• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوف اور ذہنی دبائو کے دور میں سوشل میڈیا پر زندہ دل زندہ دلی کا مظاہرہ کرکے لٹکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لاہور کے زندہ دل نہایت افسوسناک صورتحال سے بھی زندہ دلی کا پہلو نکال لیتے ہیں اور ایسا فقرہ لڑھکا دیتے ہیں کہ غم زدہ پریشان حال چند لمحوں کے لئے پریشانی کی گرفت سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ آج سے انتالیس برس قبل کی بات ہے جب نہ موٹر وے تھی اور نہ ہی جی ٹی روڈ دو رویہ تھی۔ میں اسلام آباد سے لاہور کار پر آتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا۔ کار کا اگلا حصہ اور دروازہ پچک گیا اور ونڈ اسکرین ٹوٹ گئی۔ اس کے باوجود کار اسٹارٹ ہو گئی اور مجھے لاہور لے آئی۔ راوی کے پل پر ٹول پلازہ ہوتا تھا، وہاں ٹوکن ٹیکس ادا کرنے کیلئے رکا تو نوجوان نے کار پر نگاہ ڈالی اور مسکرا کر فقرہ کسا ’’واہ بائو جی موجیں ہو گئیں۔ گاڑی ایئر کنڈیشنڈ ہو گئی‘‘۔ درد کی شدت کے باوجود میں لمحہ بھر کیلئے مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ آج کل کورونا پر مضامین، کالم، تجزیے، بین الاقوامی سازشوں کی تھیوریاں، مختلف طریقہ ہائے علاج اور مذہبی مباحث پڑھ پڑھ کر دکھی طبیعت کا ’’پیمانہ‘‘ لبریز ہو چکا ہے۔ گھمسان کے اس رن میں کسی صاحب نے ایک فقرہ وائرل کیا ہے جو ہم پر نشتر چلانے کے مترادف ہے۔ آپ بھی پڑھیے ’’برونڈی وہ واحد ملک ہے جہاں ابھی تک کورونا نہیں پہنچا۔ برونڈی کے حکمران سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب لاجواب تھا۔ فرمایا اس کی وجہ نہایت سادہ ہے۔ ہمارے پاس ٹیسٹنگ کیٹس (Testing Kits)ہی نہیں‘‘۔ مطلب یہ کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ نہ ٹیسٹنگ کٹ ہو گی، نہ کورونا کا پتا چلے گا۔ کچھ دن پہلے اسی طرح کی صورتحال پاکستان میں بھی تھی۔ کبھی کبھی جہالت بھی رحمت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس ٹیسٹنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا۔ مریض کہاں سے آتے؟ ہر مسلمان کی طرح میرا ایمان ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور موت لوحِ مقدر کا وہ حصہ ہے جس پر انسان کو اختیار نہیں۔ اس جسارت پر معاف کر دیں کہ مجھے مرحوم چیف جسٹس آر اے کیانی کی ڈاکٹروں پر کیا گیا طنز یاد آ گیا ہے۔ امید ہے آپ کوئی فتویٰ جاری نہیں کریں گے۔ ایک بار کیانی صاحب کو میو اسپتال کے ڈاکٹروں نے اپنے سالانہ فنکشن میں بحیثیت چیف گیسٹ بلایا۔ اُس دور میں میو اسپتال لاہور، پنجاب کا سب سے بڑا اسپتال تھا۔ کیانی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بندہ مر گیا۔ فرشتے اُسے گناہ گار سمجھ کر جہنم کے دروازے پر لے گئے۔ رجسٹر دیکھا تو اس میں اس کا نام نہیں تھا۔ وہ خوشی خوشی اُسے جنت کے دروازے پر لے گئے۔ رجسٹر دیکھا تو اس میں بھی اس کا نام نہیں تھا۔ فرشتوں نے پریشان ہو کر کہا باری تعالیٰ ہم نے پہلی دفعہ ایک بندہ دیکھا ہے جس کا نام نہ جہنم اور نہ ہی جنت کے رجسٹر میں ہے۔ اسے کہاں لے جائیں ’’آواز آئی اِسے میو اسپتال کے ڈاکٹروں نے مارا ہے اُن سے پوچھو‘‘، میں اُس دور میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا۔ جسٹس کیانی کی زعفرانی تقریر پڑھ کر طلبہ لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ وہ دور بھی کچھ لبرل تھا اس لئے کیانی صاحب کو کسی فتوے کا اندیشہ بھی نہیں تھا۔ ’’لاہوریا‘‘ دل جلا بھی ہو تو طنز کے تیر میں مزاح کی نوک لگا دیتا ہے۔ عمران حکومت نے پاکستانی قوم پر بےحد احسان کیا کہ پٹرول کی قیمتوں میں پندرہ روپے کمی کر دی۔ احسان اس لئے کہ ماہر معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں کے پیش نظر ہمارے ہاں پٹرول ساٹھ روپے تک سستا ہونا چاہئے تھا۔ اس سے مہنگائی بھی کم ہوتی اور معیشت کا پہیہ بھی چلنے لگتا۔ ایک زندہ دل نے فقرہ کسا ہے کہ کاریں بسیں سب کچھ بند ہے۔ ہم گھروں میں قید ہیں۔ کیا پٹرول جیبوں میں ڈالیں؟ اُن صاحب نے حسبِ عادت ’’جیب‘‘ نہیں کچھ اور لکھا ہے اور میں نے حسب معمول اِسے قابلِ اشاعت بنانے کیلئے جیب لکھ دیا ہے۔

نظر آ رہا ہے کہ اس وبا بروزنِ عذاب کے بعد دنیا بدل جائے گی اور عالمی نظام میں کئی تبدیلیاں ظاہر ہوں گی۔ حضرت انسان لچکدار شاخ کی مانند ہوتا ہے۔ جب طوفان گزر جائے تو اپنی جگہ پر آ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کورونا انسانی ذہنوں پر اپنے اثرات مرتب کر جائے گا۔ ان شاء اللہ پاکستان بھی چند ہفتوں کے بعد سکھ کا سانس لے گا۔ فی الحال مجھے روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے والے محنت کشوں کے حوالے سے تشویش ہے۔ حکومت کا امدادی پروگرام اپنا وقت لے گا اور تجربہ شاہد ہے کہ بےشمار ضرورت مند محروم رہیں گے۔ محنت کش بیوائوں اور مزدوروں کے حوالے سے چھپنے والی خبریں دل پہ زخم لگاتی ہیں، اگرچہ بےشمار این جی اوز اور مخیر حضرات مدد کیلئے سرگرم ہیں۔ ایسے میں سیاسی فاصلوں کو مٹا کر منتخب نمائندوں، سیاسی و سماجی کارکنوں اور جماعتی عہدے داروں کو ہر گائوں، قصبے اور محلے تک متحرک کرنا ضروری ہے۔ ایم پی اے، ایم این اے حضرات جن گلیوں میں ووٹ لینے جاتے ہیں انہی گلیوں میں بسنے والی مستحق بیوائوں اور غریب خاندانوں کو راشن پہنچانے کا فرض ادا کریں۔ یہ صاحبانِ حیثیت افورڈ کر سکتے ہیں اور انہیں کارکنوں کے ذریعے ہر گھر تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس سے ہماری جاگیردارانہ جمہوریت پر عوامی رنگ غالب آئے گا، عوام کے دلوں میں جمہوری نظام کیلئے احترام پیدا ہو گا اور نظام مضبوط ہو گا۔ کالم کا دامن محدود ہے، تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔ انتظامی مشینری کیساتھ ساتھ سیاسی نظام کو بھی کارِخیر میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کی جوابدہی کا خوف حضرت عمرؓ کو لاحق تھا تو کیا ہمارے سیاسی عہدیداروں کو اس جوابدہی کا احساس نہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین