• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

کیا انسان اس عجیب و غریب وبا کے مقابلے کے لیے تیار تھا۔ کورونا وائرس Covid-19سے آپ بھی متاثر ہیں، میں بھی۔ میں صبح حسبِ معمول سیر کے لیے پارک جاتا ہوں تو وہاں تالا پڑا ہے۔ 

اسکول پہلے سے بند ہیں۔ مسجد میں دریاں چٹائیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ باجماعت نماز خالی فرش پر ادا ہو رہی ہے۔ امام صاحب سنتوں کے لیے کہہ رہے ہیں کہ گھروں پر پڑھیں۔ قرنطینہ والوں کو تو معلوم ہے کہ 14دن بعد وہ آزاد ہو جائیں گے لیکن جو ملک اور شہر متاثر ہیں، وہاں ابھی کوئی علم نہیں ہے کہ کتنی مدت بعد حالات معمول پر آئیں گے۔ 

اس لیے آپ کم از کم آٹھ دس ہفتوں کے لیے گھر پر مصروف رہنے کا روڈ میپ بنالیں۔ ترقی یافتہ قومیں بڑی تندہی اور شعور سے اس آفت کا سامنا کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر دو ہفتے کے لیے بتایا جا رہا ہے کہ کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ ہم ابھی تک وفاق اور صوبے کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ہمارے پاس تو قرآن حکیم موجود ہے۔ 

ان دنوں میں روزانہ کم از کم دو گھنٹے تو اسے ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں۔ آپ کے ذہنی افق پر حقائق طلوع ہونے لگیں گے۔ بہت سی کتابیں جو شیلف میں آپ کی راہ تک رہی ہیں، وہ پڑھیں۔ اپنے دوست احباب کو خط لکھیں۔ فون پر بات کریں۔ چین کی مثال قابلِ تقلید ہے۔ کتنا بڑا حملہ ہوا، اس نے اکیلے ہی اس کی مزاحمت کی اور بالآخر کورونا پسپا ہو گیا۔

میں تو پہلے روز سے سوچ رہا ہوں کہ خالقِ کائنات نے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ختم ہونے پر انسان کا یہ امتحان کسی خاص مقصد کے لیے لیا ہے جس نے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ، بہترین علاج معالجے والے ملکوں سمیت 162سے زیادہ ممالک کو آزمائش میں ڈالا ہے۔

 انسان اللّٰہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ وہ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ مزاحمت کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا میں سینکڑوں محققین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ چین، امریکہ، بلجیم میں سائنسدان دن رات اس جرثومے کی رگ رگ کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی یقیناً میڈیکل یونیورسٹیوں میں کوئی تحریک ہوئی ہوگی۔ گزشتہ صدیوں کی تحقیق، ایجادات، ادویات پر نظر ڈالیں تو یقین ہوتا ہے کہ انسانیت سرخرو ہوگی۔

پاکستان میں سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کیونکہ یہاں ایران کے زائرین بلوچستان کے راستے بڑی تعداد میں پہنچے۔ ایران میں وہ تفتیش کے مراحل سے گزرے نہیں۔ بلوچستان میں قرنطینہ کے انتظامات ناقص تھے۔ جو بھی ہے سندھ حکومت کو زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ 

وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ حفاظتی تدابیر اختیار کیں، اُن پر سختی سے عملدرآمد کروایا۔ دن رات متحرک رہے تو اپنوں اور غیروں دونوں نے تعریف کی۔ ورنہ سندھ حکومت کی شہرت کرپشن کے حوالے سے ہی زیادہ رہتی ہے۔

سندھ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ پارٹی کے قائدین کی کرپشن کا غبار اس کے اچھے اقدامات کو بھی چھپا دیتا ہے۔ کورونا کے دنوں میں ہی ہمیں لیاری جنرل اسپتال جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو بچوں کے لیے جدید ترین ایمرجنسی روم دیکھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ 

یہ بچہ ابھی ابھی دنیا میں آیا ہے۔ اسے چائلڈ لائف فائونڈیشن کے ایمرجنسی روم میں جو ماحول مل رہا ہے، ایئر کنڈیشنڈ، نئی نئی مشینیں، کمپیوٹر سے وابستہ انکیوبیٹرز، اس کے بڑے بھائیوں، والدین کسی کو میسر نہیں آئے ہوں گے۔ ساری سہولتیں بین الاقوامی معیار کی ہیں۔ جہاں لیاری کی مائیں بچوں کو جنم دیتی ہیں وہ وارڈ بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔

چند قدم پر ہی ہے لیکن دونوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ میٹرنٹی وارڈ ابھی 19ویں صدی میں ہے، ایمرجنسی روم اکیسویں صدی میں۔ یقیناً یہ پاکستانی درد مند اہلِ ثروت ہیں۔ جنہوں نے 2010میں سوچا کہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کا بچپن محفوظ اور صحت مند کرنے کے لیے کچھ کیا جائے۔ ڈاکٹر نرسیں بھی تربیت یافتہ اور یہ سارا علاج معالجہ بالکل مفت ہے۔ 

سمندر پار پاکستانی جن ملکوں میں رہائش پذیر ہیں ان کی خواہش ہے کہ وہاں کے اسپتالوں جیسی سہولتیں، صاف ماحول، جدید ترین میڈیکل طریقہ علاج پاکستان میں بھی غریب بستیوں کے بچوں کو میسر ہو۔ وہ وہاں سے عطیات ارسال کررہے ہیں۔ 

یہاں کائونٹران کے نام سے موسوم ہیں۔ ڈاکٹر احسن ربانی سے یہ سن کر ہمیں حیرت ہورہی ہے کہ حکومتِ سندھ کوئی سیاسی مداخلت نہیں کررہی ہے۔ سیکرٹری صحت فضل اللّٰہ پیچوہو کے دَور میں لاڑکانہ میں آغاز ہوا ہے۔ اب ان کی بیگم عذرا پیچوہو وزیر صحت ہیں۔ وہ بھی پوری توجہ دے رہی ہیں۔

 وزیراعلیٰ بھی گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ لیاری سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم رمضان بلوچ اور شبیر ارمان بھی ہیں، وہ بھی یہ صحت سہولت دیکھ کر بہت خوش ہورہے ہیں۔ یہ ایمرجنسی روم لیاری جنرل اسپتال کے علاوہ سول اسپتال، عباسی شہید اسپتال، نواب شاہ اور لاڑکانہ میں 2011سے بچوں کو ابتدائی عمر میں تندرستی فراہم کررہے ہیں۔

آئندہ پروگرام سکھر، حیدر آباد، کوئٹہ میں ایسے روم آباد کرنے کا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی اس فائونڈیشن سے رابطہ کررہی ہیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کو باقاعدہ تربیت دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر احسن کا کہنا ہے کہ روزانہ 250بچے نمونیا سے دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی بچانے کا انجکشن صرف 180روپے کا ہے جو اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہے۔

 ہم ہر بچے کو یہ انجکشن مفت فراہم کررہے ہیں۔ ہمارا مقصد صحت مند پاکستانی نئی نسل ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ حکومت اور شہریوں دونوں کا تعاون حاصل ہے۔

کورونا سے خوف زدہ سہمے ہوئے سنسان دنوں میں یہ ایمرجنسی روم اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور درد مند پاکستانیوں کی پُرخلوص خدمت، ایسے نیک بندے اور ادارے موجود ہیں تو ہم کورونا پر قابو پالیں گے اور پاکستان کو تندرست ملک بنا لیں گے۔ حکومت سندھ جتنی تحسین کی حقدار ہے اتنی داد تو دینی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین