پاکستان ٹیلی وژن کے شاہ کار ڈرامے دُھوپ کنارے، اَن کہی، تنہائیاں، سمندر، سونا چاندی، اندھیرا اُجالا، وارث، نشیمن، الف نون وغیرہ دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔مذکورہ بالا ڈرامے ہوں یا سُنہرے دن، الفا براوو چارلی، پیاس، اَنا، عروسہ، شمع، یہ سب ڈرامے کئی بار بھی دیکھ لیں تو دِل نہیں بھرتا۔ حسینہ معین کا سیریل تنہائیاں ہم نے کم از کم بارہ سے پندرہ مرتبہ تو ضرور دیکھا ہوگا۔ یہ ڈراما آج کل پی ٹی وی گلوبل پر دوبارہ نشر ہو رہا ہے اور فیس بُک پر اس کی تشہیر جاری ہے۔ ڈرامے کی تشہیر کے لیے مرینہ خان بہ طور سنیعہ کی تصویر لگائی گئی ہے، جب کہ اِملا کی بے شمار غلطیاں بھی موجود ہیں۔ ہمیں اِملا کی غلطیوں سے کیا لینا، ہم تو شوخ و چنچل سنیعہ کو دیکھ کر ہی خوش ہوگئے۔ اگرچہ مرینہ خان نے تنہائیاں سے قبل راشد منہاس شہید ڈرامے میں کام کیا تھا، مگر جیسی شہرت انہیں سنیعہ کے کردار سے ملی، اس کی مثال نہیں ملتی۔
80 کی دہائی کا ڈراما تنہائیاں آج بھی اتنا ہی مقبول ہے، جتنا پہلے تھا اور اس ڈرامے کے کردار بھی۔ شاید اُس زمانے میں رائٹر کردار تخلیق کیا کرتا تھا اور فن کار اس کو حقیقت کے قالب میں ڈھالتے تھے، اب مرینہ خان چاہیں جتنے ڈراموں میں جلوہ گر ہو جائیں، لوگ انہیں تنہائیاں کی سنیعہ کے حوالے سے ہی پہچانتے ہیں۔ یہی حال قباچہ کا ہے۔ بہروز سبزواری بڑے منجھے ہوئے فن کار ہیں، ہم نے اُن کے ساتھ کافی ڈراموں میں کام کیا ہے، جن پر ضرب تقسیم، وقت کا آسمان اور انتظار حسین کا تحریر کردہ شاہ کار ’’خوابوں کے مسافر‘‘ شامل ہیں۔
بہروز سبزواری نے بہت کام یاب سیریل میں کام کیا، خدا کی بستی، اَن کہی، اور میرا نام منگو وغیرہ، مگر تنہائیاں کا ’’قباچہ‘‘ تو بس ایسا سپرہٹ ہوا کہ عمر گزر گئی، مگر لوگوں کو بہروز سبزواری بہ طور قباچہ ہی بھایا اور خُوب بھایا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے مشہور ڈراما جس نے طنز و مزاح کے حوالے سے تاریخ رقم کی تھی ’’الف نون‘‘، اس کے سپر ہٹ کردار ’’الّن‘‘ یعنی کمال احمد رضوی اور ننھا ایسے عظیم الشان کردار ہیں ، جنہیں لوگ اُن کے انتقال کے بعد بھی انہی کرداروں کے حوالے سے یاد رکھتے ہیں۔ کمال احمد رضوی جنہیں، لوگ اصل نام کے بجائے، الّن کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے اور بھی بہت ڈراموں میں کام کیا، لیکن الّن کی چھاپ ایسی گہری اور پکی تھی کہ بس لوگوں کو الف نون کا الّن ہی یاد ہے۔ فن کاروں کو اُن کے اصل نام کے بجائے ڈراموں میں اُن کے کردار کے نام سے پہچان ملنا ایک کمال ہے۔ ایسی ایک مثال ہمارے سامنے اطہر شاہ خان کی ہے ، جنہیں دُنیا ’’جیدی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ انتظار فرمایئے، جیدی اِن ٹربل، ہائے جیدی اور جیدی کے نام سے بننے والے دیگر ڈرامے، ہر ایک میں ’’جیدی‘‘ ایسا چھایا کہ یہ نام ’’جیدی‘‘ اب اطہر شاہ خان کے نام کا لازمی لاحقہ ہے۔
اُن کا نام جیدی کے بغیر نامکمل ہے۔ اطہر شاہ خان جیدی صف اوّل کے اداکار اور لکھاری ہیں۔ ہمیں اُن کے ساتھ بہت سے ڈراموں میں کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ جیدی سیریز کے تو کافی ڈرامے ہم نے بھی کیے ہیں،لیکن یہاں ہم ان کے دو مشہور ڈراموں کا تذکرہ کریں گے، جنہیں انہوں نے تحریر کیا۔ ایک تو بااَدب باملاحظہ ہوشیار اور دُوسرا رفتہ رفتہ۔ بااَدب باملاحظہ ہوشیار میں قاسم جلالی، شہزاد رضا، ملک انوکھا، یعقوب زکریا، سبحانی بایونس، ساجدہ سیّد اور ہمارے علاوہ ہمایوں بن راتھر نے بھی کام کیا۔ معروف کامیڈین حنیف راجا ٹیلی وژن اسکرین پر پہلی بار اسی ڈرامے میں نظر آئے تھے۔ اطہر شاہ خان کا دُوسرا سیریل رفتہ رفتہ، جس میں معین اختر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، انتہائی مقبول ڈراما تھا۔ یہ دونوں سیریل عوام میں پسند کیے گئے، لیکن اطہر شاہ خان کا تشخص جیدی ہی رہا۔
ہمیں اس وقت جمشید انصاری یاد آرہے ہیں، انہوں نے اپنے فنّی کیریئر میں بے شمار ڈرامے کیے، اَن کہی، تنہائیاں، حسینہ عالم، اور اَنکل عرفی ان کے یادگار ڈرامے ہیں۔ ہم نے اُن کے ساتھ بجیا کا لانگ پلے ’’حسینہ عالم‘‘ اور ایک اسٹیج ڈراما بھی کیا تھا۔ جمشید انصاری نے اپنی جان دار اداکاری سے اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں، اُن کا کردار ’حسنات بھائی‘ ایسا خُوب صورت تھا کہ بلیک اینڈ وائٹ کے زمانے کا ڈراما اَنکل عرفی آج بھی دل پر نقش ہے۔ حسنات بھائی کا تکیہ کلام ’’چقّو ہے میرے پاس‘‘ سبھی کو خوب یاد ہے۔سمجھ میں نہیں آتا، کس کس کردار کا ذکر کریں، اَن کہی کی ثنا مراد یعنی شہناز شیخ، اَن کہی کے ماموں یعنی سلیم ناصر، آنگن ٹیڑھا کے چوہدری صاحب ارشد محمود، آنگن ٹیڑھا کا اکبر، سلیم ناصر، اسی ڈرامے میں ہمشیرہ کا کردار ادا کرنے والی دُردانہ بٹ، تنہائیاں کی آنٹی بدر خلیل، جو بی جمالو کے مرکزی کردار میں بھی ہٹ ہوئیں۔
وارث کا چوہدری حشمت یعنی محبوب عالم، اندھیرا اُجالا کا ڈائریکٹ حوالدار عرفان کھوسٹ، دبئی چلو کا معصوم و مظلوم کردار علی اعجاز، سونا چاندی شیبا بٹ اور حامد رانا، دُھوپ کنارے کا ’ڈاکٹر عرفان‘ ساجد حسن، اَنا کی ہیروئن اَنا، مہرین الٰہی، ان سب کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے، اداکاروں اور کرداروں کی جنہوں نے ڈراموں کو زندہ جاوید بنا دیا۔ اکا بوا بیگم خورشید مرزا، حلیمہ یعنی عشرت ہاشمی، ظہور احمد بہ طور چنگیز خان، ایم وارثی بہ طور قمرو کھوتا گاڑی والا ڈراما جانگلوس، خورشید شاہد بہ طور استانی راحت، عارفہ صدیقی بہ طور مکھی ڈراما سمندر، طلعت حسین بہ طور عالی جاہ ڈراما کشکول، اعجاز اسلم بہ طور روشو ڈراما کشکول، بشریٰ انصاری بہ طور صائمہ چوہدری، ہما اکبر بہ طور سُکھاں ڈراما کاروان، شگفتہ اعجاز بہ طور اُلفت ڈراما آنچ اور آفتاب عالم بہ طور جانو جرمن ڈراما چھوٹی سی دُنیا، یہ سب وہ لازوال کردار ہیں، جنہیں رائٹر نے سوچا اور اسکرپٹ میں لکھا، مگر ان میں جان اداکاروں اور ہدایت کاروں نے ڈالی۔ ڈراما تو آج بھی بن رہا ہے اور بہت بن رہا ہے، بہت سارے چینلز پر 24 گھنٹے ڈراما ہی ہو رہا ہے، مگر کتنے ڈرامے ایسے ہیں، جن کے کردار اَمر ہوگئے ہوں؟ لکھنے والے لکھ رہے ہیں، فن کار برادری کام بھی کر رہی ہے، معاوضہ بھی منہ مانگا مل رہا ہے اور خُوب مل رہا ہے، پھر کیوں لازوال کردار تخلیق نہیں ہو رہے؟ ایسا نہیں کہ کہانی، کردار، فن کار، ہدایت کار یا مصنف قابل تعریف نہیں، اچھا کام ہو رہا ہے، مگر ویسا نہیں ہو رہا، جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
آج کل چند فن کار ہیں، جنہوں نے اپنے کرداروں کو دوام بخشا، ہم برملا اُن کی تعریف کریں گے۔ حنا دل پذیر نے مومو کے کردار کو ایسا نبھایا کہ سبحان اللہ۔ حنا دل پذیر بہت اچھی اداکارہ ہیں، ہر کردار میں خود کو ایسا ڈھال لیتی ہیں کہ اصل کا گمان ہوتا ہے، چاہے قدوسی صاحب کی بیوہ ہو یا رُوح افزا، انہوں نے ہر کردار میں خود کو منوایا ہے اور بھی کئی فن کار ہیں، جو اپنے کردار میں ڈھل جاتے ہیں مثلاً صبا قمر، سجل، مائرہ خان، سوہاے ابڑو، آمنہ شیخ، صنم سعید، علی کاظمی، عمران اشرف ہمایوں سعید یہ سب مایہ ناز فن کار ہیں۔
آخر میں ’’شہ زوری‘‘ یعنی نیلوفر عباسی کو خراج تحسین، کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن ’’میں بہت بری آدمی ہوں‘‘ ہمیں نہیں بھولا، وقت تو گزر جاتا ہے، لیکن جو کلاسیک ڈرامے ہیں، اُن کی مقبولیت میں کمی نہیں آتی، آج بھی پرانے ڈراموں کو وہی قدر و منزلت حاصل ہے، جو ماضی میں تھی۔ اس کی وجہ شاید ریٹنگ کا نہ ہونا تھا۔ پہلے اس بلا سے ہمارا ڈراما آزاد تھا ، لیکن موجودہ دور میں اس کے چنگل سے نکلنا شاید اتنا آسان نہیں۔ اُمید ہے کہ آنے والے دِنوں میں ہمارا ٹی وی ڈراما اُس بلند مقام کو پہنچ جائے گا کہ جہاں کبھی ہوا کرتا تھا۔