• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت موجودہ حکومت کو ایک ایسے بحران کاسامنا کرنا پڑرہا ہے جو صرف پاکستان ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ چین سے ابھر کر سامنے آنے والے اس بحران نے ابتدا میں پاکستان پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہ کیے کیونکہ پاکستان نے بروقت اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ حد تک محفوظ کرلیا تھا لیکن بھلا ہو ہمارے چند ایک وزراومشیروں کا جنہوں نے تفتان کی سرحد ایران سے دھکیل دیے جانے والے زائرین کے لیے کھول دی اور پھر ہمیں اس طبی بحران کا سامنا کرنا پڑا جس پر اب پاکستان میں قابو پانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

ترکی بھی ایران کا ہمسایہ ملک ہے لیکن اس نے پاکستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی سرحدیں فوری طور پر بند کردیں اور یوں ایران سے آنے والے خطرے کے آگے دیوار کھڑی کردی۔ترکی کو دراصل یورپ میں سب سے زیادہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کیونکہ ترکی میں سارا سال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن ترکی نے اپنے تمام ہوائی اڈوں پر تھرمل کیمرے نصب کرتے ہوئے فوری طور پر متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں لینا شروع کردیا جس نے ترکی کو اٹلی جیسی صورتِ حال سے بچنے میں نمایاں کردار ادا کیاتاہم اگر لاک ڈائون کی پابندی نہ کی گئی تو پھر ترکی شدید مشکلات سے بھی دوچار ہوسکتا ہے۔ ترکی یورپی ممالک کے مقابلے میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں جرمنی کے شانہ بشانہ آگے بڑھتا جا رہا ہے جبکہ دیگر تمام یورپی ممالک اس جنگ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ترکی اپنے انتہائی نگہداشت کے یونٹس اور وینٹی لیٹرز کی تعداد کے لحاظ سے OECDممالک پر برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔

ترکی کو اس وقت یورپی ممالک پر یہ بھی برتری حاصل ہے کہ ترکی میں حالیہ چند سالوں میں بڑی تعداد میں جدید ٹیکنالوجی، مشینریز، سہولتوں اور رقبے کے لحاظ سے بہت بڑے رقبے پر مشتمل تمام ہی شہروں میں بڑی تعداد میں ’’شہر اسپتال‘‘ جسے ترکی زبان میں ’’شہر حستحانے‘‘ یعنی City Hopitalکہا جاتا ہے، تعمیر کیے گئے اور ان اسپتالوں کے شہر سے دور ہونے کی وجہ سے مرِیضوں کے وہاں نجانے پر ترکی کے جلد ہی اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہونےکے الزامات اپوزیشن کی جانب سے لگائے گئےتھے لیکن اب یہی اپوزیشن صدر ایردوان کی جانب سے وقت سے پہلے ہی ان اسپتالوں کو تعمیر کرنے کی تعریف کررہی ہے۔ صدر ایردوان نے اسی دوران ’’قومی یکجہتی مہم‘‘ جس کا سلوگن ہے ’’اے میرے ترکی، اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کر‘‘ میں اپنی سات ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے آغاز کردیا ہے اور کابینہ کے تمام وزرا، تاجر برادری اور مخیر حضرات سے بھی بڑھ چڑھ کر کورونا وائرس سے متاثرہ افرادکو بلدیاتی اداروں ہی کے ذریعے رقوم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ترکی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اس لیے بھی آگے ہے کہ ترک زندگی بھر" کولون cologne (جس میں 80 درجے الکحل موجود ہوتی ہے) اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں۔ ہر ترک کے گھر میں ہاتھوں کی صفائی کیلئے " کولونیا یا کولون" ایک لازمی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی نے کورونا کی وبا پھیلنے پر سب سے پہلے تمام شہروں پر لاک ڈائون پر عمل درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ 65 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کو کسی بھی صورت گھروں سے باہر جانے سے روک دیا۔ تاہم اس موقع پر ترکی کے بلدیاتی ادارے جو بہت ہی مضبوط ہیں اور جمہوریت کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، ترکی میں عوامی خدمت کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملازمین کے ذریعے 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہر ممکنہ امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے شاپنگ کرنے سے لے کر بینک سے تنخواہ نکلوانے اور بل کی ادائیگی تک کے فرائض بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔

ترکی کے عوام اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ یہاں کورونا وائرس سے متاثرہ تمام افراد کے ٹیسٹ اور اسپتال میں تمام دیکھ بھال کے اخراجات حکومت کی جانب سے اداکیے جا رہے ہیں۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی کیے جانے والے تمام اخراجات حکومت ہی کی جانب سے ادا کیے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی ترکی میں صحت کا شعبہ دنیا کے لیے ایک مثال ہے اور کئی یورپی ممالک ترکی کے اس ماڈل کو اپنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور کئی نے اس سلسلے میں اپنے وفود ترکی بھی روانہ کیے ہیں۔

ترک جو دیگر اسلامی ممالک پر صفائی کے لحاظ سے برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔ عام طور پر ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ پر پوری طرح عمل درآمد کرتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک میں ترکی جیسی ایسی صفائی نہیں۔ ترک بھی جاپانیوں کی طرح گھروں کے اندر باہر پہنے جانے والے جوتوں سے داخل نہیں ہوتے ہیں بلکہ گھر کے باہر یا گھر کے اندر ایک خصوصی جگہ جوتے اتار کر گھر کے سلیپر وغیرہ پہن لیتے ہیں اور اگردنیا میں کہیں بھی کسی بھی عمارت کے شیشے وغیرہ بڑے باقاعدگی سے ہفتے میں یا پندرہ دنوں میں صاف ہوتے دکھائی دیں تو سمجھ جاِئیے اس عمارت میں کوئی نہ کوئی ترک رہائش پذیر ہے۔

اور آخر میں ترکی میں پھنسے ہوئے پاکستانی باشندوں کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گا۔ ترکی، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سے بین الاقوامی پروازوں پر بندش کی وجہ سے کئی ایک پاکستانی باشندے استنبول کے ہوائی اڈے پر پھنس کر رہ گئے۔ ان پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو ئیںجس پر پاکستان کےسرکاری حکام کے علاوہ ترکی میںپاکستان کے سفیر محمد سائرس سجاد قاضی اور استنبول میں پاکستان کے قونصل جنرل بلال پاشا نے فوری طور پر اقدامات اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کو ایسے وقت میں حل کرنے کی کوشش کی جس وقت ترکی کو خود اپنے غیر ممالک سے آئے باشندوں کے مسائل اور ان کو قرنطینہ میں رکھنے کے مسئلے کا سامنا ہے۔ سفیر پاکستان اور قونصل جنرل کی ذاتی کاوشوں اور محنت نے اس مسئلے کو حل کرنے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا اور ان پاکستانیوں کی ایک ہوٹل میں رہائش کا بندو بست کیا۔ اس دوران ترکی کے وزیرخارجہ میولود چاوش اولو اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ان پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے بارے میں ٹیلی فون پر بات چیت بھی ہوئی اور ترک وزیر خارجہ نے ہر ممکنہ امداد فراہم کرنے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ یہ تمام پاکستانی قرنطینہ کی مدت پوری ہونے کے بعد پاکستان روانہ کردئیے جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین