• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تمہی کہو رندو محتسب میں ہے آج شب کون فرق سا ایسا
یہ آکے بیٹھے ہیں میکدے میں وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے
فیض احمد فیض کے زمانے میں عبوری حکومت کیلئے کوئی نام اپوزیشن اور حکومت نے نہیں دیئے تھے اسکے باوجود فیض صاحب نے اتنا عمدہ شعر کہہ دیا جو میں نے عبوری حکومت کے وزیراعظم کے چناؤ کے پس منظر میں نقل کردیا تاکہ میرے قارئین بھی محظوظ ہوسکیں۔ جس طرح کے نام دونوں پارٹیوں نے پیش کئے ہیں تو مجھے یہ مصرعہ یاد آرہا ہے۔کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں
ہمارے سیاست دانوں کی آپس میں ایک دوسرے پر بداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ آپس میں بلکہ صرف دو ماہ کیلئے ایک وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں کرسکتے اور چار دن کی کشمکش اور مسلسل میٹنگوں کے بعد بالآخر معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد ہوگیا جو اپنی صوابدید کے مطابق وزیراعظم کا قرعہ نکالیں گے اور جس کسی پر ہما کا سایہ ہوگا اس کا نام آجائے گا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاست دان عوام سے توقع رکھتے ہیں کہ ان پر اندھا اعتماد کیا جائے مگر وہ خود ایک دوسرے پر اتنا بھی اعتماد نہیں کرتے کہ کسی ایک نام پر ہی متفق ہوجائیں۔ میں اس موضوع پر زیادہ تبصرہ اس لئے نہیں کروں گا کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات ہوجائے گی مگر میں آپ کے ذہن اور سوچ کیلئے اس موضوع کو تشنہ ضرور چھوڑ رہا ہوں تاکہ آپ اپنے ڈرائنگ روم میں اس موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھا کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں بقول ساحر لدھیانوی
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اِک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ہمارے سیاست دانوں نے چار روز تک مسلسل اجلاس کرکے اور متفق نہ ہو کر خود کو میڈیا کا مرکزِ نگاہ بنائے رکھا اور اس طرح اپنا اور عوام کا کافی قیمتی وقت استعمال کردیا۔ میں نے دانستہ طور پر وقت خراب اور وقت ضائع کے الفاظ استعمال نہیں کئے کیونکہ اچھا نہیں لگتا۔ لیکن لکھ یوں دیا کہ لوگ اُنہیں اپنے حسبِ ضرورت متبادل الفاظ کے طور پر استعمال کرلیں۔ مجھے اُمید ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک نگراں وزیراعظم کا نام برسرِ عام آچکا ہوگا اور وہ حلف لینے کی تیاری میں مصروف ہوں گے۔ نگران وزیراعظم کوئی بھی ہو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل کام تو پولیس اور بیورو کریسی کا ہے۔ میری خواہش ہے اور دعا بھی ہے کہ نگراں دور میں پولیس اور بیورو کریسی نیوٹرل ہو کر اپنے فرائض منصبی ایمانداری اور پروفیشنل طریقے پر ادا کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ان کو کامیابی نصیب نہ ہو وہ یقیناً کامیاب ہوں گے۔ ایک دفعہ تجربہ کرکے تو دیکھیں۔ کبھی دیانتداری کا بھی تجربہ کرلیں۔ گزشتہ روز میں سپریم کورٹ میں موجود تھا اور جناب چیف جسٹس چوہدری افتخار صاحب اور ان کے رفقاء معزز جج صاحبان کے مقدموں کی سماعت کے دوران ریمارکس سن رہا تھا۔ یقین کریں وہ بھی افسران کو دیانتداری سے اچھا کام کرنے کی تلقین کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لوگ اچھا کام کریں۔ نوجوان دیانتدار افسروں کی ترقیوں کا راستہ روکنے والے تمام کنٹریکٹ پولیس افسران کو سپریم کورٹ کی مداخلت پر نوکریوں سے فارغ کردیا گیا کچھ افسران نے تو سپریم کورٹ سے واپسی پر اپنے استعفے کے ٹکر مختلف ٹی وی چینلوں پر چلوائے۔ ایک خاتون افسر جو کہ آئی ٹی کی پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کی نوکری بچ گئی اور چیف جسٹس صاحب نے ملک میں آئی ٹی کے شعبے کی تعریف کی اور کہا کہ آپ اسلام آباد آکر دیکھیں سپریم کورٹ میں پورا نظام آئی ٹی پر کام کررہا ہے یہ حوصلہ افزا بات ہے اور ملکی ترقی کا راستہ ہے۔ آج کے اخبارات میں خبریں شائع ہوئی ہیں کہ کنٹریکٹ ملازمین کے فارغ ہونے کے بعد ترقی کیلئے انتظار کرنے والے نوجوان پولیس افسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 13 کنٹریکٹ پولیس افسران کو فارغ کردیا گیا جبکہ ایک افسر نے ایک روز قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ دور اندیش افسر ہے اور ستاروں کا حال جانتا ہے مگر کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ صوبائی وزیر داخلہ بن جائیں۔ اب اُمید ہے کہ ان ریٹائرڈ اور مستعفی افسروں کی جگہ مستعد اور ایماندار نوجوان افسروں کو ترقی دے کر بڑے عہدوں پر لگایا جائے گا تاکہ محکمے کی مجموعی کارکردگی میں اضافہ ہو اور کراچی سے نوگو ایریا کا خاتمہ ہو۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے اور خاص طور پر جبکہ رینجرز نے بھی ہاتھ پاؤں ہلانا شروع کردیئے ہیں۔ ریونیو بورڈ کی طرف سے سپریم کورٹ میں سلائیڈیں اسکرین پر دکھا کر عدالت کو زمینوں کے معاملات میں ہونے والے گھپلوں سے متعلق مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو گھپلے دو دو کاغذات بناکر اور سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کرواکر بندر بانٹ کرکے کئے گئے ہیں وہ تو سلائیڈوں پر نظر نہیں آتے، وہ فائلوں میں ہوتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ صرف چیف جسٹس صاحب اس سلسلے میں کراچی رجسٹری میں ایک کمپلینٹ سیل کھولنے کا حکم دیں۔ جس میں تمام متاثرہ افراد اپنی اپنی درخواستیں جمع کرائیں اور پھر ان درخواستوں پر عدالت کے حکم سے متعلقہ محکمہ یا متعلقہ عدالت میں بھیجا جائے تاکہ عوام کو بغیر وکیلوں کی خدمات حاصل کئے بلا خرچ انصاف مل جائے اور جعلی کاغذات اور ڈبل کاغذات پر زمینوں کے مالکانہ حقوق ٹرانسفر کرنے والے افسران کو سپریم کورٹ کے حکم سے اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے۔ اس طرح کافی حد تک سرکاری اور چوری کی گئی زمینیں بازیاب ہوجائیں گی اور کمزور اور غریب سائلوں کو بغیر پیسہ خرچ کئے فوری اور سستا انصاف مل جائے گا۔ آخر میں غالب کا ایک قطعہ جو حسب حال ہے قارئین کی نظر کرتا ہوں
گر تجھ کو ہے یقین اجابت‘ دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دلِ بے مدعا نہ مانگ
آتا ہے داغ حسرت دِل کا شمار یاد
مجھ سے میرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
تازہ ترین