محمد فاروق دانش
کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں تہذیبی اقدار کی موجودگی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان اقدار کی آب یاری میںدیگر شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے جس کے لیے بہتر تعلیمی نظام کا ہونا اولین شرط ہے،کیوںکہ اچھی تعلیم و تربیت ہی کسی قوم کی ترقی کا سبب ہوتی ہے۔ اگر خواندگی کی شرح بہتر نہ ہواور معاشرہ پڑھے لکھے افراد سے مزین نہ ہو تو اچھے اخلاق، عمدہ کارکردگی اور بہتر نتائج کی امیدکرنا عبث ہوگا،اس ضمن میں ہمیں اپنے گرد وپیش کا بھی حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوگااور دیکھنا ہوگا کہ آیا بحیثیت قوم ہم نے اپنی ملی ذمے داریاں پوری کی ہیں یانہیں ،اور یہ کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہماری مفید اور موثر حکمت عملی کو بھی بے اثر کرتے اور ترقی و خوش حالی کے اصل ثمرات سے محروم کیے ہوئے ہیں۔ہمیں اپنے کل کو مفید بنانے کا پورا پورا حق حاصل ہے ،اس مقصد کے حصول کی ذمے داری کسی ایک فرد یا شعبے پر عائد نہیں کی جاسکتی مگر چوںکہ شعبہ تعلیم کا کردار سب سے اہم ہے اس لیے اسی شعبے میں ہونے والے کام پر بات کی جائے تو بہتر ہوگااور مفید حکمت عملی ،تہذیبی اقدار کے فروغ کوکام یابی سے ہمکنار کر سکتی ہے ۔
ہمیں آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے مدت ہو گئی لیکن اسے بد قسمتی سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ اتنی طویل مدت گزرنے کے باوجود اب تک ہم کسی واضح حکمت عملی اورتعلیمی سمت کا سرے سے تعین ہی نہیں کر سکے،وطن عزیز کے ہر صوبے میں الگ انداز کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے ،درسی کتب الگ الگ ہیں اور تو اور پڑھانے کے اندازو طریقے بھی مختلف ہیں۔ سرکاری اور نجی ادارووں کے نصاب کو لیں تو اس میں بھی بے حد وحساب تضادات موجود ہیں۔ متفرق نصاب تعلیمی اداروں کی کار کردگی کو بھی متاثر کر رہا ہے،طلبہ میں پیدا ہونے والی بے چینی اور اساتذہ کی بے یقینی دور کرنے کے لیے بھی نجی اداروں میں کوئی موثر فارمولا لاگو نہیں ۔ سب کی اپنی اپنی راگنیاںہیں جو وہ مزے سے الاپ رہے ہیں۔دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے کی ناقص کار کردگی کا بھی کوئی کوئی پرسان حال نہیں اورنہ مسائل کے حل کے اقدامات دیر پا ثابت ہوتے ہیں۔ہر طرح کی خرابیوں کی کسی سے کوئی باز پرس بھی نہیںکی جاتی۔
شعبہ تعلیم پر اٹھنے والے سوالات اور مختلف ادوار میں پیدا ہونے والی صورت حال اس بات کو ظاہر کر تی ہے کہ پاکستان میں مختلف سالوں میں نوجوانوں کے تعلیمی رحجانات میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ اس میں بہرحال وقت اور حالات کی موافقت کا دخل ہونا بھی از بر ہے لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کے لیے تعلیمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور درست تعلیمی رحجانات کی سمت کا تعین کرانے کا کوئی بہتر اور مستقل سلسلہ یاتو سرے سے موجودہی نہیںیا پھرطلبہ کو مخصوص وقت پر محض درسی کتب کا علم دے کر گھر روانہ کر دیا جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ ان کے لیے بہت مناسب اور کافی ہے۔
والدین اپنے بچے کو اپنی سمجھ کے مطابق ایک خاص شعبہ اختیار کرنے کا کہہ کر اسی کا پابند کردیتے ہیں اور وہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی محض مجبوری سمجھ کر اسی محدود تعلیمی عمل کا حصہ بن جاتا ہے جو اس کی نظر میں غیر اہم اور بے معنی تھی،اس کا فائدہ نہ تو شعبہ تعلیم کو ہوتا ہے اور نہ ہی طلبہ کو ،بچوں کو اپنی ذہنی صلاحیت کی بنیاد پر موثر گائیڈ لائن بھی نہیں مل پاتی ،اسے اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ، مستقبل میں اسے کس شعبے میں اور کس انداز میں اپنا ملّی کردار ادا کرنا اور قوم و ملک کے لیے بے مثل کاوشوں پر مبنی مفید ان مٹ نقوش چھوڑنا ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے بچوںکے مزاج اورطبعی ر حجانات سے ہم آہنگ ہو کر ان کے بہتر مستقبل کے لیے بروقت اور درست فیصلے کرسکیں،نظر غائر سے دیکھا جائے تو بحیثیت قوم اپنی ملی ذمے داریوں سے من و عن بہرہ مند نہیں ہو رہے ، ہماری نظر میں جو کام بہت اچھا اور ٹھیک ہوتا ہے وہی ہمارے لخت جگر کے لیے ناپسندیدہ،غیر ضروری اور بورنگ ہوجاتا ہے ، پھر جب وہ فیلڈہی اس کے لیے ناپسندیدہ ہے تو ہم زور زبردستی کرکے اور اسے اس سے نتھی کرکے کون سی نیکی سرانجام دے رہے ہیں،بچوں کی ذہنی اپروچ ،اساتذہ ،والدین اور دیگر متعلقہ افراد پر واضع ہونا اور اسی پیرائے میں درست حکمت عملی مرتب کیا جانا بے حد ضروری ہے۔تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تواکثر عظیم المرتبت شخصیات ،مثالی تعلیمی نظام کے مرہون منت نہیں تھیں وہ منتخب شعبہ جات میں اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے مستقل کام یابیوںسے ہم آہنگ ہوئے اور تاریخ میں ان کے کارنامے بے مثل بن گئے۔ان میں ہم ملکی اور غیر ملکی نابغہ روزگار کئی شخصیات کے نام مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
ایک اور قابل افسو س امر یہ ہے کہ ابتدا ہی میں نوجوانوں میں یہ بھیڑ چال چل رہی تھی کہ ہر ایک ڈاکٹر اور انجینیر کے سوا کچھ اور بننے کے لیے رضامند ہی نہیں تھا لیکن جلد ہی سب کو اس بات کا احساس ہوگیاکہ سب کا ڈاکٹر اور انجینیر بننا ضروری نہیں،متفرق شعبہ جات ایسے ہیں جہاں ان کی ضرورت ہے اور انھیں اس طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔وقت اور حالات نے پلٹا کھایا تو کہیں نوجوانوں نے کامرس کی تعلیم کی طرف رجوع کیا تو کہیں کمپیوٹر سائنس اہمیت اختیار کرگئی،اور طلبہ اپنی مرضی کے شعبے منتخب کرنے لگے اس کا فائدہ تعلیمی ماحول کو ہوا اور طلبہ میں مقابلے کے رجحانات بھی بڑھ گئے ،دیگر شعبوں میں مثالی کام یابیاں ہونے لگیں تو نوجوانوں میں آئی ٹی کے بارے میں بھی عمدہ رحجان پیدا ہوا اور اہل طلبہ نے صرف ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی کام یابی کے جھنڈے گاڑدیے،یہ سب اس صورت میں ہوا جب ان کے لواحقین نے ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کی اور ان کا دم بہ قدم ساتھ دیا۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ نوجوانوں میںان کے مفید تعلیمی رحجانات جانچنے کے لیے کون سا پیمانہ مقرر کیا جائے۔ سلسلہ یہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں روایتی طریقہ تعلیم برسوں سے اپنایا جا رہا ہے اور اس میں تبدیلی کے بارے میں سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا ۔ حالاں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسکول کی سطح سے ہی ایک آدھ پیریڈ یا ہفتے میں ایک دن ایکٹیویٹیز کا ہونا چاہیے جس میں کتابی عمل کے بجائے طالب علموں کے ساتھ رسمی تعلق پیدا کیا جائے۔خوش گوار ماحول میں ان کی بات سنی جائے اور حیران کن کام یابیوں کی جستجو کے ساتھ ساتھ دور جدید کی نئی جہتوں کے بارے میں گفت گو کی جائے،ن سے یہ پوچھاجائے کہ تعلیمی میدان میں وہ کیا کر سکتے ہیں ، کیا جانتے ہیں اور آیندہ کیا کرنے والے ہیں؟ان سب کے بارے میں نہ صرف سیر حاصل بات چیت کی جائے بلکہ انھیں مستقبل میں پیش آنے والے خطرات اور بہتر نتائج دونوں سے آگاہی دی جائے اور اس کی درست سمت کے تعین میں بھر پور مدد بھی کی جائے۔
اسی طرح کالجوں میں بھی روایتی طریقے سے ہٹ کر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا ہرنوجوان اپنے بہتر مستقبل کی طرف گام زن ہو سکے۔ ہمارے سرکاری اداروں میں اہل پڑھے لکھے افراد موجود ہیں جو درس وتدریس کے فرایض انجام دے رہے ہیں،لیکن سرکاری سطح پر پزیرائی کا کوئی ایسا انصرام نہیں کہ بہت اچھے اور لایق اساتذہ کی شمولیت سے طالب علموں کے لیے ایسا فریم ورک بنایا جائے کہ وہ محض کتابی کیڑے بننے کے بجائے اپنے آپ کو موجودہ دور کے درپیش چیلینجز کامقابلہ کر سکیں۔