• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے صوبے ووہان سے اٹھنے والی خطرناک بلا کورونا وائرس اس وقت پورے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اس گلوبل ویلیج میں بسنے والے اربوں انسان نرم لاک ڈائون سے سخت لاک ڈائون کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 197ممالک میں مصدقہ مریضوں کی تعداد لاکھوں اور ہلاکتوں کی ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے اور اگر اس وبا یا آفت کو دبوچنے میں کوتاہی ہوئی تو بیماروں کی تعداد کروڑوں میں اور ہلاکتوں کی لاکھوں میں جا سکتی ہے۔ الحمدللہ پوری دنیا کی ذمہ دار حکومتوں کو اس وسیع تر انسانی تباہی کے خدشات کا ادراک و احساس ہے اور وہ اپنے اپنے طریقوں سے حفظِ ماتقدم کے اقدامات کررہی ہیں۔

پاکستان میں ماقبل تو حکومت نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا، وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ میں لاک ڈائون نہیں ہونے دوں گا کیونکہ اس سے بیروزگار ہونے والے مزدوروں کی کفالت ہم نہیں کر سکیں گے لیکن پھر اپوزیشن کے دبائو پر حکومت کو جلد اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا اور وزیراعلیٰ سندھ کی طرح وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر صوبوں نے بھی لاک ڈائون کا فوری پلان دے دیا۔ علاوہ ازیں ایران(تفتان) سے آنے والے زائرین کو حکومتی ذمہ داران نے بجائے قرنطینہ میں رکھنے اور ٹیسٹ کروانے کے ان کے علاقوں، شہروں اور بستیوں میں جانے کی اجازت دلوا دی جو کورونا کے یہاں پھیلنے کی بنیادی وجہ بنی۔

درویش کو وطن عزیز میں ہمیشہ سے جو چیز سب سے زیادہ اذیتناک لگی ہے اور جو ہماری بربادی کی جڑ ہے وہ آزادیٔ اظہار کا فقدان ہے۔ اس وقت شاید دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اظہارِ رائے پر اس طرح کا حسنِ سلوک نہیں کیا جا رہا جس طرح کا پاکستان میں روا رکھا گیا ہے۔ اس کام میں محض ہماری حکومتیں ہی نہیں بلکہ مذہبی، غیرسرکاری و نیم سرکاری تنظیمیں بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ اس خاموش جبر کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصل حقیقت یا اصلیت عوام کے سامنے لانا مشکل تر ہو جاتا ہے۔ یہاں سچ بولنے یا لکھنے والوں کو نظریۂ جبر ایسے دبوچتا ہے کہ جیسے ان سے زیادہ کرپٹ کوئی نہ ہو۔ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو جس افسوسناک طریقے سے گرفتار کیا گیا ہے وہ حریتِ فکر کو کچلنے اور آزادیٔ اظہار کا آئینی حق چھیننے کی بدترین مثال ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ کورونا کے ایشو پر لاپروائی برتنے والے لوگ چاہے کتنے ہی بڑے عہدوں پر فائز ہوں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ آخر انہوں نے کیوں اس خطرناک وائرس کی سنگینی کو ہلکا خیال کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور جہالت کے فرق کو واضح کیا جائے۔ اہل وطن کے سامنے ایک بڑا سوال ہے کہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ سے بڑھ کر تو مسلمانوں کے نزدیک کوئی مقدس مقام نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مملکت پاکستان میں ہنوز مذہبی اجتماعات کو لاک ڈائون نہیں کیا جا سکا۔

شدت پسندی کے اثر سے اہلِ عرب بھی کلی طور پر آزاد و بےنیاز نہیں ہیں لیکن وہ مذہبی انتہا پسندی کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے عوام کو فطرت پر مبنی سوچ کے شر سے بچاتے ہیں۔ کتنی بڑی بات ہے کہ عرب ذمہ داران اپنے علماء اور مؤذنوں سے اذانوں میں یہ کہلواتے ہیں کہ صلو فی بیوتکم۔ کیا یہاں اہلِ عجم، پاکستان یا ہندوستان میں اذانوں میں اس نوع کے کلمات کا تقاضا منوایا جا سکتا ہے؟ دوسری طرف اپنا حال یہ ہے کہ جب کورونا کا طوفان امڈ رہا تھا یہاں لاکھوں افراد کا اجتماع منعقد کیا جا رہا تھا اور کسی حکومتی ذمہ دار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ یہ حضرات جن میں اکثریت بزرگوں کی تھی ، شہروں اور بستیوں میں پھیل رہے تھے، توجہ دلانے پر بھی کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا تھا اور پھر انہی لوگوں سے کورونا وائرس کے ٹیسٹوں کا پازیٹو رزلٹ نکل رہا تھا۔

اس کے ساتھ ہی کچھ غیرذمہ دار لوگوں نے ایک اور عجیب و غریب بحث چھیڑ رکھی ہے یہ کہ کورونا ہمارے گناہوں کی پاداش میں عذابِ الٰہی یا خدا کی پکڑ ہے۔ ﷲ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو چکا ہے اسے راضی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ روتے ہوئے گڑکڑا کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اس سے خدا کو ہم پر ترس آ جائےگا یوں جب وہ ہم سے خوش ہو جائے گا تو اپنے اس عذاب کو ہم سے ہٹا دے گا اسی نوع کے خیالات و نظریات کا اظہار یہ لوگ اکثر کسی بھی قدرتی آفت سیلاب یا زلزلے کی آمد پر کرتے پائے جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی نوجوان نسل اس پر بہت سے سائنٹفک سوالات اٹھا رہی ہے، وقت آ گیا ہے کہ ان پر کھلا مباحثہ ہونے دیا جائے کہ ہم نے مذہب کو شعور و استدلال کے ساتھ پیش کرنا ہے یا لبادوں میں۔

ایسے احباب کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ سائنٹفک سوچ کو اپناتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ زلزلے یا سیلاب کی طرح کورونا وائرس بھی کوئی ایسا خدائی عذاب نہیں ہے جو کسی کے گناہوں کی پاداش ہے دیگر بیماریوں کی طرح کورونا بھی ایک بیماری ہے جس کے سامنے نیک و بد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کی لپیٹ میں متقی پرہیز گار آئے گا تو وہ بھی گنہگاروں کی طرح ہی کچلا جائےگا۔ جدید میڈیکل سائنس نے جس طرح کئی بیماریوں کا علاج دریافت کر لیا ہے، امید ہے کہ ایک روز اس کا علاج بھی نکال لائے گی جو پوری انسانیت کیلئے باعث ِرحمت ہوگا۔ ہمارا خدا رب العالمین ہے، ہمارا تو دعویٰ ہے کہ وہ انسانوں سے 70مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے، وہ انسانوں کو دکھ کیوں پہنچائے گا ؟اس طرح کی منفی باتیں ہمیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اس کو تو سب سے اچھا لگتا ہی وہ ہے جو اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔

خدا کے عاشق ہیں ہزاروں

بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو

خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

تازہ ترین