۔ سینٹر فار سولٹی اینڈ انٹیگریٹی کے قیام کا مقصد بہترین اخلاقی اقدار کے حامل، ایسے ایمان دار اور ذمّے دار شہری پیدا کرنا ہے، جو قوم اور اداروں کو عظیم تربنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔اس سینٹر کے قیام سے زندگی کے مختلف شعبوں اور کام کی جگہوں پر دَرپیش چیلنجز سے نمٹنے میںمدد ملے گی۔سینٹر فار سوشل ڈویلپمنٹ اینڈ سوشل اینٹرپرینور شِپ معاشرے میں معیارِ زندگی بہتر بنانے اور غریب ، پسے ہوئے طبقے کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس سینٹر سے نچلی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔سینٹر فار ریسرچ آن ایس جی ڈیز سے تعلیم، صحت، صنفی مساوات ، انرجی جیسے شعبوں میں تحقیق کرکے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 

اس سینٹر کے قیام کے پیچھے یہ وژن ہے کہ یہاںمختلف تحقیقی شعبہ جات میں ہونے والی تحقیق کا ایک نقشہ بنایا جائے، جو پاکستان میں تعلیم، صحت، ماحولیاتی تبدیلیوں، خوراک،زراعت جیسے شعبوں میں ایس جی ڈیز کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مددگار ہو گا۔ کینسر ریسرچ سینٹر کے قیام کا مقصد عوام میں کینسر سے آگہی فراہم کرناہے،کیوں کہ کینسر کے اکثر مریضوں کو اپنے مرض کا پتا اُس وقت چلتا ہے، جب وقت ہاتھ سےنکل چُکا ہوتا ہے اور وہ مرض کی آخری اسٹیج پر ہوتے ہیں اور یوں ان کی زندگی بچانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر ابتدائی اسٹیج ہی پر کینسر کا پتا چل جائے، تو یقیناً اس موذی مرض کا بروقت علاج کرکے کئی قیمتی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔یونی وَرسٹی ،اساتذہ اور طلبہ کے ایسے تمام آئیڈیاز اور تحقیقی منصوبوں کی فنڈنگ کررہی ہے، جن سے معاشرتی مسائل حل کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے ۔ جامعہ کا یہ اقدام معاشرے سے بےروزگاری کم کرنے کا موجب بن سکتا ہے اور اس طرح مُلکی معیشت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔

پنجاب یونی ورسٹی کا نیا چہرہ
شجر کاری مہم کے حوالے سے یونی وَرسٹی کے طلبہ، وی سی کی زیرِ قیادت ریلی میں شریک ہیں

پنجاب یونی وَرسٹی کی روایت رہی ہے کہ یہاںسیاسی مقاصد کے لیے اہم انتظامی عہدوںمثلاً رجسٹرار، اقامتی آفیسر اوّل، کنٹرولر امتحانات وغیرہ پر اساتذہ کو تعیّنات کیا جاتاہے۔ تاہم، وائس چانسلر، پروفیسرڈاکٹر نیاز احمد نے یہ روایت ختم کی اور انتظامی عہدوں سے اساتذہ کو الگ کیا، تاکہ تعلیم و تحقیق کا بھی حرج نہ ہو اور انتظامی عہدوں پر بھی میرٹ پر تقرریاں کی جاسکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے رجسٹرار، کنٹرولر، خزانہ دار، اقامتی آفیسر اوّل اور اقامتی آفیسر دوم کی تعیناتی کے لیےاشتہار دیا اور میرٹ پر ان اسامیوں کو پُر کیا گیا ۔ یاد رہے کہ اشتہارکے ذریعے اقامتی آفیسر کی تعیناتی پہلی مرتبہ مستقل بنیادوں پر کی گئی۔ ماضی میں ہمیشہ ہی وائس چانسلرز ،پرو وائس چانسلر کی تقرّری کے مخالف رہے ، تا کہ ان کے اختیارات میں کمی نہ آ سکے، مگر موجودہ وائس چانسلر نے پرووائس چانسلر کا کیس گورنر پنجاب کو ارسال کیا اور گورنر پنجاب نے دس سال کے عرصے کے بعد یونی وَرسٹی میں پرو وائس چانسلر کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر کو تعینات کیا۔اسی کے ساتھ جامعہ میں روشن خیالی کے دَور کا بھی آغاز ہوا۔یہاں کچھ عرصے سے سیاست کے باعث سلیکشن بورڈ اور اساتذہ کی تقرّریوں و ترقّیوں کا عمل بھی رُکا ہوا تھا۔ سو، گزشتہ برس یہ جمود بھی توڑا گیا اور 2019ء میں29سلیکشن بورڈز کا قیام عمل میں آیا،جن کے تحت ایک سا ل میں ریکارڈ 37 پروفیسرز، 52 ایسوسی ایٹ پروفیسرز، 56 اسسٹنٹ پروفیسرز اور 33 لیکچرارز تعینات کیے گئے، جن کی وجہ سے جامعہ میں اساتذہ اور طلبہ کا تناسب نہ صرف بہتر ہوا، بلکہ یونی وَرسٹی کی تحقیقی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوااور عرصۂ دراز سے میرٹ پر تقرّریوں کے منتظر قریباً پونے پانچ ہزار ملازمین میں سے 85 فی صد ترقّی پا چُکے ہیں۔ پنجاب یونی وَرسٹی میں گزشتہ سال تین درجن کے قریب قومی و بین الاقوامی کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا،جن میں متعلقہ شعبوں میں بہتری کے لیے سفارشات و تجاویز بھی تیار کی گئیں ،جو مُلک کے معاشی و سماجی ترقّی کے پالیسی ساز اداروں کو ارسال کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاںبھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے،سیز فائر لائن اور بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں اور مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار ِیک جہتی کے لیے متعدّد احتجاجی مظاہرے او رریلیاں منعقد کی جا چُکی ہیں، جن میں اساتذہ، ملازمین اورطلبہ کی بڑی تعداد نے حصّہ لیا۔جامعہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر قومی کانفرنس کا بھی انعقاد کروایاگیا، جس میں مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندگان نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ، یومِ دفاع کے موقعے پرشہدائے پاکستان کےبچّوں کے لیے کوٹا مقرر کیا، جس میں وطن پر جان نچھاور کرنے والے سپوتوں کے بچّوں کے لیے تقریباً دو سو پچیس نشستیںاور پانچ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا گیا، جب کہ انہیں مفت رہائش کی سہولت بھی دی جائے گی۔

دوسری جانب، یونی وَرسٹی نے انڈسٹری اکیڈیمیا سوسائٹی کے مابین تعلقات کو فروغ دینے پر بھی خصوصی توجّہ مبذول کر رکھی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس کئی قومی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے ساتھ 16 معاہدے کیے گئے ، تاکہ مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ جب کہ غیر مُلکی طلبہ کے داخلوں اور انہیںدیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے خصوصی ڈیسک بھی قائم کیاگیا ہے۔ جامعۂ پنجاب میں صنفی مساوات قائم کرنےاور خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے پہلی مرتبہ فیکلٹی آف بیہیورل اینڈ سوشل سائنسز میں ڈین سمیت تمام شعبہ جات میں خواتین سربراہان مقرر کی گئیں۔ بہت سے اہم انتظامی عہدوں پر بھی وائس چانسلر نے خواتین کو تعینات کیا ہے، تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ یونی وَرسٹی میں داخلے کے وقت ہزاروں امیدواروں، والدین اور انتظامیہ کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔بیش تر امیدوار دور دراز علاقوں سے آتےاور اس مَد میں ان کے ہزاروں روپے خرچ ہوجاتے تھے، جب کہ انتظامیہ کو مختلف داخلہ ا سٹالز پرطلبہ تنظیموں کی جانب سے امن و امان کی صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑتا۔ سو،ان تمام مسائل کے پیشِ نظر یونی وَرسٹی نے سال 2018ء سے آن لائن داخلوں کا نظام متعارف کروادیا، جس سے امیدواروںکے سفری اخراجات اور وقت کی بچت ہوئی۔ 2019ء میں یونی وَرسٹی انتظامیہ کو مختلف شعبہ جات میں داخلوں کے لیے 176,862درخواستیں موصول ہوئیں۔ ریگولر اور پرائیوٹ امیدواروں کے بھی آن لائن داخلے شروع کر دئیے گئے ہیں، جس سے ساڑھے پانچ لاکھ امیدوارمستفید ہوسکیں گے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب یونی وَرسٹی کا اپنے میڈیکل اور ڈینٹل کالج کا خواب اب تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ تاہم،اب یہ اُمید کی جا رہی ہے کہ موجودہ وائس چانسلر کی کوششوں سے رواں سال میڈیکل کالج کے قیام کے حوالے سے عملی نتائج ضرور بر آمد ہوں گے۔ماضی میں کئی مرتبہ یونی وَرسٹی میں قائم شادی ہالز کی وجہ سے اس کی خاصی بدنامی ہوتی رہی ، لیکن موجود ہ وائس چانسلر نے تمام غیر تعلیمی سر گرمیوں کا خاتمہ یقینی بناتے ہوئے شادی ہالز ختم کروائے اور اولڈ کیمپس میں اورنج لائن ٹرین کی وجہ سے استعمال ہونے والی زمین کی مَد میں حکومت ِپنجاب نے جو رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، اس کے حصول کے لیے بھی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 2019ء میں پنجاب یونی وَرسٹی کے طلبہ نے ہم نصابی سرگرمیوں میں182ٹرافیاں حاصل کیں، جب کہ مختلف کھیلوں میں 11گولڈ میڈلز اور دیگر 29 گیمز میں ٹاپ پوزیشنز حاصل کیں۔ جامعۂ پنجاب برسوں سے مُلک و قوم کا مستقبل سنوارنے میں سر گرمِ عمل ہے۔ ہر ادارے کی طرح یہاں بھی کچھ کمیاں تو ضرور ہیں، لیکن یونی وَرسٹی انتظامیہ ،چانسلر اور کرتا دھرتاؤں کی یہی کوشش ہے کہ ان کمیوں پر قابو پاکر اسے دنیا کی بہترین جامعات کی صف میں لاکھڑا کریں، یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔

تازہ ترین