• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسعود عابدی

’’اُسامہ کچھ دنوں سے کافی گم صم تھا، کسی سے بات کرتا، نہ ڈھنگ سے کھانا کھاتا، نہ ہی دوستوں کے ساتھ کھیلنے باہر جا رہا تھا۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور گھر بھر کا لاڈلہ تھا، والد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے،والدہ ایک اسکول میںٹیچر تھیں۔ اُن دونوں نے اپنے بچوں کو ہر سہولت مہیا کی ہوئی تھی ، مگر تعلیم و تربیت کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ اُسامہ اور اس کے دونوں بڑے بھائی بھی پڑھائی میں بہت اچھے تھے، لیکن وہ دونوں بھائیوں میں سب سے زیادہ ذہین ،ہو شیار اورتمیز دار تھا، کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا کیا ، نہ بڑوں سے بد تمیزی ، یہ ہی نہیں بلکہ کھیل کود میں بھی سرگرم تھااور فٹ بال کا تو ، وہ دیوانہ تھا۔ کالج کی فٹ بال ٹیم کا کپتان بھی رہا،غرض کہ ہر کام میں آگے آگے رہتا، مگر جب سے اس کاانٹر کارزلٹ آیا تھا، تب سے وہ کچھ اداس رہنے لگا تھا۔ 

یہ بات گھر والوں کے ساتھ اس کے دوست بھی محسوس کررہے تھے، حالاں کہ انٹر کا امتحان اس نے اسّی فیصد نمبرز سے پاس کیا تھا ، مگراس کے باوجود وہ نا خوش تھا۔ اصل میں بات یہ تھی کہ، وہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں اپنا کیریئر بنانا چاہتا تھا، لیکن اس کے والد بہ ضد تھے کہ اسامہ انجینئرنگ کرے۔ اس نے انٹر تک تو، انجینئرنگ پڑھ لی ، لیکن نتیجہ آتے ہی اس نے گھر والوں سے ہمت کرکے کہا کہ وہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کر نا چاہتا ہے، یہ بات سنتے ہی اس کے والد ین سخت ناراض ہوئے اور آخری فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تمہیں انجینئرنگ ہی کرنی ہے۔والدین کے اس فیصلے نے اسے خاموش اور اداس کردیا، ظاہر ہے ، وہ ان سے بحث تو نہیں کر سکتا تھا، لیکن اس کا دل ہر چیز سے اُکتا گیاتھا۔‘‘

یہ صورت حال کسی ایک ’’اُسامہ‘‘ کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں ، تقریباً ہر گھر میں ایسی کئی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔کہنے کے لیے تو ہم ترقی یافتہ، آزاد معاشرےکا حصہ ہیں، جہاں ہر بچےکےپاس لیپ ٹاپ، ہاتھ میں جدید فون وغیرہ ہیں، جس پر وہ دن رات مصروف رہتے ہیں ، اس پر والدین بھی ان کی سرزنش نہیں کرتے، مگر اس ماڈرن دور میں آج بھی کئی ایسے گھرانے ہیں ،جہاں نوجوانوں کو ان کا من پسند شعبہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، ان کے لیے کیریئر کا انتخاب والدین ہی کرتے ہیں، پھر چاہے طالب علم کی اس مضمون یا شعبے میں دل چسپی ہو یا نہ ہو۔ نہ نسلِ نو بڑوں کو اپنی بات سمجھا پاتی ہے اور نہ بڑے ان کی بات سمجھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں نوجوانوں اور بڑوں کے درمیان ایک خلا ء پیدا ہو جاتی ہے، جسے ہم عرفِ عام میں ’’جنریشن گیپ‘‘ کہتےہیں۔یہ فاصلہ صرف مضامین یا شعبوں کے انتخاب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی باتیں ہیں، جو نئی اور پرانی نسل کے درمیان فاصلے بڑھانے کا سبب بنتی ہیں ۔ 

ویسے بے روزگاری اور مہنگائی ہی کی طرح یہ مسئلہ بھی ہمارے معاشرے میں برس ہا برس سے چلا آرہا ہے، ہر پرانی نسل کو نسلِ نو سے بہت سی شکایات ہوتی ہیں، بڑوں کو یہ لگتا ہے کہ، نوجوان ان کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، ان سے بد تمیزی و بد کلامی کرتے اور خود سر ہوچکے ہیں، جب کہ نوجوانوں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ بڑے ہماری بات سمجھنے ، سننے کی کوشش نہیں کرتے ، ہمیشہ اپنی ہی بات منواتے ہیں۔ ان ہی گلوں ، شکوؤں کے درمیان یہ فاصلہ کبھی کم نہیں ہوتا بلکہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ 

حالاں کہ مشاہدہ کیا جائے تو، غلطی کسی ایک کی نہیں بلکہ دونوں نسلوں کی ہے،جب ہم نئی نسل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مرا دشجر انسانی کے وہ خوب صورت پھول ہیں ،جو بچپن کی حدود سے گزر کر شعور کی منزلوں کو طے کر رہے ہیں،ان کا مسئلہ ایک نہیں کئی ہیں،مسابقت و اہلیت کے کڑے دور میں تسلسل سے آگے بڑھنا، سماجی و معاشی امتیازات،سیاسی کشیدگی، اخلاقی پست روی،درس گاہوں میں ملنے والی تعلیم اور عملی زندگی میں فرق،کم جیب خرچ اور معاشرے میں اپنی مخصوص پہچان بنانے کی جستجو وغیرہ وغیرہ شامل ہیں،جب ہم اس مسئلے کا گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں، تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ، بڑے دوربین سے حال و مستقبل کو دیکھتے، جب کہ دوسری طرف نوجوان حال کے خام مال سے مستقبل کی عمارت تخلیق کرنا چاہتےہیں، تجربہ کار نسل، اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں یہ کہتی ہے کہ زندگی گزارنا آسان کام نہیں ،اسے جینے کے لیےدانائی،بصیرت اور وسیع تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمارے پاس ہے، جب کہ پُر جوش نسل نو، زندگی برق رفتاری سے طے کرنا چاہتی ہے۔بڑوں کے لیےبچوں کی انا ،ضد اور من مانیاں پریشانی کا سبب ہیں ،جب کہ نوجوانوں کے لیے بڑوں کی جانب سے لگنی والی پابندیاں،بے پناہ نصیحتیں انتشار کی وجہ بنتی ہیں۔

کیا واقعی نئی نسل اپنے اسلاف کے آدابِ زندگی کو فراموش کرکے اغیار کی ثقافت میں روپوش ہورہی ہے یا پھر بڑے اپنے فرائض میں غفلت اور ناقص حکمتِ عملی پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسے مفروضے قائم کرتے ہیں ؟ہمارے خیال میں اس کی ایک، بنیادی وجہ خاندان کے ارکان کا اپنی ذاتی زندگیوں میں ضرورت سے زیادہ مصروف رہنا ،سارا دن والد روزگار اور والدہ گھر کے کام کاج، ٹی وی اور موبائل فون میں ،بچے حصول ِتعلیم کی دوڑ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ میں مگن رہتے ہیں۔ ان حالات میں گھروالوں کو درپیش معمولی اور بڑے مسائل کو کیسے نمٹایا جاسکتاہے، روازانہ کھانے کے دستر خوان پر ممکن نہ ہو سکے تو کم از کم مہینے میں تعطیلات پر ایسی غیر رسمی تبادلہ خیال کی نشست سجائی جائے ،جس میں گھر کے نوجوانوں کو شرکت و اظہارِ خیال کا موقع ملے۔

پہلے زمانے میں کم از کم رات کے کھانے پر گھر کے ہر فرد کی موجودگی یقینی ہوتی تھی، جس میں گھر کے بزرگ یا بڑے، بچوں سے ان کی تعلیمی ، سماجی سر گرمیوں یا مسائل کے بارے میں دریافت کرتے ، اپنے تجربات شیئر کرتے اور ہلکے پھلکے انداز میں انہیں نصیحت کرتے تھے، مگر آج زیادہ تر نوجوان تعلیمی معاملات یا دوستوں کے ساتھ دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے اکثر کھانے کے وقت غائب ہوتے ہیں، اگر اُس وقت موجود ہوں بھی، تو نظریں موبائل فون کی اسکرین پر جمی ہوتی ہیں اور نسلِ نو سے کیا گلہ کریںاب تو یہ حال ہے کہ خاندان کے بڑے بھی موبائل فون پر ہی مصروف رہتے ہیں۔

کہنے کے لیے نئی اور پرانی نسل کے درمیان ، جو فاصلہ ہے اسے کم کرنا انتہائی مشکل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم تھوڑی سی کوشش کریں ، تو یہ فاصلہ بآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔آج کل لگ بھگ ہر بزرگ کی زبان پر یہ شکوہ ہوتا ہے کہ، گھر کے بچے انہیں وقت دیتے ہیں، نہ ان کی بات سنتے ہیں، بس ہر وقت پڑھائی، دوستوں یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر مصروف رہتے ہیں، ان کا یہ گلہ کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ تعلیم پہلے کے لوگ بھی حاصل کرتے تھے، دوست وہ بھی بناتے تھے اور اس نسل سے زیادہ سوشل بھی ہوتے تھے، مگر ان سب چیزوں کے درمیان ان کا خاندان یا والدین کبھی نظر انداز نہیں ہوتے تھے۔ 

یہ بات درست ہے کہ ہر دور کے طور ، طریقے الگ ہوتے ہیں لیکن ہماری بنیاد ہمارا خاندان، گھر ہے، جسے فراموش کر کے کبھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔دوسری طرف بڑوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ،یہ نیا دور ہے ، جس میں نوجوانوں کو سختی یا ڈانٹ ڈپٹ سے نہیں بلکہ دوست بن کر، پیار ، محبت سے سمجھایا جا سکتا ہے،اگر وہ ان پر بے سختی کریں گے یا اپنے فیصلے ان پر تھوپنے کی کوشش کریں گے تو ، اس کے منفی نتائج ہی برآمد ہوں گے۔

تازہ ترین