• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سرسید علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے چندہ جمع کررہے تھے تو کچھ لوگ انکی اس کوشش کو مذاق میں اڑا دیتے تھے اور کچھ لوگ داد دیتے ہوئے کہتے تھے کہ سید کام کرتا ہے۔ مجھے یہ یاد اس لئے آیا کہ دنیا بھر میں عالمی یومِ خواتین ہر سال منایا جاتا ہے جس میں بچوں سمیت پورے خاندان شامل ہوتے ہیں۔ ہم چونکہ سب سے نرالے ہیں سارا دن گردان سنتے ہیں ’’میں انہیں چھوڑوں گا نہیں‘‘۔ شاید اس لئے ڈاکٹر ثانیہ اور شیریں مزاری کو بھی یاد نہیں آیا کہ پاکستان نے قومی سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی، اسکا ازالہ احمد شاہ نے کراچی آرٹس کونسل میں دو روزہ ’’عورت سیمینار منعقد کرکے، ہم جیسے گنہگاروں سے بھی دعائیں لیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ تعلیم، صحت، ادب پر ماہرین نے بہت سنجیدہ گفتگو کی۔ خواتین نے ادب میں کونسے نئے موضوعات کو متعارف کرایا اور دنیا بھر میں انکے تراجم ہوئے۔

واپس اسلام آباد لوٹی تو ہمیشہ کی طرح عورت مارچ میں شامل ہونے کے لئے ایئرپورٹ سے پریس کلب پہنچی تو پھر ایک مصرعہ یاد آیا کہ مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے‘‘۔ کہ برقعے میں ملبوس معہ داڑھی کے مردوں اور کالے برقعوں میں عورتوں کو اصلی حالت میں دیکھا، تو ایک لمحے کو خوشی ہوئی کہ چلو عورت مارچ میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں مگر وہ خوشی تو ایک لمحے میں غصے میں بدل گئی۔ وہی سنا جو ٹی وی پر، اخبارات میں باشعور عورت کے بارے میں مغلظات کہی جاتی ہیں۔ ٹی وی کھول کر دیکھا تو برادر عرب ملک میں تو بادشاہت کی لڑائی جاری تھی۔ باقی خلیجی ممالک میں بھی عورت مارچ کی جھلک نظر نہیں آئی جبکہ حال ہی میں ایک شہنشاہ سے اسکی بیوی کی آزادی مانگنے کی خبریں سرخیوں میں موجود تھیں۔ ویسے بھی علامہ اقبال کہتے رہے کہ ’’نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے‘‘۔ ہماری استقامت دیکھیں کہ ہم آج بھی قبائلی نظام پر فخر کرتے ہیں۔ اس نظام کو اولیت دیتے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم وصحت پر لڑکوں کے مقابلے میں آدھی رقم بھی صرف نہیں کرتے۔ جگہ جگہ جرگے لگتے ہیں۔ سزا ظاہر ہے لڑکی کو ملتی ہے۔

کل میرے پاس چند خواتین افسران آئیں اور بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ خواتین کو ترقی دیتے ہوئے، نظر انداز کیا جارہا ہے میں نے کہا ایسا تو ضیاء الحق کے دور میں ہوتا تھا ، ساری خواتین افسروں کو کلیدی پوزیشن سے ہٹا دیا گیا تھا‘‘۔ وہ تڑپ کر بولیں ’’اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے‘‘۔ ہم تو سوچ رہی ہیں کہ ریٹائرمنٹ لیکر بزنس سیکٹر میں چلی جائیں۔ میں نے کہا بزنس سیکٹر کا تو پہلے ہی بھٹہ بیٹھا ہوا ہے آج کل کافی شاپس بہت ان ہیں۔ 400روپے کا کپ ملتا ہے یا پھر شیف کا کام کرنے کی تربیت لیکر، کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں نوکری کرلی جائے یا پھر ٹی وی چینل پر اپنی دکان چمکائیں‘‘۔ ساری دوستیں ناراض ہو گئیں۔ ظاہر ہے میرے پاس کوئی معقول جواز تو تھا نہیں کہ انکی تسلی کر دیتی۔ میرے سامنے تو شاہین باغ دلی میں بیٹھی وہ خواتین آگئیں جو استقامت کے ساتھ دو ماہ سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے انڈین سپریم کورٹ کو نوٹس لینے پر آمادہ کیا ہے۔ آئیں مل کر دلی کے لئے نوحہ پڑھتے ہیں:۔

اے غزل کے بے تاج شہنشاہ/ تری دلی جل گئی تیری دلداری کیسے کروں/ حیراں ہوں دل کو روں کہ پیٹوں جگر کو میں/ آج شاہیں باغ میں ہزاروں ’’ امرائو بیگم ‘‘ بیٹھی ہیں انکو یہ کہہ کر تسلی نہ دے کہ ’’ تو ہائے گل پکار ، میں چلائوں ہائے دل/ وہیں کہیں دوزخ میں تمہارے آس پاس مہاتما گاندھی بھی ہونگے/ وہ تو ایک مسلمان بھی مارا جاتا تو وہ دن برت رکھ لیتے تھے/ آج مہاتما بے بس کٹی پھٹی لاشیں اور جلے گھر دیکھ کر تم سے کچھ کہتے تو ہونگے / مہاتما سے لوگ پوچھ رہے ہیں/ ہم کیا یہاں پیدا نہیں ہوئے تھے/ ہم تو غربت زدہ وہ لوگ ہیں کہ جس دن روزی مل جاتی، اس دن گھر کا چولہا جلتا تھا/ اے اجڑی ہوئی جمنا! تیرا حلق بھی خشک ہوتا جارہا ہے/ اے میری /امرتہ! تو بٹوارے پہ کتنا روئی تھی/ اور اب شاہیں باغ کی خواتین/ جامع مسجد کی سیڑھیوں/ اور لال قلعہ کی دیواروں کا نوحہ سن رہی ہیں/ اے سخن ساز! تیری اردو کو تماشہ بنادیا گیا ہے/تم نے اپنے زمانے کا غدردیکھا تھا / اس زمانے کے غدر میں گیروا رنگ چھایا ہوا تھا / اب دوزخ کی آگ دلی میں ہے/ دلی کی گلیوں میں امیر خسرو بین کرتا ہو اپھر رہا ہے!

اب اور لکھا نہیں جاتا کہ قلم سے بھی آنسو ٹپک رہے ہیں مگر کیا ماتم کر لینے سے عالمی طاقتیں جاگ جائیں گی۔ وہ تو اتنے بزدل ہیں کہ ایک کورونا وائرس سے خوفزدہ ہوکر گھروں میں بند ہو گئے ہیں کیا زمین کسی طوفان نوح کا انتظار کررہی ہے۔ اس وقت سارے عالم میں انسان کی نہیں، شیطان کی حکومت ہے۔ خدا اس انتظار میں ہے کہ کب انسانیت جاگے گی یمن کے یتیم بچوں کی چیخیں وہ سن رہا ہے۔ شہنشاہیت کے بھڑکتے الائو وہ دیکھ رہا ہے۔ کب ڈوبے گا کب ڈوبے گا!!

تازہ ترین