وفاقی وزیر فواد چوہدری ہمارے لئے کوئی آئیڈیل نہیں ہیں، اُن کے خیالات اور کارکردگی کے حوالے سے اَن گنت لوگوں کو بےشمار اعتراضات ہیں۔ جب اُن کے پاس اطلاعات و نشریات جیسا اہم محکمہ تھا تب بھی وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بارہا لفاظی کا مظاہرہ کر جاتے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں بظاہر کم اہم خیال کیا جانے والا محکمہ سونپ دیا گیا لیکن انہوں نے اپنے تند و تیز بیانات سے یہ منوا لیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت ہر شعبۂ حیات پر حاوی ہے۔ اُن کی جگہ جس شخصیت کو لایا گیا، وہ اپنے پورے سیاسی وزن اور زور آزمائی کے باوجود ان جیسی کاٹ پیدا نہیں کر سکی۔ وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی نے وطن ِ عزیز میں کورونا وائرس کے پھیلائو کا راز کھول دیا ہے، فرماتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس رجعت پسند طبقے کی جہالت سے پھیلا ہے۔ ہمارے عوام کو چاہئے کہ وہ عالموں اور جاہلوں کے فرق کو جان کر جئیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ جو لوگ کورونا جیسی بیماری کو ﷲ کا عذاب قرار دیتے ہوئے ہمیں توبہ کی تلقین کر رہے ہیں، وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں کیونکہ ﷲ کا عذاب تو جہالت ہے اور اسی جہالت کی وجہ سے یہاں کورونا کی وبا پھیلی ہے۔
وزیر موصوف کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس جہالت کی ذمہ داری وہ کسی ایک طبقے پر عائد نہیں کر سکتے ہیں، اگر وہ سائنسی پیمانے کی کسوٹی پر حقائق کو پرکھیں تو اُن کے دائیں بائیں موجود اُن کے اپنے کئی ساتھی بھی اس وبا کے پھیلائو سے بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ ایران سے آنے والے لوگوںکی مناسب طور پر دیکھ بھال نہ کی گئی۔ یہاں درویش چین، امریکہ یا یورپ کی مثالیں پیش نہیں کرتا، اپنے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی مثال ہی ملاحظہ فرما لیں، سعودی حکومت نے عوامی مفاد میں ڈنکے کی چوٹ پر فوری سخت فیصلے کیے اور پھر اُن پر استقامت دکھائی۔ حرمین شریفین سے آگے تو اجاڑ ہے، کوئی سوچ سکتا ہے جب سعودی حکومت نے ہر دو مقدس مقامات کو مقفل کیا تو ساری مسلم دنیا کو کتنی تکلیف پہنچی ہو گی، اُن کی آہیں نکلیں مگر آفرین ہے اہلِ عرب پر، عربستان کے حکمرانوں پر، اُنہوں نے انسانی زندگیوں پر مذہبی جذبات کو کسی طرح حاوی نہیں ہونے دیا جبکہ ہم عجمی مسلمان شعور کی جگہ بھی جذبات کے حامل ہوتے ہیں۔ سعودی حکومت نے کورونا کے پھیلائو کی صورت میں حج جیسے بنیادی دینی رکن کی ادائیگی کو روک دینے کا عندیہ ظاہر کر دیا اور پاکستان سمیت تمام ممالک پر واضح کر دیا کہ 2020کیلئے حجاج کی خدمات رہائش اور ان کی نقل و حمل کے معاہدوں سے باز رہیں۔ اس وقت تک اس نوع کے معاہدے نہ کریں جب تک کورونا وائرس کی سمت کا تعین نہ ہو جائے، اس سلسلے میں آخری فیصلہ بہرحال حالات دیکھتے ہوئے خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان کریں گے۔ ارضِ مقدس میں اسلام کے تیسرے مقدس مقام قبلۂ اول کو نمازِ جمعہ اور پنجگانہ نمازوں کے لئے بند کیا گیا ہے تو کسی فلسطینی نے اس کے خلاف واویلا نہیں کیا، سب نے انسانی زندگی اور انسانی مفاد کو ہر چیز سے بالاتر تسلیم کیا ہے۔ ہمارے صدر صاحب مصری سفیر کی وساطت سے جامعہ الازہر سے باضابطہ فتویٰ حاصل کرتےہیں، شیخ الازہر علماکی سپریم کونسل کی مشاورت سے فتویٰ دیتے ہیں کہ انسانی زندگی کے تحفظ کی خاطر حکومت مساجد میں نمازِ پنجگانہ اور جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کی باجماعت ادائیگی منسوخ کر سکتی ہے اور اذان کے الفاظ میں ترمیم کرتے ہوئے ان الفاظ کو ڈال سکتی ہے کہ ’’الصلوٰۃ فی بیوتکم‘‘۔ ہمارے علما کو بھی سوچنا چاہئے کہ جس عمل سے بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو، اس سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔برادر اسلامی ملک ایران میں تو ایک مذہبی رہنما ہی کورونا کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے ہیں، اس لئے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ﷲ کا عذاب ہے، ﷲ کے عذاب کا تو بُری اقوام یا بُرے لوگوں پر آنے کا بیان کیا گیا ہے جبکہ یہاں نیک و بد سب اس کی لپیٹ میں ہیں۔ مسلمان، کافر، امیر، غریب، بچے یا بوڑھے کی کوئی تمیز نہیں ہے، لہٰذا ہمیں بیماریوں یا قدرتی آفات کا سائنٹفک تجزیہ کرتے ہوئے ان سے بچائو کی تدابیر کرنا چاہئیں۔
کورونا کے حوالے سے عالمی برادری کا انسانی رویہ قابلِ تحسین ہے، سب نہ صرف اپنے اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ دوسرے غریب ممالک میں موذی مرض کے شکار لوگوں کی مدد کے لئے فنڈز مخصوص کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں وائرس کے شکار خطوں میں آٹا چاول برائے نام قیمت پر مہیا کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے تو اس مقصد کے لئے 2کھرب ڈالر کی خطیر رقم رکھی ہے۔ انہیں اور عالمی اداروں کو چاہئے کہ وہ پاکستان جیسے غریب ملکوں کی بھی دل کھول کر مدد کریں یقیناً جس نے ایک جان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔