عابد محمود عزام
معاشرہ افراد کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں، جہاں سب باہم مل جل کر رہیں اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ باہمی تعاون ہی ایک مثبت و بامقصد معاشرے کی تعمیر کا بنیادی جزو ہوتاہے۔ دنیا میںہر انسان معاشرے کا محتاج اور آپسی تعاون کا دست نگر ہوتا ہے۔ اس سے کٹ کر ایک طویل اور مشکل سفر طے کرنا کسی بھی انسان کے لیے مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہوتا ہے، کہتے ہیں زندگی ایک سفر کا نام ہے، اسے آسانی اور کام یابی کے ساتھ طے کرنے کے لیے معاشرے کے تمام افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ دیناانتہائی ضروری ہے۔ جس طرح کسی دور دراز علاقے کے سفر کے دوران مسافر آپس میں معاونت کرتے ہوئے سفر کوبآسانی گزارتے ہیں، اسی طرح زندگی کے طویل سفر کو بھی بہتر طریقے اور کام یابی کے ساتھ گزارنے کے لیے باہمی تعاون اہم ہوتا ہے۔ صرف اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر زندگی کے سفر میں آسانی سے کام یاب ہونا انتہائی مشکل ہے۔
انسان کو کام یابی اسی وقت کام یاب ملتی ہے ،جب وہ مستقل مزاجی سے محنت کرتا ہے، لیکن کام یابیوں میں محنت، جدوجہد اور صلاحیتوں کے علاوہ اساتذہ اور خیرخواہوں کی معاونت بھی ضرور شامل ہوتی ہے۔ محنت، مستقل مزاجی اور عزم جیسی خصوصیات اسی وقت کام یابی میں معاون ثابت ہوتی ہیں، جب کوئی اہل فن اور تجربہ کار انسان رہنمائی کر کے ان صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال کرنے کا طریقہ بتائے۔کوئی بھی شخص جہاں دوسروں سے اپنی ترقی اور کام یابی کے لیے مدد اور رہنمائی چاہتا ہے، وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ، وہ دوسروں کا ہاتھ تھامے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ، عملی زندگی کے آغاز میں ہم دوسروں سے تو یہ توقع کرتے ہیں کہ، وہ ہماری رہ نمائی کریں، لیکن جب ہم خود کام یاب ہو جاتے ہیں تو،وہ وقت فراموش کر بیٹھتے ہیں ، جو ہم نےترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کا ٹا تھا،اپنے جونیئرزکے لیے مشکلات کھڑی کرنا شروع کردیتے ہیں، یہ کوئی اچھا یا مثبت طرز عمل نہیں ہے۔ تعمیری سوچ یہ ہے کہ سینئر زاپنے جونیئرز کی حوصلہ افزائی کریں،ساتھ اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں مشورے دیں، کام یاب ہونے ، مشکلات کا سامنے کرنے کے طریقے بتائیںاور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں، کیوں کہ اس میں کوئی دور ائے نہیں ہو سکتی کہ، سینئرز کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی جونیئرز کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔اس سے ان کی ہمت بھی بڑھتی ہے، کامیابی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
حوصلہ افزائی اور رہنمائی دو ایسی خصوصیات ہیں، جن کی وجہ سےعملی زندگی میں قدم رکھنےو الے نئے لوگوں کے لیے کام کرنا آسان اور مستقبل کاسفر طے کرناخوش گوار ہوجاتا، نسلِ نوکو سہارا ملتا اور یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ عملی زندگی میں در پیش چیلنجز کا مقابلہ کر پائے گا، جب کہ رہنمائی سے منزل کا تعین کرنے اور اس تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ زمانہ طالب علمی میں ان کے سب سے قیمتی لمحات کون سے تھے، تو اکثر یت کا جواب تھا کہ ہمارے لیےہ لمحات سب سے زیادہ قیمتی تھے، جب ہماری محنت کو سراہا اور حوصلہ افزائی کی گئی، یہ ہی وہ لمحات تھے، جن کی وجہ سے کام یابی حاصل کرنے میں ان کو مدد ملی۔ہم اس سے بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ، چاہے، زمانۂ طالب علمی ہو یا نوکری کے مراحل ، کوئی بھی انسان اسی وقت بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے، جب اس کی پزیرائی ہو۔ یونیورسٹی ، کالج یا دفتر میں اکثر اوقات ہمارا سامنا ایسے افراد سے ہوتا ہے، جن میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے، ہماری تعریف کے چند بول ان کی زندگی بدل سکتے ہیں، خود اعتمادی کو بحال کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، اس کے بر عکس یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ، ہمارا سخت ،تلخ ، تضحیک آمیز رویہ ، بے جا تنقید کسی بھی فرد کی خود اعتمادی کو خاک میں ملا سکتی ہے، لہٰذاکوشش کیجیے کہ ہمیشہ اپنے ماتحت ملازمین کا ساتھ دیں، ان کا خیال رکھیں، اگران سے کوئی غلطی ہو جائے، تو سب کے سامنے نہیں اکیلے میں انہیں سمجھائیں یا سرزنش کریں، جو اثر دھیمہ لہجہ اور شیریں الفاظ رکھتے ہیں، وہ کبھی تلخ الفاظ کے چناؤ میں نہیں ہوتا۔ویسے بھی نسل نوسے کام لینا کا بہترین طریقہ یہ ہی ہے کہ، انہیں پیار سے سمجھایا جائے نہ کہ ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے۔اس کے علاوہ جونیئرز پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ، اپنے سینئرز کو اساتذہ سمجھیں، انہیں بالکل اسی طرح عزت دیں جیسے اپنے اساتذہ کو دیتے ہیں۔
ایک کام یاب تاجر ایک سیمینار میں طالب علموں کو اپنی کامیابی کے راز بتا رہا تھا، سیشن کے اختتام پرتاجر نے حاضرین سے کہا کہ، کہا کہ یقیناً آج تمام نوجوانوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت سے خواب دیکھے ہوں گے، جنہیں پورا کرنے کے لیے آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی ۔ ایک وقت ایساآئے گا، جب آپ زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیں گےاور کامیاب ہو جائیںگے۔ اس وقت آپ پیچھے مڑ کرضرور دیکھیے گا، کہ کس طرح مشکلات کے باوجود اس مقام پر پہنچے اور کن لوگوں نے آپ کی مدد کی، مگر منزل پر پہنچنے کے بعد مغرور مت ہو جائیے گا،بلکہ قدم زمین پر ہی جمے رہنے چاہییں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ،اپنے جونیئرز کی مدد ، حوصلہ افزائی اور معاونت ضرور کیجیے گا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ باہمی تعاون جس معاشرےکا حصہ ہو، اس میں کام یابی اور آگے بڑھنےکے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، جہاں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا قائم نہ ہو، نہ وہ معاشرے کام یاب ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسا ادارہ دیر پا چل پاتا ہے۔ بعض ممالک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپس میں مل کر ایک سرکل تشکیل دیتے ہیں، جس میں مختلف شعبوں کے تجربہ کار افراد رضاکارانہ طور پر مدد، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کر تے ہیں، اس طریقے کو ’’نیٹ ورکنگ‘‘ کہا جاتا ہے،نیٹ ورکنگ لوگوں کا مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کام یابیاں سمیٹنے کا نام ہے۔ باہمی تعاون کے سلسلے میں ایک اچھا نیٹ ورک کسی بھی فرد کی ذاتی زندگی، اچھی ملازمت کے حصول، کیریئر میں ترقی یا بزنس میں اضافے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔
خود غرضی سے پاک ،بے لوث ہونا اچھے نیٹ ورکنگ کا پہلا اصول ہے۔ زندگی میں کام یابی حاصل کرنےکے لیے ،ایک اچھے نیٹ ورک کی بہت اہمیت ہے۔ کام یاب لوگوں کے پاس قابل اعتماد، باصلاحیت، ماہر، سینئر، حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے والے لوگوں کا سرکل ہوتا ہے۔ کام یاب لوگوں کی کام یابی میں اِن افراد کے تعاون کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص جس نے ہمارے لیے کوئی چھوٹا سا اچھا کام کیا ہوتا ہے، حوصلہ افزائی کے لیےدو بول بولے ہوتےاور ہماری رہنمائی کی ہوتی ہے ،وہ ہماری عملی زندگی میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
اس وقت بالخصوص ہمارے معاشرے کو ایسی ہی تعمیری سوچ کی ضرورت ہے، اگر تمام لوگ اس کو پروان چڑھائیں اور اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد ، حوصلہ افزائی اور اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کام کریں تویقیناً ہر فرد کے لیےاپنی منزل مقصود پر پہنچنا نہ صرف آسان ہو جائے گا بلکہ ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اوج ثریا پر جا پہنچے گا، کیوں کہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور عظمت و استحکام میں اس کے افراد، بالخصوص نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جب نوجوان کام یاب ہوں گے تو ملک کے ترقی کرنے کے راستے خود بہ خود ہم وار ہو جائیں گے۔ کسی قوم کو دنیا کی صف اول میں کھڑا کرنے اور عزت و شرف کی قبا پہنانے میں اس قوم کے افراد کا نمایاں کردار ہوتا ہے، اگر ہم سب تعمیری سوچ پر عمل کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔