• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹلی کے پانیوں میں ڈولفن واپس آگئی ہیں۔ وینس میں پانی میں مچھلیاں نظر آنے لگی ہیں۔ خوبصورت قاز اپنے بچوں کے ساتھ تل ابیب کے ایئرپورٹ پر گھوم رہی ہے۔ ہاتھی اور بندر اپنی جگہوں پر واپس آرہے ہیں جسے انسان نے ان سے چھین لیا تھا۔

فضائی آلودگی میں قریباً 50فیصد کمی ہو گئی ہے کتنی خوشی کی بات ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب بناکر بھیجا تاکہ وہ عقل شعور اور تدبر کے ساتھ اس کی بنائی ہوئی دنیا میں رہے۔ اس کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرے، استعمال کرے اور لطف اٹھائے۔ مگر انسان نے اپنی ساری طاقت اور توانائی اس دنیا کو مسخر کرنے اور اس دنیا میں اس کے علاوہ بسنے والی مخلوق کیلئے مشکلات پیدا کرے میں صرف کردی بلکہ اتنی طاقت حاصل کرلی کہ جانور اور نبات نو چھوڑ اپنے جیسے انسانوں کو ہی اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گیا۔ 

درختوں کو کاٹ ڈالا، پانی کو آلودہ کردیا۔ جانوروں کا شکار کیا، معصوم پرندوں تک کو بھون کر کھا گیا۔ جبکہ وہ غذا کی قلت کا شکار نہ تھا۔ یہ اس کی تفریح تھی، خطرناک ہتھیار ایجاد کرلئے اور اپنے اور دوسرے علاقے فتح کرنے شروع کردیئے۔ انسانوں کو غلام بنایا، دنیا پر حکومت کا خواب دیکھتے ہوئے ایٹمی، کیمیائی اور جناناتی جنگوں تک پہنچ گیا۔ ہر بیماری کا علاج اور قریباً ہر بیماری کا بچاؤ ڈھونڈتا چلا گیا۔ اتنا ذہین کہ روبوٹک بنائیں، مصنوعی ذہانت اور نیوٹیکنالوجی متعارف کرادی۔ اور پھر اتنا سکوت، اتنا خوف، اتنی خامشی دنیا نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھی، سنی اور محسوس کی ہو۔ فطرت نے انسان کی نفسانی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ لگا کر انسان کو سوچنے کا موقع دیا ہے۔ اس رکاوٹ نے موت اور دنیا کی حقیقت عیاں کردی ہے۔ آج یہ انسان ایک انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے وائرس سے شکست کھا گیا ہے۔ 

دنیا کے تمام امیر، غریب، ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ممالک اس وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ جی ہاں نول کرونا وائرس COVID-19۔ اس ایک جرثومے نے دنیا میں اب تک تین لاکھ تہتر ہزار چھ سو سینتالیس 373647 افراد کو نشانہ بنایا اور سولہ ہزار تین سو انیس افراد سے زندگی چھین لی۔ چین 81093 متاثرین اور 3272 اموات کے بعد اس وائرس سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اس نے ثابت کیا کہ وہ ایک دلیر، سمجھدار اور کمٹمنٹ کی پکی قوم ہے۔ وہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود ہجوم نہیں قوم ہے۔ انہوں نے اپنی موت کو کرونا وائرس کی موت میں بدل دیا۔ جبکہ دوسری جانب اٹلی میں تباہی مچی ہوئی ہے۔ اب تک 63927 لوگ اس کا شکار ہو چکے ہیں اور 6077 زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 42032 متاثرین کے ساتھ 508 اموات ہو چکی ہیں۔ وہ بھی اس وائرس کے ہاتھوں پریشان نظر آ رہا ہے۔ اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو 873 کنفرم کروانا کیسز اور 6 اموات کی شکل میں وہ میرے ملک پر حملہ آور ہو چکا ہے یقیناً خالق کاثنات اپنی مخلوق سے ناراض ہے کہ اس کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا کو انسانوں نے مل کر کتنا بدصورت کر دیا ہے۔ جون ایلیا نے کتنا عرصہ پہلے کہا تھا۔

اب نہیں ہے کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

دنایا کو چھوڑیں صرف اپنے معاملات پر ایک نظر ڈالیں تو ہم سب ظالم ہیں۔ اپنا احتساب کریں تو… غربت، بھوک، جہالت، ظلم زیادتی، بے کاری، بد کرداری، حق غصب کرنا، رشوت لینا اور دینا، کم تولنا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، اسراف، نمود و نمائش، گندگی، غلاظت، قدرتی وسائل کا بے دریغ زیاں بے غیرتی کاروکاری، قتل و غارت گری۔ ہم کیسے انسان ہے۔ کیا ہمارا خالق ہم سے خوش ہوگا…؟؟

اخبار، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا حتی کہ موبائل صرف کرونا وائرس کو ہی ڈسکس کر رہے ہیں۔ کچھ کام کی باتیں، کچھ صحت سے متعلق آگاہی کچھ افواہیں… تو کچھ ہنسی اور ٹھٹھا لگا رہے ہیں۔ تو کوئی TIK TOK پر مستی میں لگا ہوا ہے۔ کیا بحیثیت قوم ہم اس قدرتی آفت کے معاملے میں سنجیدہ ہیں، ہرگز نہیں… ہم انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

پوری دنیا میں کیا صدر کیا وزیراعظم، کیا وزیر کیا مشیر… محتاط… ہاتھ ملاناے سے گریزاں… اس وائرس نے نہ امیر دیکھا نہ غریب، نہ ملکہ نہ شہزادی، نہ پارلیمینٹ کے ممبران نہ اداکار نہ گلوکار سب نے اپنے آپ کو محدود اور محصور کر رکھا ہے۔ کیسا وقت ہے۔ کیا منظر ہے۔ خانۂ کعبہ خالی، مسجد میں، گردوارے، چرچ، مندر، ویٹیکین سٹی بند… الصلواۃ فی بیوتکم نماز گھر پر پڑھو کی اذانیں… ایک ارب انسان گھروں میں قید ہیں۔ بیماری اور موت کے خوف میں مبتلا ہیں۔ معیشت تباہ، میل جول، کاروبار، تفریح سب ختم… ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ لگائیں، گھروں میں بند رہیں۔

اے اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے۔ بے شک میں قصوروار ہوں۔

کیسا وقت ہے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ہمیں بتلا اور سمجھا رہا ہے کہ ہمیں کرونا سے بچنا ہے۔ ہمیں اسے پھیلنے سے روکنا ہے۔ خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ہے۔

٭… صابن سے اچھی طرح 20سیکنڈ تک ہاتھ دھوئیں۔

٭… سماجی فاصلہ رکھیں۔ ٭…کھانستے اور چھینکتے ہوئے منہ کو ڈھانپ لیں۔ ٭… اپنے ہاتھ چہرے اور آنکھوں پر نہ لگائیں۔ ٭… گھر پر رہیں۔ بلاضرورت گھر سے نہ نکلیں۔ ٭ رش والی جگہوں پر نہ جائیں۔

مگر ہم نے نہ سنا… ناہ دھیانا دیا… اسکول بند ہوئے، شاپنگ مال بند ہوگئے۔ غیر سنجیدگی کے ساتھ ہم اپنے اور پیاروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر سیرو تفریح میں مشغول ہوگئے… جب پوری دنیا سنجیدگی کے ساتھ اس وبا کے خاتمے کیلئے اقدامات پر غور کر رہی ہے تو ہم یہ سوچ کر خوش ہیں کہ ذرا گرمی بڑھے گی تو یہ وائرس خود اپنی موت مر جائے گا۔ یا یہ کہہ رہے ہیں کہ موت آنے پر سب کو ہی مر جانا ہے۔ یہ سمجھے بغیر کے ہمیں احتیاط اور علاج کا حکم ہے۔ آخر کار بات لاک ڈائون تک پہنچ گئی… اب ہم سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں، محدود ہیں۔ 

یہ ’’طبعی قید‘‘ ہے۔ یہ آئسولیشن ہے اب ہم سب محصور ہیں۔ یہ وقت، وقت دعا بھی ہے اور وقت عمل بھی، اب سمجھداری کا وقت ہے۔ یہ گھر پر رہنے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے اور وبا سے نجات مانگنے کا وقت ہے۔ اگر ہم سب دس پندرہ دن خود کو گھروں میں محصور کرلیں تو وائرس کا زور ٹوٹ جائے گا اور اللہ نے چاہا تو دس پندرہ دنوں میں کوئی بھی بھوک یا افلاس سے نہیں مرے گا۔ اگر دس پندرہ دنوں میں احتیاط نہ کی گئی تو ہم سب وائرس سے ضرور مر جائیں گے۔ کہ ہمارے پاس نہ اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی علاج معاملے کی سہولیات… اور موت بھی ایسی کہ نہ غسل نہ جنازہ اور نہ ہی رشتے دار پاس آ سکیں… ان دس پندرہ دنوں جو خدا کرے کے دورانیہ زیادہ نہ ہو ہم سب کی خصوصاً عورتوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ہم جو سارا وقت کہتے تھے وقت نہیں ملتا، یا وقت نہیں ہے… اب وقت ہی وقت ہے…

گیریل مارکویز کا ناول ’’وبا کے دنوں میں محبت‘‘ شاید آپ نے پڑھا ہو… اس کے عنوان کو تبدیل کردیں۔ ’’وبا کے دنوں میں حکومت‘‘ بس یہیں سے ہم عورتوں کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے… کہ ہمارا گھر ہماری سلطنت ہے۔ اللہ نے موقع دیا ہے کہ آپ اپنی اس سلطنت کے قوانین اور طریقہ کار میں تبدیلی لائیں کیونکہ آپ کے پاس وقت ہے… یہ تکلیف دہ دنوں کی نعمت ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں… آپ کے شوہر کو آفس نہیں جانا… آپ کے بچوں کو اسکول نہیں جانا… اگر آپ جاب کرتی ہیں تو آپ بھی گھر پر ہیں۔ ملازمہ کو گھر نہیں آنا، دوست احباب کو ملنے نہ آنا… ناجانا… یہ سارا وقت آپ کا اور آپ کے گھر والوں کا ہے۔

Stay at home Stay with family

گھر میں بچوں کی موجودگی سے نہ گھبرائیں۔ وہ اسکول، گھر مولوی صاحب، ٹیوشن اور کارٹون کے دائرے سے نکل کر آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔ سوچئے، پلان بنایئے…وہ ساری باتیں جو آپ اپنے بچوں سے اور اپنی ساس کے بچے سے کرنا چاہتی تھیں مگر وقت نہ تھا کہہ دیجئے… وہ سارے کام جو عدیم الفرحتی کی وجہ سے آپ نے جمع کررکھے ہیں۔ کرڈالئے کچھ نئی باتیں سوچیں… نئے خواب دیکھیں اپنے آپ کو اپنے بچوں کو اپنے پیاروں کو کس طرح سہولت پہنچا سکتی ہیں، بچوں کو سمجھائیں کہ گھر میں رہنا کیوں ضروری ہے اور بیماری سے بچائو کیلئے کیا اقدام کرنا ہیں۔ انہیں بتائیں کہ ہمارے دین نے ہمیں صفائی ستھرائی کا حکم دیا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ انہیں (حفظات صحت) ہائی جین کے بنیادی اصول سمجھائیں۔ گھر میں محصور ہونا مشکل سہی۔ مگر حصار کی بڑی قسمیں ہیں۔ محبت اور مسکراہٹ کا حصار، مضبوط بازوئوں کا حصار، دل سے نکلی دعائوں کا حصار، شفقت بھری آنکھوں کا حصار … اور ان کے آگے کرونا کی وجہ سے محصور ہونا بے معنی ہو جاتا ہے۔

٭…کرنا یہ ہے کہ اپنے گھروں میں عبادت، دعا اور استغفار کا اہتمام کریں۔ ٭ صبح سویرے بیدار ہو جائیں، بچوں کو بھی جگادیں۔ آپ کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ نہ آفس نہ اسکول… جاگیں، نماز ادا کریں… پھر دیکھیں کہ چمکتا ہوا روشن سورج کیسے نکلتا ہے۔ منزہ روشنی کیسے پھیلتی ہے۔ کیسے اندھیرا اجالے میں ڈوب جاتا ہے۔ فطرت اور قدرت کا مشاہدہ کریں۔ کیسے صبح کی تازہ ہوا آکسیجن سے لبریز ہوتی ہے جو لمبا سانس لینے پر اندر روح کی گہرائی تک ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ کیسے پرندے چہچہاتے ہیں۔ ہوا کی آواز سنیں۔ کیسے پتے تالی بجاتے ہیں، پھول کیسے مہکتے ہیں، آنکھیں بند کریں اور یہ سب کچھ اپنے اندر جذب کرلیں۔ ہلکی پھلکی ورزش کریں۔ بھگدڑ کے بجائے سکون، محبت اور توجہ کے ساتھ… مل کر بچوں کو نااشتہ کروائیں۔ ساتھ ساتھ انہیں متوازن اور صحت مند غذا کے متعلق بھی آہستگی اور نرمی سے سمجھاتی جائیں… اور یہ بھی کہ ناشتہ کیوں ضروری ہے۔ دوپہر اور رات کے کھانے میں زیادہ ڈشز کا مت سوچیں۔ برا وقت ہے۔ کم از کم پرگزارہ کریں۔ بس کھانے کی تیاری میں محبت شامل کردیں۔ خود ذائقے میں تبدیلی محسوس کریں گی۔ ایک خاتون خود پر بھی لاگو کرنا ہوگا۔ کہ زور سے نہیں بولنا، بچوں پر جھلانا یا غصہ نہیں کرنا… سب سے نرمی سے پیش آنا۔ بچوں کے سامنے اپنی خوبصورت ترین تصویر پیش کریں۔ اور بچوں کو بھی پابند کریں کہ زور سے نہ بولیں اور آپس میں نہ جھگڑیں۔

٭…آرام کریں۔ ورزش کریں۔ کتابیں پڑھیں، موسیقی سنیں۔ بچوں سے باتیں کریں ان کی بات غور اور تحمل سے سنیں۔ ان کے سوالات کے مناسب جوابات دیں۔ ان سے جڑ جائیں۔ ان کی پسند ناپسند معلوم کریں۔ اسکول میں کیا اچھا لگتا ہے کیا پسند نہیں آتا۔ ٹیچرز کیسے ہیں۔ ٭ ایک وقت مقرر کریں کہ گھر کے تمام افراد مل کر بیٹھیں باتیں کریں۔ اپنے بچپن کے قصے سنائیں۔ پرانے البم نکالیں، بچوں کو ان کی باتیں بتائیں۔ محبت اور چاہت بڑھائیں، محبت بڑھانے کا یہ موقع پوری دنیا کی مائوں کو قدرت نے دیا ہے۔ رنگوں سے تصویریؒ بنائیں۔ بچیاں ہیں اگر تو انہیں کچھ سینا پرونا اور کڑھائی سکھائیں۔

٭… بچوں کو سکھائیں کہ دوسروں کی مدد کیسے کی جاتی ہے۔ سب مل کر پیسے جمع کریں اور کسی فلاحی ادارے کو عطیہ کردیں یہ صرف لاک ڈائون میں نہیں آئندہ ہمیشہ کیا جائے گا۔

٭… اگر آپ کے گھر میں لان ہے تو بچوں کو پھولوں اور پودوں کے متعلق بتلائیں۔ ممکن ہو تو کچھ پودے لگا دیں۔ کچھ میسر نہ ہو تو لہسن کے جبوے، گندم کے دانے، یا ثابت دھنیہ گملوں میں لگا دیں۔ چند ہی دنوں میں کوتپلیں نکل آتی ہیں۔ بچے اس عمل سے سیکھتے بھی ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھائیں کہ یہ درخت، پھول، پودے جاندار ہیں اور انسانی زندگی کے لئے کتنے ضروری ہیں۔

٭…گھر کے آنگن یا بالکونی میں پرندوں کیلئے دانہ ڈال دیں، چند ہی دنوں میں پرندے آنے لگیں گے۔ بچوں کو پرندوں کی کہانیاں سنائیں۔ علامہ اقبال کی نظمیں سنائیں اور سمجھائیں۔ ٹریفک کا شور نہیں، فضا میں آلودگی نہیں۔ کچرے کا دھواں نہیں۔ شاید کہ پھولوں پر تتلیاں آجائیں، پرندے گانا سنانے لگیں۔ بچوں کو دکھائیں تتلیاں کیسے پروں کو کھولتی ہیں۔ بھنورا ہلکی سے آواز سے کیسے پھولوں کے گرد چکر لگاتا ہے۔ انہیں شہد کی مکھیوں کے متعلق بتائیں۔ شہد کی افادیت سمجھائیں، زمین پر چینی ڈال دیں۔ 

جب چونٹیاں آجائیں تو بچوں کو دکھلائیں کہ یہ کیسے قطار میں چلتی ہیں۔ ہمارا قطار میں کھڑے ہونا کیوں ضروری ہے۔ دوسروں کو دھکا دیکر آگے نکلنا کتنا برا ہے۔ قطار میں کھڑے ہوکر ہم تحمل سیکھتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کے پہلے جگنو بھی ہوا کرتے تھے اور بارش کے بعد زمین پر سرخ مخملی بیر بہوٹیاں بھی نکلی آتی تھیں… نجانے سب کہاں چلے گئے…!

٭…بچوں کے ساتھ انڈور گیم کھیلیں جیسے کیرم، لوڈو اور اسکریبل وغیرہ نہیں ہیںؒ تو ان کے ساتھ نام چیز جگہ جسے کھیل کھیلیں۔ ٭ موبائل، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ کا بھی دو چار گھنٹے کیلئے لاک ڈائون ہوگا۔ اس دوران سب مل کر گھر کی صفائی کر سکتے ہیں۔ اپنی الماریاں ٹھیک کر سکتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو آٹھ دس ماہ سے استعمال میں ہیں دوسروں کو دینے کیلئے نکال دیں۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا سیکھیں اور سکھائیں اور آئندہ کیلئے سب کو پابند کردیں۔

٭… بچوں کی اسکول کی کتابیں اور کاپیوں کو دیکھیں انہیں پڑھائیں۔ ان کی رائٹنگ پر توجہ دیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ابھارنے کیلئے ان کے ساتھ تصویریں بنائیں۔ رنگ کریں مضمون لکھیں۔ ساتھ ہی کسی موضوع پر بولنے کیلئے ہمت افزائی کریں۔اس سے بچے خود اعتماد ہوتے ہیں۔

گھر کے باقی افراد پر بھی توجہ دیں ان کے جو کام باقی ہوں وہ پورے کرتے میں مدد کریں۔

٭… اپنے پاس پڑوس اور ملازمین سے فون پر رابطے میں رہیں۔ انہیں کسی چیز کی کسی مدد کی ضرورت تو نہیں خیال رکھیں۔ انہیں سہولت مہیا کرنے میں کوشش کریں۔ رشتہ داروں اور دوست احباب سے حال احوال معلوم کریں۔ اگر کوئی ناراض ہے تو اسے فون کر کے منا لیجئے… مگر گفتگو اختصار کے ساتھ…

تمیز، تہذیب، ترتیب، ترکیب اور توازن بچوں کی کردار سازی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان پر توجہ دیں…

٭… اپنے ہمسفر اپنی زندگی کے ساتھی سے وہ ساری باتیں کریں جو وقت نہ ہونے کے سبب آپ سوچتی رہ جاتی تھیں۔ انہیں بتلائیں محسوس کروائیں کہ آپ ان سے کتنی محبت کرتی ہیں… پھر رویوں میں فرق آپ خود دیکھیں گی… جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلائو ہے…! اچھی کتاب، اچھا شعر، اچھا جملہ حتی کہ اچھا لہجہ کتنی توانائی فراہم کرتا ہے۔

جانتی ہیں نا آپ……!

اب آیئے اپنی طرف… کچھ وقت صرف آپ کا، آپ کی عبادت کا، آپ کے ارتکاز اور مراقبے کا… اپنے آپ سے ملاقات کا اپنے سائے کو پہچاننے کا… نائی مثبت سوچ اپنا نے کا… ذھنی دبائو سے نجات حاصل کرنے کا… زندگی کی دوڑ میں بھاگتے ہوئے جسم کو سکون پہنچانے کا… اپنے ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی زخموں کو بھرنے کا… جو نہیں ہے کہ بجائے جو ہے اس پر شکر گزاری کا دیکھیں اس لاک ڈائون کے عرصے میں ہمارے جنگلوں میں جانور، درختوں پر پرندے، پھولوں پر تتلیاں، دریائوں میں مچھلیاں، سمندروں میں ڈولفن اور کچھوے واپس آچکے ہوں گے۔

ہم اس وبا کو شکست دے چکے ہوں گے۔ لاک ڈائون کے خاتمے پر ایک نئی صبح، نئی زندگی، نئی روشنی ہمارا استقبال کر رہی ہوگی۔ یہ زمین، یہ دنیا، یہ زندگی اپنی تمام تر خوبصورتی کیساتھ ہماری منتظر ہوگی… انشاء اللہ

تازہ ترین