اس تیز رفتار دور میں جہاں سوشل میڈ یا کا استعمال تواتر سے بڑھ رہا ہے۔وہیں پر مغرب میں اس مسئلے پر بحث ومباحثہ بھی جاری ہے کیا سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ڈیوائس (سیل فون،ٹیبلٹ اور آئی پیڈ وغیرہ ) کا استعمال دماغی صحت کےلیے نقصان دہ ہیں ۔مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوجوان یہ ڈیوائسز اور خصوصاً فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
2012 ء میں جب سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا تھا تو یہ بات سامنے آئی کہ کم عمر نوجوانوں میں ذہنی دبائوں بڑھتا جارہا ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا کم استعمال کرنے والوں کے مقابلے میںزیاد ہ استعمال کرنے والوں میں ذہنی دبائو اور زیادہ اضطراب پایا جاتا ہے ۔لیکن ڈیجیٹل ڈیوائس استعمال کرنے والوں کی دماغی صحت کا ڈیٹا جمع کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں ،تا کہ ضرورت کےوقت مناسب مداخلت کی جاسکے ۔امریکا اور بر طانیہ میں 2012 ء سے 2013 ء کے درمیان ذہنی دبائو ،اضطراب اور خود کو نقصان پہنچانے والے بالغان کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھا گیاہے ، جس میں مصروف ہونے والے ٹین ایجرز کی تعدادمیں 2009 ء سے 2011 ء کے درمیان انتہائی تیزی سےاضافہ ہوا تھا ۔اور اس وقت 15 سے 17 سال کی عمر کے دو تہائی نوجواں کی تعداد اس کو روزانہ استعمال کررہی تھی ۔کچھ تحقیق کرنے والے جو سوشل میڈیا کے استعمال کا دفاع کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کی خرابی میں ایک تو یہ بنا واسطہ شہادت ہے اور دوسرے اس میں سوشل میڈیا کا کوئی خاص کردار نہیں ۔
کچھ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اسکرین کے سامنے وقت گذارنے اور بری دماغی صحت کے درمیان ایک ہلکا تعلق ہے ۔اس دفاع کے خلاف مسٹر جونا تھن ہیڈٹ کے تین دلائل ہیں ۔ایک دلیل میں جس پیپر کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مختصر ہے اور اس میں پوری توجہ صرف اسکرین پر وقت گزارنے کو دی گئی ہے لیکن اس میں فلمیں دیکھنے اور دوستوں سے چیٹنگ شامل نہیں ہے ۔جو دماغی صحت کے لیے نقصان کا باعث ہے ۔ریسرچ پیپر میں سوشل میڈیا کو خاص طور پر توجہ دینے کے بجائے مکمل اسکرین وقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا تعلق ذہنی دبائوسے بہت ہے اور جب ہم خاص طور پر لڑکیوں پر توجہ مرکوز کریں تو معلوم ہوگا کہ اس سے لڑکیاں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔تحقیق کارو ں کا کہنا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں سوشل میڈیا زیادہ استعمال کرتی ہیں ،کیوں کہ لڑکے دوسرے کھیلوں میں زیادہ شامل رہتے ہیں ۔جب کہ لڑکیوں کے لیے ان کے ارد گرد کی سماجی زندگی ،رتبہ اور قربت بہت اہم ہے ۔ان کوکم وقعت ہونے کا خوف ہوتا ہے۔
البتہ یہ بھی صحیح ہے کہ باہمی رابطے کے جائزوں سے بنا واسطہ شہادتیں مہیا ہوتی ہیں ۔حالیہ سالوں میں طبع ہونے والے جائزوں میںان وجوہات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ان جائزوں میںکچھ کو کہا جاتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرتے رہیں جب کہ کچھ کوکہا جاتا ہے کہ وہ اس کا استعمال کم کردیں ۔چند ہفتوں کے بعد استعمال میں کمی کرنے والوں نے بتایا کہ ان کے مزاج میں بہتری اور اکیلے پن کے محسوسات میں بھی کمی ہوئی تھی جو ذہنی دبائو کی علامات ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ کچھ ریسرچ کرنے والے سوشل میڈیا کو شکر کی طر ح سمجھ رہے ہیں کہ اس کی کم یادرمیانہ استعمال کم عمر کے لیے محفوظ ہے جب کہ اس کی زیادہ مقدار کا استعمال نقصان دہ ہوگا ۔لیکن سوشل میڈیا شکر کی طر ح صرف ان کے لیے نقصان دہ نہیںہے جو اس کو استعمال کرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا نے کئی لوگوں کے تعلقا ت کو نئی جہت دی ہے ،جس میں خاندانی تعلقات اور روز مرہ کے تعلقات بھی شامل ہیں ۔ایک مشاہدے میں یہ بات سامنے آئے ہے کہ دواکی ایک سادہ خوراک یعنی سوشل میڈیا کے اثرات کا احاطہ نہیں کر سکتاہے جب کہ اب تک تحقیق کاروں کے تمام مباحثوں میں خوراک کی مقدار کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کی گئی ہے ۔
لیکن یہ بات زیادہ اہم ہے کہ اس نمونے کے نیچے چھپے ہوئے نیٹ ورک کے ذہنی دبائو ،اضطراب اور دماغی صحت کی خرابی کے اثرات دور تک پھیلتے ہیں ،جس کا زیادہ شکار لڑکیا ں ہیں ۔نتیجے کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ویسے تو ڈیجیٹل میڈیا کے بہت سے فائدے ہیں ،جن میں ذہنی بیماریوں کا علاج بھی شامل ہے لیکن اگر آپ سوشل میڈیا تک محدود رہیں گے تو نقصان کی شرح زیادہ نظر آئے گی ،جس کے خراب اثرات کم عمر صارفین پرزیادہ ہوتے ہیں ۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ مڈل اسکولوںمیں 11 سے 13 سال کی عمر کے درمیان کے بچوں پر اسمارٹ فون استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے ،پھر ان دوسالوں میں فون استعمال نہ کرنے والوں اور اسمارٹ فون استعمال کرنے والوںبچوں کے درمیان ذہنی صحت اور رویّوں میں فرق کا موازنہ کرکے بچوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کا حتمی نتیجہ مل سکتا ہے ۔
بغیر مشاہدے کے یہ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال اور دماغی صحت کی خرابی میں باہمی تعلق ہے ۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ تحقیق کرنے کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ڈیجیٹل ڈیوائس اور سوشل میڈیا کے استعمال کا کون سا طر یقے کار نقصان کی بجائے سود مند ہوسکتا ہے ۔اوراس کے طریقے کار اور شہادتوں کو کیسے سوشل میڈیا کے استعمال کی پالیسی ۔ تعلیم اور اس کےریگولیشن کی ترتیب کے لئے استعمال کیا جائے؟
پرانے غیر حل کردہ مسائل کے سبب دماغی صحت کی سروس کی فراہمی اور بہتر معیارکے لئے ہماری کوششیں نتیجہ خیزثابت نہیں ہورہی ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے عہدہ بر آہوسکے ۔مثال کے طور پر ان چیلنجوں کو مد نظر رکھیں کہ کس طر ح انسانی رویے ،دماغی صحت کی تشخیص ،مریضوں کی دیکھ بھال ،حالت میں بہتری اور ریسرچ تمام چیزیں ہی مریضو ں کے خود رپورٹ کرنے پر منحصر ہوتی ہیں ۔اس کے نتیجہ میں اس طرح کا ڈیٹا جمع کرنا بہت دشوار ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں کبھی کبھار ہی سروے ہوتا ہے جن کی علامات سے مرض کی پیش بینی ، تشخیص اور علاج کی پلاننگ نہیں کی جاسکتی۔
اس کے برخلاف موبائل فون اور دوسرے ایسے ڈیوائس جو انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہوتے ہیں ۔مسلسل لوگوں کی عملی زندگی میں ان کےرویوں کی بابت کارآمد اور قیمتی ڈیٹا فراہم کرسکتے ہیں ۔جن سے افراد کی دماغی صحت کے حوالے سے یہ بصیرت حا صل ہو گی کہ مریضوںکے علاج کا وقت اوراس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے،کیوں کہ لوگوں موبائل ڈیوائس کا استعمال ہر وقت ہی کرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے مناسب وقت پر ایسی مدد دی جاسکتی ہے جو صرف ان کی ذات کیے لیےموزوں ہو۔ اُس وقت دماغی صحت سے متعلق سروسیزایک صدی پرانے ماڈل کے مطابق فراہم کی جاتی ہیں ،جس میں لوگوں کوان کی اشدضرورت کی بجائے معالج کے دیے ہوئے وقت پرموجود ہونا پڑتا ہے۔لیکن انٹر نیٹ ڈیوائیس سے رابطےسے ایسی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیںجن سے دماغی صحت کو برقراررکھنے کے علاوہ علاج میں بھی مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔
یہ فوائد کم عمر افراد میں ان بالغان کو حاصل ہوسکتے ہیں جو ڈیجیٹل ڈیوائس کا کثرت سے استعمال کرنے کی وجہ سے خطرات کو شکار ہوجاتے ہیں ۔ دماغی صحت میںاضافہ اور علاج میں بہتری سے کم عمرغیربالغان بھی یکساں مستفید ہوسکتے ہیں۔
نک ایلین نے ڈیجیٹل ڈیوا ئس کے زیادہ استعمال اور اس استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر زیادہ توجہ دینے کی بات کی ہے۔ اس کے کم استعمال اور زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والے فرق پر بات ہی نہیں کی گئی ہے،کیوں کہ اہم سوال تویہ ہے کہ کیاسوشل میڈیا کے استعمال میں کمی سے ذہنی دبائو اور دوسری دماغی صحت کے مضر اثرات سے بچا جاسکتا ہے؟ کیونکہ اگر بیماری سے بچا جا سکتا ہے توہماری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ بیماری سے بچا جائے۔ یہ نہیں کہ کثرت استعمال سے بیماریاں پیدا کرنے کے بعد ان کے علاج پر زیادہ توجہ دی جائے۔ ہمیں پہلے ہی اس کے مضر اثرات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔