جس وقت پاکستانی سنیما کا وجود عمل میں آیا، اس دور میں بھارتی فلمیں پورے ملک کے فلمی ٹریڈ پر چھائی ہوئی تھیں، عوام ان کے سحر میں ایسے مبتلا تھی کہ وہ فلمیں باکس آفس پر سلور جوبلی اور گولڈن جوبلی کے اعزازات حاصل کررہی تھیں۔ 1947میں ہدایت کار لقمان کی کلاسیک گھریلو مسلم معاشرے کے پس منظر میں فلمائی گئی فلم شاہدہ جو ریلیز کے اعتبار سے دوسری پاکستانی فلم ہے، وہ پہلی فلم تھی، جس نے بھارتی فلموں کے مقابل باکس آفس پر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، کراچی اور لاہور کے سنیماؤں کے علاوہ اس فلم کی نمائش دہلی اور بمبئی کے سنیما ہالز میں بھی ہوئی، جہاں اس فلم کو بڑی کام یابی ملی۔
دہلی کے ایک مقامی سنیما میں اس فلم کی سلور جوبلی پر بھارتی فلمی ٹریڈ کے ایک طوفان برپا ہوگیا، ہندو تعصب نے پاکستانی فلمی صنعت کی اس کاوش کو قبول نہیں کیا اور دیگر شہروں میں اس کی نمائش تک ممنوع قرار دینے کی کوششیں کیں۔ اسی سال فلم ساز، اداکار اور ہدایت کار نذیر نے پھیرے کے نام سے پہلی پنجابی فلم بنائی، جس میں انہوں نے ہیرو کا کردار کیا اور ان کی بیگم سورن لتا نے ہیروئن کا کردار کیا، یہ فلم لاہور کے پیلس سنیما میں ریلیز ہوئی، جہاں یہ مسلسل 25ہفتے بڑی کام یابی سے چلتی رہی اور اس نے پہلی سولو سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ فلم ’’پھیرے‘‘ نے پنجابی باکس آفس میں بنیاد رکھی، پاکستانی فلمی صنعت اپنے ابتدائی دور ہی میں بھارت کی بلاک بسٹر فلموں کا چیلنج قبول کرنے کے لیے ہر دم میدان میں تیار تھی، یہاں کے فلم میکرز، مصنفین، موسیقار، فوٹو گرافر، دیگر ٹیکنیشنز کے علاوہ اداکاروں نے حُب الوطنی کا مظاہرہ کر کے بہت جلد اس نئی فلمی صنعت کو اس طرح پروان چڑھایا کہ جب کوئی نئی پاکستانی فلم اس دور میں ریلیز ہوتی، تو بھارتی فلم ریلیز کرنے والے تقسیم کار اپنی فلم روک لیتے، 1950میں ریلیز ہونے والی اردو فلم ’’دو آنسو‘‘ نے کراچی اور لاہور کے سنیما ہائوسز پر بہت ہی شان دار بزنس کے ریکارڈ قائم کیے، یہ پہلی سپر ہٹ اردو فلم کہلائی، جس کے ہدایت کار انور کمال پاشا اور مرتضیٰ جیلانی تھے۔اس کام یاب فلم نے کراچی کے جوبلی سنیما پر 15ہفتے چل کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، اسی سال نمائش ہونے والی مصنف و ہدایت کار نذیر اجمیری کی نعماتی سپر ہٹ فلم ’’بے قرار‘‘ نے کراچی کے میجسٹک سنیما پر 18ہفتے کا بزنس کیا۔
یہ فلم اس سال عیدالفظر کے موقع پر ریلیز ہوئی تھی۔ موسیقار غلام حیدر کی موسیقی میں ترتیب دیے گئے نغمات نے اس فلم کو پاکستان کے علاوہ بھارت کے کئی شہروں میں بھی کام یابی اور مقبولیت دی۔ 1951میں شوکت حسین رضوی نے پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ بنائی، جس میں بہ طور ہدایت کارہ نور جہاں کا نام آیا، جو اس فلم میں ہیروئن بھی تھیں، نور جہاں بہ طور اداکارہ ، گلوکارہ اور ہدایت کارہ اس فلم میں بے حد کام یاب رہیں۔ اس فلم کے زیادہ تر نغمات اسٹریٹ سونگس بن گئے تھے، جن میں ’’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تِل اوئے‘‘اور ’’چن دیاں ٹوٹیاں وے ‘‘ شامل تھے۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے، نور جہاں کو یہ اعزاز بھی اس فلم سے حاصل ہوا کہ وہ پہلی خاتون ہدایت کارہ کہلائیں، چن وے کے بعد 1952میں اداکارہ اور گلوکارہ کی بلاک بسٹر فلم ’’دوپٹہ‘‘ نے پاکستان اور بھارت میں سابقہ کام یابی کے تمام ریکارڈ بریک کردیے، ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں گائے ہوئے گیتوں نے ساری فضا کو مترنم بنا دیا، موسیقار فیروز نظامی نے ’’چن وے‘‘ کے بعد اس فلم کے نغمات میں ایسی دل کش دھنیں مرتب کیں، جو آج بھی مقبولیت کے مقام پر فائز ہیں، اس فلم کے یوں تو سارے نغمات سپر ہٹ ہیں، جن میں ’’چاندنی راتیں، سب جگ سوئیں‘‘، ’’بات ہی بات میں چاندنی رات میں‘‘ ، ’’تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے‘‘، ’’جگر کی آگ سے اس دل کو جلتا‘‘ خاص طور بے حد مقبول ہوئے۔
کراچی میں یہ فلم جوبلی سنیما، جب کہ لاہور میں اس کا مرکزی سنیما ریجنٹ تھا۔ فلم ساز و ہدایت کار سیّد سبطین فاضلی کی یہ فلم دہلی کے ایک سنیما میں اس دور میں بڑے رش کے ساتھ دیکھی جارہی تھی ، تو وہاں کے معتصب ہندو یہ بات برداشت نہ کرسکے کہ کوئی پاکستانی فلم اس قدر کامیابیاں حاصل کرے، انہوں نے اس فلم کی کام یابی کو دیکھتے ہوئے اس سنیما گھر کو نذر آتش کردیا، جہاں اس فلم کی نمائش ہورہی تھی۔ پاکستانی فلمی صنعت کی یہ کام یابی بھارت کے فلمی سورمائوں کو ایک نظر نہ بھائی اور انہوں نے ابتدائی دورر میں ہر طرح کو کوشش سے پاکستانی فلموں کی نمائش کو بھارت میں روکا، لیکن ہمارے فلم میکرز کے حوصلے بہت بلند تھے۔انہوں نے متعصب ہندو فلم تقسیم کاروں اور فلم سازوں کا مقابلہ اپنے کام سے کیا اور ان کے مقابل بہت ہی اعلیٰ معیار کی فلمیں بنا کر کام یابی کے سفر کا آغاز کیا۔ 1953سے انور کمال پاشا نے ’’غلام‘‘ کے نام سے ایک اسلامی اور معاشرتی فلم بنائی۔
صبیحہ اور سنتوش اس کے مرکزی اداکار تھے۔ یہ فلم کراچی کے پلازہ سنیما میں ریلیز ہوئی، جہاں 18ہفتے بڑی کام یابی سے اس کی نمائش جاری رہی، اس کے مقابل اس دور میں بڑی بڑی بھارتی فلمیں چل رہی تھیں، لیکن اس فلم کے بزنس پر کوئی بھارتی فلم اثر انداز نہ ہوسکی۔ لاہور کے صنوبر سنیما میں ہی اس نے 13ہفتے کا بزنس کیا۔ کمال پکچرز کی اس فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار انور کمال پاشا خود تھے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد پاشا صاحب کا نام باکس آفس پر کام یابی کی ضمانت بن گیا، اسی سال فلم ساز و ہدایت کار نذیر کی رومانی نغماتی پنجابی فلم ’’شہری بابو‘‘ نے بھی پاکستان بھر میں کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ عنایت حسین بھٹی کو اسی فلم کے ذریعہ نذیر نے متعارف کروایا۔ رشید عطرے کی کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی کے بھی خوب چرچے ہوئے۔
معروف گلوکارہ زبیدہ خانم کی گائیکی کا دور اسی فلم سے شروع ہوا، معروف مصنف ڈراما نویس امتیاز علی تاج کی کاسٹیوم کلاسیکل فلم ’’ گلنار‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہونے والی ایک کام یاب فلم تھی، جو کراچی کے ریگل سنیما میں ریلیز ہوئی تھی، ملکہ ترنم نور جہاں نے کے یادگار کردار ادا کیا، جب کہ سنتوش کمار اس فلم کے ہیرو تھے۔ 1954میں فلم ساز آغا اے گل، ہدایت کار انور کمال پاشا، موسیقار ماسٹر عنایت حسین، مصنف کلیم احمد شجاع کی شاہ کار اور سپر ہٹ فلم ’’گمنام‘‘ نے لاہور کے نشاط سنیما میں 21ہفتے چل کر ایک ریکار قائم کیا، جب کہ کراچی میں یہ فلم تاج محل سنیما پر تین ماہ سے زائد عرصے تک کام یابی سے چلتی رہی، غلام اور گمنام کی کام یابی نے انور کمال پاشا کو پاکستان کے اس وقت کے سب سے بڑے کام یاب ہدایت کار کے طور متعارف کروایا، جن کے مقابل بڑے بڑے بھارتی فلم ساز اور تقسیم کار اپنی فلمیں ریلیز کرتے ہوئے گھبراتے تھے، اسی سال ایور ریڈی پکچرز کی کثیر سرمایہ سے تیار ہونے والی کاسٹیوم فلم ’’سسی‘‘ نے باکس آفس پر کام یابی کے ریکارڈ قائم کیے، جمعرات 3جون 1954 عیدالفظر کےدن یہ فلم کراچی کے ایروز اور لاہور کے رتن سنیما میں ریلیز ہوئی ۔
کراچی میں یہ اپنے مرکزی سنیما ایروز 34ہفتے چلی اور سولو سلور جوبلی پہلی اردو فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ سسی کا یادگار تاریخی کردار اداکارہ صبیحہ خانم نے کیا، جب کہ سدھیر اس فلم کے ہیرو تھے، دائود چاند کی ہدایات میں بننے والی اس پہلی سلور جوبلی اردو فلم کے پروڈیوسر جے سی آنند تھے۔ 1955میں فلم سازی کے کام میں پچھلے تمام سال سے زیادہ سرگرمیاں عروج پر رہیں، اس سال پچھلے سالوں سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں، جب کہ تعداد 19رہیں، لاہور کے بعد کراچی میں فلم سازی کا آغاز اسی سال فلم ہماری زبان سے ہوا۔ اسی سال پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘ ریلیز ہوئی، پیرامائونٹ پکچرز کی اس فلم کے پروڈیوسر و ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی تھے۔اداکار نذیر نے اس فلم میں نوکر کا ٹائٹل رول کیا، جب کہ سورن لتا، رانی، زینت، شاد اے شاہ شکارپوری بھی اس کی کاسٹ میں شامل ہیں۔
اس فلم میں مسز سلطانہ اور کوثر پروین کی آوازوں میں فلمائی ہوئی ’’لوری‘‘ نے خواتین فلم بین کو اس قدر متاثر کیا۔ کراچی میں اس فلم کو معروف اداکار وحید مراد کے ڈسٹری بیوٹر ادارے پاکستان فلمز نے ریلیز کیا تھا، ایورنیو پکچرز کی سپر بلاک بسٹر فلم ’’قاتل‘‘ اس سال کراچی کے تاج محل اور لاہور کے نشاط سنیما پیش کی گئی۔ تاج محل میں یہ 18ہفتے چلی، جب کہ لاہور میں تین ماہ سے زائد عرصے تک نمائش پذیر رہنے والی اس فلم میں صبیحہ، سنتوش کے علاوہ پہلی بار مسرت نذیر، اسلم پرویز اور اکمل نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ معروف ادکارہ نیر سلطانہ کی بھی یہ پہلی فلم تھی، موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی سریلی دھنیں بھی لا جواب تھیں، جن میں ’’الفت کی نئی منزل کو چلا‘‘ جیسے شان ادر گیت شامل تھے۔ انور کمال پاشا کی ہدایت میں بننے والی اس فلم کے مصنف حکیم احمد شجاع تھے، اسی سال ہدایت کار نعمان کی پنجابی فلم ’’پتن‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں پہلی بار ادارہ مسرت نذیر نے بہ طور ہیروئن کام کیا۔ سنتوش کمار اس فلم کے ہیرو تھے، پہلے اس فلم کی ہیروئن صبیحہ تھیں، جنہوں نے اس دور میں 15ہزار معاوضہ طلب کیا تھا، جو بہت زیادہ تھا، نعمان نے نئی ہیروئن مسرت نذیر کو صرف 15سو روپے میں اس فلم میں کاسٹ کیا تھا، پتن نے لاہور کے پیلس اور کراچی کے نگار سنیما میں بہت زبردست بزنس کیا تھا، موسیقار جی اے چشتی کے بنائے ہوئے گیت آج بھی صدا بہار ہیں۔
پتن کے علاوہ پاٹےخان، طوفان اور انتقام بھی اس سال کی کام یاب فلمیں تھیں۔ 1956میں ریلیز شدہ فلموں کی تعداد31 تھی، ایور نیو پکچرز کی پنجابی کاسٹیوم فلم دلا بھٹی نے پورے ملک میں شان دار کامیابی حاصل کی۔ ہدایت کار ایس ایم ڈار اور موسیقار چشتی کے کام کو عوام نے بے حد سراہا۔ صبیحہ اور سدھیر اس فلم کے ہیرو ہیروئن تھے، اس فلم کی آمدنی اس قدر ہوئی کہ آغا اے گل نے ایورنیو اسٹوڈیو کے لیے ملتان روڈ پر زمین خریدی اور نیو ایورنیو کی بنیاد رکھی، اس فلم کا ایک صدا بہار گیت ’’واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا‘‘ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے بھارت میں مقبولیت کے ریکارڈ بنانے میں کام یاب ہوا۔ اردو اور پنجابی کے بعد کراچی میں پہلی سندھی فلم ’’عمر ماروی‘‘ بھی اسی سال بنائی گئی، انوکھی، حمیدہ، قسمت، ماہی منڈا، چھوٹی بیگم، انتظار، سرفروش، چن ماہی اس سال کی کام یاب فلمیں تھیں۔
ہدایت کار اشفاق ملک کی ایکشن سے بھرپور فلم ’’باغی‘‘ کو اس سال غیر معمولی کام یابی حاصل ہوئی، یہ پہلی پاکستانی فلم ہے، جسے چین میں چینی زبان میں ڈب کرکے ریلیز کی گئی، چینی عوام نے اس فلم کو بے حد پسند کی، اداکار سدھیر کو جنگجو ہیرو کا خطاب اسی فلم سے ملا، اسی سال پاکستان میں بننے والی کسی تاریخی شخصیت پر مبنی فلم ’’حاتم‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں اداکار سدھیر نے ٹائٹل رول کیا۔ ہدایت کار ریاض احمد کی اسلامی فکرو سوچ پر مبنی فلم ’’دربار حبیب‘‘ بھی بے حد پسند کی گئی۔ معروف اداکارہ شمیم آرا کی پہلی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ بھی اس سال ریلیز ہوئی۔ 1957میں ملک ٹاکیز کے بینر تلے بننے والی بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’یکے والی‘‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی۔
فلم ساز باری ملک، ہدایت کار ایم جے رانا، کہانی نویس شیخ اقبال اور موسیقار جے اے چشتی کے کریڈٹ پر اس پنجابی فلم مسرت نذیر نے اپنے ٹائٹل رول میں ناقابل فراموش اداکاری کی، سدھیر، ظریف، زینت، نذر، غلام محمد، الیاس کاشمیری اور اجمل اس کی کاسٹ میں شامل تھے، اس فلم کی آمدنی سے باری ملک، باری اسٹوڈیوکی بنیاد رکھی۔ یکے والی کے علاوہ ایورریڈی کی سپر ہٹ سدا بہار فلم عشق لیلیٰ، ڈبلیو زیڈ احمد کی وعدہ، ایم اے رشید کی آس پاس، انور کمال کی باپ کا گناہ، جعفر ملک کی سات لاکھ، ایورریڈی کی نور اسلام، شریف نیر کی معصوم، رفیق رضوی کی بیداری نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، اسی سال فن کاروں اور فلمی ٹیکنیشنز کو ایوارڈ دینے کا سلسلہ ہفت روزہ نگار کے بانی الیاس رشیدی نے شروع کیا، سات لاکھ اس سال کی بہترین فلم قرار پائی۔
اداکارہ بہار نے فل ’’چن ماہی‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز اسی سال کیا۔ 1958میں فلمی صنعت نے اپنی کام یابی کا سفر حسرت، چھو منتر، مکھڑا، بھروسہ، ادمی اور آخری نشان جیسی فلمیں بنا کر طے کیا، اسی سال پہلے نگار ایوارڈ کی تقریب ایورنیو اسٹوڈیو میں منعقد ہوئی، جس میں 1957کی فلموں کو ان کی کارکردگی کے اعتراض میں ایوارڈ ز دیےگئے۔ معروف انقلابی مصنف مکالمہ نویس ریاض شاہد نے اسی سال فلم بھروسہ کی کہانی لکھ کر اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1959میں کام یابی سے ہم کنار ہونے والی فلموں میں کرتار سنگھ، راز، ناگن، فیصلہ، سویرا، اپنا پرایا، شیرا، ساتھی، جھومر اور کوئل کے نام شامل تھے۔ ہدایت کار حسن طارق نے بہ طور ہدایت کار فلم ’’نیند‘‘ سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا، پاکستان میں بننے والی پہلی آرٹ فلم ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ اسی سال ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار اے جے کاردار تھے، انقلابی سوچ کے حامل ہدایت کار خلیل قیصر کی بطور ہدایت کار پہلی فلم یار بیلی اسی سال ریلیز ہوئی، پنجابی فلموں کے معروف ہدایت کار ایم اکرم کی پہلی فلم بہ طور ہدایت کار بچہ جمھورا اسی سال نمائش پذیر ہوئی، اداکارہ نیلو کی بہ طور ہیروئن پہلی فلم ’’ناگن‘‘ نے اسے صف اول کی اداکارہ بنا دیا۔