• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی پر فیصلہ محفوظ، کورونا پر وفاق کچھ کررہا ہے نہ صوبائی حکومتیں، سب پیسے مانگ رہے ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد

کورونا پر وفاق کچھ کررہا ہے نہ صوبائی حکومتیں، سب پیسے مانگ رہے ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد


اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے انڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ کورونا پر وفاق کچھ کر رہا ہے نہ صوبائی حکومتیں،سب پیسے مانگ رہے ہیں، یہ کیسی ہیلتھ ایمرجنسی ہے ملک بھر کے اسپتال بند کر دیئے ، شوگر اور دل کے مریض کہاں جائیں؟ ہراسپتال، کلینک لازمی کھلا رہنا چاہیے۔

کورونا کے علاوہ تمام مریض اللہ کے آسرے پر چھوڑ دئیے، حکومت ڈیلیور نہیں کررہی، مختص کیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہو ئے؟تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہورہا، سارازورمفت راشن تقسیم کرنے پر ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں اور وفاق کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو وہ کچھ کر ہی نہیں رہا۔

عدالت عظمیٰ نےتفتان، چمن اور طورخم بارڈر پر2 ہفتوں میں قرنطینہ مراکز بنانے کا حکم بھی دیدیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان مندوخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ نے ہائی کورٹس کی جانب سے قیدیوں کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی کا نہیں بلکہ دیکھنا ہے کہ حکومت کورونا سے کس طرح نمٹ رہی ہے، صرف میٹنگ پر میٹنگ ہورہی ہے، زمین پر کچھ بھی کام نہیں ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں میں جا سکوں، وفاقی دارالحکومت میں تمام اسپتالوں کی او پی ڈیز بند کردی گئیں ہیں، ملک میں صرف کورونا کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ مجھے اپنی اہلیہ کو چیک کروانے کیلئے ایک بہت بڑا اسپتال کھلوانا پڑا، نجی کلینکس اور اسپتال بھی بند پڑے ہیں یہ ملک میں کس طرح کی میڈیکل ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ 

وزارت صحت نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے، کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے، کیا اس طرح سے اس وبا سے نمٹا جائے گا؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو رپورٹ جمع کروائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے کہ وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وفاق کچھ کر ہی نہیں رہا۔

جس پر اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے بتایا کہ ایک رپورٹ آج بھی جمع کروائی ہے، وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کررہا ہے۔چیف جسٹس نےایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سے استفسار کیا کہ شیریں مزاری نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے 32 سو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے؟

جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں وزارت انسانی حقوق کو غلط فہمی ہوئی ہے، پشاور ہائی کورٹ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی کیا اہلیت اور قابلیت ہے، بس روزانہ کی بنیاد پر ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی پروجیکشن ہو رہی ہے۔ 

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا وزارت دفاع سے کوئی عدالت میں آیا ہے، وزارت دفاع سے معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا عملی طور پر اقدامات نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی نے کرنا ہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ این ڈی ایم اے کے ذمہ چیزوں کا حصول اور انکی تقسیم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے وفاقی، صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ‏ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے اور لوگوں کو ہاتھ دھونے اور گھروں سے نہ نکلنے کا کہا جارہا ہے، تمام وزرائے اعلیٰ گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں۔

چیف جسٹس ‏نے کہا کہ صوبے کہہ رہے ہیں 10 ارب روپے دے دو، دستانے اور ماسک لینے ہیں، ‏سب کاروبار بند کردیئے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، چیمبر میں آپ کیا بتائینگے، ہمیں سب پتا ہے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ قرنطینہ مراکز میں ایک کمرے میں 10،10 لوگ رہ رہے ہیں، دو کمروں کے گھروں میں دس دس لوگ رہتے ہیں، لوگ 3،4 دن شکلیں دیکھیں گے پھر ایک دوسرے کو ہی کھانے لگیں گے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی حکومت نے سڑکوں پر اسپرے نہیں کرایا، مختص کیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے کچھ معلوم نہیں ساتھ ہی حکم دیا کہ کل تک عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کرائیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے بتایا کہ پنجاب کی ایک جیل میں کورونا وائرس کا مریض سامنے آیا ہے۔جسٹس قاضی امین احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں عوام کی زندگی اور تحفظ کا احساس ہے، قانون میں راستہ موجود ہے، جیل میں اگر متاثرہ شخص نہیں تو باقی قیدی محفوظ ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ جیلوں میں کتنے ملازمین ہیں جو روزانہ باہر سے آتے ہیں، اگر جیل میں متاثرہ شخص نہیں آئے تو باقی قیدی کیسے متاثر ہونگے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سنگین جرائم کے قیدیوں کو رہا کرنا کس طرح درست ہے؟اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا، تمام صنعتیں اور کاروبار بند پڑے ہیں، عدالت عظمیٰ حکم دیگی تو سب تعمیل کرینگے۔

تازہ ترین