• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرونا وائرس یا کووِڈ۔19کی ہلاکت خیزی دنیا بھر میں جاری ہے۔جو افراد اس سے متاثر نہیں ہوئے ہیں وہ اس کے خوف میں جی رہے ہیں۔یہ خوف حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ یہ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اورپاکستان سے لے کر امریکا تک، متاثرہ افراد اور اس سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جانے والے افرادکی تعداد میں روز بہ بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم ہے۔ 

لاک ڈاؤن کے باعث سڑکیں اور گلیاں، شہر اور میدان اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہے ہیں۔جہاں کبھی زندگی رقص کرتی تھی اب وہاں کچھ دنوں سے ہُو کا عالم ہے۔جہاں کی سڑکوںپر کئی کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام رہتا تھا وہاں اب ویرانی ہے۔ ہر طرف اداسی اور پریشانی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ لوگوں میں پریشانی، اضطراب اور ڈپریشن کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آ رہاکہ وہ کیا کریں اور کہاں جائیں۔

چڑ چڑاپن،اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے

کرونا وائرس کے معاشرتی اثرات کے ساتھ اس کے نفساتی اثرات یہ ہیں کہ دنیا بھرسے یہ خبریں آرہی ہیں کہ لوگ چڑ چڑے، جھگڑالو ،پریشان اور مضطرب ہو رہے ہیں۔بہت سے افراد اس وجہ سے سر درد اور نیند نہ آنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ بعض افراد یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کرونا آیا ہے ان کی بھوک اور نیند ختم ہو گئی ہے۔ایسے حالات میں کچھ مایوسی اور نا امیدی تو انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ لیکن جب یہی مایوسی اور ناامیدی آپ کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرے تب آپ کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق جذبات اور ہیجانات انسانی جسم پر بہ راہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے ذہنی و جذباتی عوامل انسانی جسم کو متاثر کرتے ہیںجن میں بہت زیادہ فکر مندی و تشویش سے معدے کا السر ،خوف و صدمے کی وجہ سے کم زور ی اور غشی ،ذہنی تناؤ کے سبب سردرد ، بہت زیادہ پریشانیوں سے انسان کی جنسی صلاحیتوں پر منفی اثرات، بہت زیادہ غصے میں ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ ، بہت زیادہ فکر مند ی کی وجہ سے جِلد پر جھریاں اور بال وقت سے پہلے سفید ہو جانا اور نظام ہضم کے بگاڑ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ انسان کے ذہنی و جذباتی عوامل اس کے جسم پر اثر انداز ہو کر بہت سے پے چیدہ ذہنی ، جسمانی و نفسیاتی امراض پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ایسے افراد جو تھوڑی سی بیماری سے بہت زیادہ پریشان ہو کر اس بیماری کو ذہن پر مسلط کر لیتے ہیں وہ دیر سے صحت مند ہوتے ہیں ۔لیکن ایسے افراد جو بیماری کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتے وہ بہت جلد یا بعض اوقات بغیر کسی دوا کے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماری کو ذہن پر سوار کرنے سے قوتِ مدافعت کم زور ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم صحت مندی کی طرف راغب ہونے میں دیر لگا دیتا ہے۔تاہم اگر بیماری کوخود پر مسلط نہ کیا جائے تو قوتِ مدافعت مستحکم رہتی ہے اور بیمار جسم جلد ٹھیک ہو جاتا ہے۔

ذہنی و نفسیاتی صحت برقرار رکھنے کے چند راہ نما اصول

چوبیس گھنٹوں کے دوران آٹھ گھنٹے کی نیند لازمی لیں تاکہ دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو سکے اور جسم و دماغ کھوئی ہوئی توانائی بحال کر لیں۔کھانا آرام و سکون سے کھائیں۔ غصہ، حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں۔غصے کے دوران ہمیشہ ضبط سے کام لیں۔ لوگوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی سے ملیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں۔ 

اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں۔ چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں۔لالچ ، حرص و ہوس سے گریز کریں۔ہر قسم کے نشے سے دور رہیں۔احساسِ کم تری کو کبھی اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں اور مراقبہ یعنی خاموشی ویک سوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت ڈالیں جو ذہنی و جسمانی صحت کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے شہریوں کی صورت حال اچھی نہیں ہے اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اسی وجہ سے ملک میں خود کشیوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے ۔ ملک میں غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اورخاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بے یقینی اور عدم تحفط کا بڑھتا ہوا احساس لوگوں میں پہلے ہی اضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا باعث بنتا جا رہاتھا جو لوگوں کی جسمانی ، ذہنی و نفسیاتی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔اب یہ وائرس مسئلے کو مزید پے چیدہ بناسکتا ہے۔لیکن یاد رکھیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر اْمید اور مثبت انداز اختیار کریں۔ واہمے اور نااْمیدی انسان کو کم زور کر دیتی ہے اور کم زور انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے ۔ یہ حالت مسلسل رہے تو آخر کار انسان ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے بھی روگ بن جاتا ہے۔

صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن ضروری ہے

ہمیں یہ سنہری قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیےکہ صحت مند جسم کے لیے صحت مند ذہن کا ہونا ضروری ہے۔ ایسی بے شمار بیماریاں جیسے سردرد‘ حافظے کی کم زوری‘ ذہنی تھکن‘ بصارت کی کم زوری‘ ہکلانے کی عادت‘ ذہنی تناؤ ، دباؤ‘ احساسِ کم تری یا اس طرح کی دیگر بیماریاں جو ذہنی و نفسیاتی ہوتی ہیں، لیکن ان کی طرف سے لاپروائی برتی جاتی ہے جو بعدمیں جسمانی عوارض کا باعث بن کر کئی پے چیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔ اس لیے اگر ایسے امراض کا علاج کرنے کے لیے منفی نفسیاتی عناصر کا تدارک کیا جائے تو جسمانی بیماریاں خودبہ خود دم توڑنے لگتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں عمومی طور پر لاحق ہونے والے ذہنی و نفسیاتی امراض میںاینگزائٹی ،فکر، تشویش‘ اعصابی دباؤ‘ احساسِ کم تری‘ اعصاب زدگی‘ الزائمر‘ تنہائی پسندی، بے خوابی وکم خوابی، بسیار خوابی اور خراٹے لینا ، نیند کے دوران سانس کا رکنا، پاگل پن، پارکنسن ،رعشہ، حسد، حافظے کی کم زوری، خوف کا فوبیا، خود اعتمادی کا فقدان، خیالات کا تسلط اور تکرارِ عمل ، ڈپریشن ،افسردگی ، ذہنی اضمحلال، بائی پولر ڈس آرڈر، ذہنی تناؤ اور دباؤ، سردرد اور دردِ شقیقہ، شیزوفرینیا، فرسٹریشن ، احساسِ محرومی، فالج و لقوہ، مرگی، وہم اور ہسٹیریا وغیرہ شامل ہیں۔کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال ان میں اضافے کا باعث سکتی ہے۔

اپنی فکر درست رکھیں

نفسیاتی پے چیدگیوں کی علامات دراصل جسمانی اعضا اور ان کی کارکردگی کے بجائے زیادہ تر مریض کی فکر ، احساسات اور رویوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوناکچھ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تاہم ذہنی امراض کے بارے میں عام مغالطے ان مسائل میں مبتلا افراد پر بڑا ظلم ڈھاتے ہیں۔جدید میڈیکل سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ دماغ میں موجود اعصابی خلیے سیروٹونن، آکسیٹوسین اور ڈوپامین نامی کیمیائی مادے بناتے ہیں جن کی متوازن مقدار انسان میں اطمینان، خوشی، تحریک اور جوش جیسے جذبات کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف عوامل کے باعث اگر ان مادوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو انسان بے چینی، اداسی یا گھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور ان ہی کیفیات کو طبی زبان میں اینگزائٹی اور ڈپریشن کہا جاتا ہے۔

سجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات روز مرہ زندگی میں تشویش، غم یا خوف کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے کے باوجود ان رطوبتوں میں عدم توازن کے سبب بھی انسان ان سب کیفیات میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ایسے موقعوںپر ماہر نفسیات سے کونسلنگ، ورزش، طرز زندگی میں تبدیلی اور سوچ کو مثبت رکھنے کی عملی مشقوں سے انسان پھر سے ہشاش بشاش ہو جاتا ہے۔ اگر ان کوششوں سے افاقہ نہ ہو تو کسی ماہر ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کے استعمال سے بھی عصبی کیمیائی مادوں کی مقدار میں توازن پیدا ہو جاتا ہے اور مریض چند ہفتوں میں بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔لیکن اتنے سادہ سے مسئلے کوہمارےیہاں اتنا الجھا دیا جاتا ہے کہ متاثرہ شخص کی زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اینٹی اینگزائٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو نشے کا عادی بنانے والی ادویات قرار دے کر ان سے ہر صورت دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور مریض کو منفی سوچوں سے باہر نکالنے کے نام پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں لوگ تواتر سے متاثرہ شخص کی سماعتوں پر الفاظ کے ایسے کوڑے برساتے رہتے ہیں جو ان کے نفسیاتی مسائل مزید پے چیدے بنادیتے ہیں۔ اس بات کا احساس کیے بغیر کہ جیسے خون میں شکر کی مقدار معمول سے بڑھ جائے تو اسے شوگر کا مرض ہو جاتا ہے، ویسے ہی دماغ میں مخصوص کیمیکل بڑھ جانے سے ذہنی بیماریاں ہو سکتی ہیں جن میں مبتلا ہونا یا ان سے صحت یاب ہونا مریض کی اپنی مرضی اور مزاج پر منحصر نہیں ہوتا۔نفسیاتی مسائل کے حل اور عبادات کے باہمی تعلق کے ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خالق کی طرف جھکاؤ اور اس کا ذکر بلاشبہ دلوں کو اطمینان بخشتا ہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بیماری کا دوا سے علاج کرنے کی تعلیم مذہب بھی دیتا ہے۔

عام رویّے،خاص توجّہ

ذہنی دباؤ، تفکر، اداسی اور معمولات زندگی میں عدم دل لچسپی بہت نارمل انسانی رویے ہیں۔ بلکہ ا سٹریس اور اینگزائٹی جیسی کیفیات انسان کو کسی بھی خطرے کی صورت حال کا سامنا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم ماہرین نفسیات کے مطابق اگر ان علامات کا دورانیہ طویل جائے اور شدت اتنی بڑھ جائے کہ باہمی تعلقات اور روزمرہ معمولات متاثر ہونے لگ جائیں تو پھر انہیں ایک بیماری کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔عالمی سطح پر طب کا شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے۔ بہ حیثیت قوم میڈیکل سائنس کی اس ترقی میں تو ہم نے آج تک دو کوڑی کا کردار بھی ادا نہیں کیا۔لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ دوسروں کی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر ذہنی صحت کےبارے میں اپنے مغالطوں کو ہی درست کر لیں۔ شاید اس سے نفسیاتی الجھنوں کے شکار حساس لوگوں کی زندگیوں میں کچھ آسانی پیدا ہو جائے۔

کرونا اور نفسیاتی مسائل

نفسیات کے ماہرین نے کرونا وائرس سے ممکنہ طورپر پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کچھ یوں بیان کیے ہیں:

مسلسل ہاتھ دھونے سے اور بار بار صفائی اور وائرس کے حوالے سے آنے والے خیالات کی وجہ سے آپ وسوسے کا شکارہوسکتے ہیں جسے نفسیات کی زبان میں Obsessive compulsive disorder کہا جاتاہے۔

الیکٹرانک، ماس، اور سوشل میڈیا کا مسلسل اور منفی استعمال آپ کی نیند، روزمرہ کے معاملات، اور رویّے کو متاثر کرسکتا ہے۔ آپ چڑچڑاپن اوربےزاری محسوس کرسکتے ہیں۔

مسلسل ناامیدی اور مایوسی والی باتیں سننے اور دیکھنے کے بعد آپ باآسانی ڈپریشن کا شکارہوسکتے ہیں۔

وائرس لگنے کے خوف سے یا اردگرد سے کوئی خبر ملنے پر آپ کو panic attacks، پسینہ چھوٹنے، ہاتھ پاوں کے سن ہوجانے اورپیٹ میں مروڑ اٹھنے کی شکایات ہوسکتی ہیں۔

آمدن اور نوکری کے درپیش مسائل،میل جول میں پرہیز کی وجہ سے آپ کے سماجی تعلقات خراب ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے آپ ٹینشن کا شکارہوسکتے ہیں۔

اس وبائی مرض کا پوری دنیا پہ شدید اثر پڑاہے۔ صبح سے شام تک آپ کا واسطہ جب ان ہی شہ سرخیوں سے پڑیگا یا آپ اپنے اردگرد ماحول کا معائنہ کریں گے تو یہ چیزیں آپ کے لاشعور میں جمع ہوتی جائیںگی۔ پھر یہی باتیں آپ کے خوابوں، خیالوں میں گردش کرتی رہیں گی جسے سائیکالوجی کی ذبان میں post traumatic stress disorder کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک گزرے ہوئے حادثے کی وجہ سے آپ ذہنی پریشانی سے دو چار ہوتے رہیںگے۔

خود کے بچاو کے اس عمل میں آپ اتنے محتاط ہوں گے کہ آپ کو ہر چیز پر شک و شبہ ہونے لگے گا جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

جب آپ کی تعلیمی کارگردگی، سماجی زندگی، پیشہ ورانہ صلاحیت اور گھریلو زندگی متاثر ہو اور آپ مسلسل اسی سوچ و بچار میں وقت گزاریں کہ اب کیسے دوبارہ پہلے جیسا ہوسکتا ہے،نوکری ملے گی کہ نہیں، تو یہ ہمارے کیفیت Generalized anxiety disorder کے زمرے میں آتی ہے۔

آپ کا وہم آپ کو یہ بات ماننے پر مجبور کرے گا کہ آپ میں بھی یہ اثرات موجودہیں۔ آپ اپنی صحت کے حوالے سے پریشان ہونا شروع ہوجائیں گے اور ہر چھوٹے بڑے اثرات آپ کو اپنے آپ میں دکھائی دیں گے جس کی وجہ سے آپ نفسیاتی مسائل سے دوچارہوسکتے ہیں۔

وہم نہ کریں، خوش رہیں

بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگ کسی بیماری کی علامات یا خبریں پڑھ کر یہ وہم پال لیتے ہیں کہ انہیں بھی یہی بیماری ہے جو غلط عادت ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وہم آتے ہی اگلا مرحلہ اینگزائٹی کاہوتاہے کہ اب کیا ہوگا؟ موت کا خوف آ جاتا ہے کہ کرونا کا تو علاج ہی نہیں ہے۔ یہ سب منفی رویے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ ایک لاعلاج بیماری سے بچناکیسے ہے؟ اگر آپ بچنے کے لیے اطمینان بخش اقدامات کرتے ہیں تو پھر ہر خوف سے آزاد ہو کر زندگی گزاریں۔ہمیں چاہیے کہ ہم چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں اپنا لیں جس سے ہمارے اندر کچھ حاصل کر لینے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ 'جب آپ تنہا گھر پر ہوں تو ایسی سرگرمیاں رک جاتی ہیں اور اس کا اثر بڑھتا ہی جاتا ہے، خاص طور پر جب یہ عرصہ دو ہفتے یا اس سےطویل ہو جائے۔

یہ سرگرمی شاید ایک نئی مشق ہو سکتی ہے یا ایک نئی زبان کا سیکھنا، کسی سے 'سوشل میڈیاپر گپ شپ کرنا یا آن لائن بُک گروپ میں شامل ہونا۔ آپ کو بیرونی دنیا سے رابطے قائم رکھنے کی کوشش اور حدود کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ورزش کرنی چاہیے۔ 'ہماری جسمانی اور دماغی صحت ایک دوسرے سے مربوط ہے، لہذا ایسا معمول اپنانے کی کوشش کریں جس میں کچھ جسمانی ورزش بھی شامل ہو۔موجودہ حالات میں 'اگرچہ آپ دوسروں کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے، لیکن کسی بھی بیرونی جگہ، جیسے کوئی نجی باغ یا بالکونی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں کیوں کہ قدرتی ما حول کے قریب رہنا بھی ہماری بہتری میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔متبادل کے طور پرپرندوں کو دیکھنے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کریں یا اپنے ذہن کو متحرک رکھنے اور قدرت کے ساتھ منسلک رکھنے کے لیے گھر میں پودے لگانے کی کوشش کریں۔ ہو سکے تو کھڑکی بھی کھولیں اور اپنے کمرے میں تازہ ہوا آنے دیں۔معمول کا احساس برقرار رکھیں۔ 

وقت پر سوئیں اور وقت پر جاگیں تاکہ آپ بھر پور نیند کو یقینی بنا سکیں۔ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جب ہم اکتا دینے والی زندگی سے مغلوب ہو جاتے ہیں تو جلد ہی اس سے خوشیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ لہذا اپنے لیے تفریح ​​پیدا کریں۔ صرف ا سکرین سے جُڑ کر مت بیٹھیں بلکہ مختلف سرگرمیاں اپنائیں۔کام یا تفریح کے لیے پورا دن کسی ا سکرین سے جڑ کر بیٹھنا وقت گزارنے کا بہترین طریقہ نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ اسمارٹ فونز جیسے آلات سے پیدا ہونے والی نیلی روشنی آپ کی نیند اور مجموعی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

جو لوگ قرنطینہ میں یاسیلف آئسولیشن میں ہیں وہ ایک دوسرے سے رابطے رکھیں، کال کریں،پیغامات بھیجیں۔ وہ افرادجن کے عزیز یا دوست اس کا شکار ہو چکے ہیں ان کی بات تحمل سے سنیں اور انہیں حوصلہ دیتے رہیں۔ایسی سرگرمیوں کو اپنی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنائیں جو ذہنی دباؤ سے نکلنے میں مدد دے سکیں۔سیلف آئسولیشن کی صورت میں اپنے گھر یا کمرے میں احتیاط کے ساتھ اپنی روز مرہ کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ذہنی دباؤ کے وقت اپنی ضروریات اور احساسات پر توجہ رکھیں۔ وہ کام کریں جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔اپنی کھانے اور سونے کی عادت کو بہتر کریں اور مسلسل خبریں سننے یا دیکھنے سے پرہیز کریں۔

زیادہ خبریں نہ سُنیں

عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او نے بھی کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کے دوران ذہنی صحت کے حوالے سے تفصیلی سفارشات جاری کی ہیں اور کرونا وائرس کے مریضوں، ہیلتھ ورکرز اور قرنطینہ جیسے مراکز کے منتظمین کو اپنی اور خود سے منسلک دیگر افراد کی ذہنی صحت کا خیال رکھنے کے لیے تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز کے مطابق عام لوگ دن میں ایک یا دو بار خبریں سنیں یا سوشل میڈیا پر وائرس سے متعلق مستند خبریں پڑھیں۔ 

حقیقت اور افواہ میں فرق رکھنے لیے صحت کے عالمی اداروں یا مقامی مستند صحت کے مراکز کی خبروں کے سوشل پلیٹ فارمز کا رخ کریں۔مثبت باتیں آگے پھیلائیں، ان افراد کی خبریں جو اس بیماری سے صحت یاب ہوئے۔ ایسے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ان لوگوں کی کہانیوں کی تشہیر کریں جنہوں نے اپنے پیاروں کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیا اور صحت یاب ہونے میں ان کی مدد کی۔ڈاکٹروں اور نرسوں کو خراجِ تحسین پیش کریں جو اس وبا سے متاثرہ افراد کی جان بچا رہے ہیں۔

طبّی عملے کے لیے پیغام

طبّی عملے کے لیے ماہرینِ نفسیات کا یہ پیغام ہے کہ کرونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ بہ راہ راست رابطے کے دوران ذہنی دباؤ اور ڈپریشن ایک قدرتی عمل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کم زور ہیں یا آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ایسی سرگرمیوں کو اپنی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنائیں جو ذہنی دباؤ سے نکلنے میں مدد دے سکیں ۔ مثلا متوازن خوراک کھائیں، کام کی شفٹ کے دوران وقفہ لیتے رہیں، فیملی اور دوستوں سے بات کرتے رہیں، جسمانی سرگرمی جیسے کہ ورزش وغیرہ کے لیے وقت نکالیں اور ذہنی دباؤ دور کرنے کے لیے عارضی اور غیرصحت مند اشیا جیسےکہ سگریٹ یا پان چھالیہ سے پرہیز کریں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے اہل خانہ یا دوست، احباب آپ سے ملنے سے پرہیز کریں تو ایسے میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بات کریں، مگر بات ضرور کریں۔بڑی عمر کے شہری زیادہ غصے اور پریشانی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ایسے میں تحمل کا مظاہرہ کریں اور ان کی دل جوئی کریں۔ بڑی عمر کے افراد کو آسان اور سادہ زبان میں بتائیں کہ بیماری کیا ہے اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

ہمارے کرنے کے کام

‎وائراس زدہ مریضوں کو دیکھ کر بھاگنے کے بجائے اپنا رویہ نرم رکھیں۔ ایک دوسرے کو فوائد و نقصانات سے آگاہ کریں۔ جان بوجھ کر ایک دوسرے کو وائرس نہیں لگایا جاتا۔ البتہ یہ لاپروائی کا نتیجہ ضرورہے۔ کوشش کریں کہ ذیادہ سے ذیادہ وقت گھر میں گزاریں۔اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزاریں اور کوئی نیا کارآمد ہنر سیکھیں۔ اپنے منفی خیالات کو مثبت سوچ سے تبدیل کریں۔زیادہ بے چینی اور پریشانی کی صورت میں ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔

عالمی ادارہ صحت نے کچھ عرصہ قبل ایک بیان جاری کیاتھاجس میں کہا گیاتھا کہ اس عالمی وبا کے دوران ذہنی حالت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔اس بیان میں ان منفی اثرات سے بچنے کی حکمت عملی بھی بتائی گئی ہے۔ماہرینِ نفسیات نے بھی کہا ہے کہ وبا پھوٹنے کی صورت میں ذہنی دباؤ کا شکار ہونا عام بات ہے، لیکن اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے بہ قول آپ اس بیماری کا شکار ہیں یا نہیں، کرونا وائرس کے ساتھ جڑا یہ جملہ کہ اس کا کوئی علاج نہیں، سب سے زیادہ ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔ ایسے مریض جن میں اس وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے ان کے لیے واٹس ایپ گروپ بنائے جائیں جہاں مثبت پیغامات اور ایسے لوگوں سے متعلق کہانیاں ہوں جو اس وائرس سے صحت یاب ہوئے ہیں۔ حکومت کو ماہرینِ نفسیات کی ایک ٹیم بھی ہر اسپتال اور قرنطینے میں تعینات کرنی چاہیےجو وہاں موجود لوگوں کی ہمت بڑھائے اور انہیں مایوسی سے نکالنے کے لیے ہر مریض کے ساتھ سیشن کا اہتمام کریں۔

ماہرین کے مطابق قرنطینہ اور آئسولیشن وارڈ میں پہلے ہی دباؤ کا ماحول ہوتا ہے، ایسے میں معمولی تبدیلی کر کے یہاں رہنے والے مریضوں کو ذہنی آسودگی فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس بیماری کے شکار لوگوں کے اہل خانہ اور ان کے دوست احباب ان کا حوصلہ بڑھائیں اور انہیں بدنام نہ کریں۔انہیں بتائیں کہ یہ بیماری کسی کو بھی لگ سکتی ہے اور یہ کہ ان کی وجہ سے کسی کو یہ بیماری نہیں لگی۔ انہیں بتائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمت اور علاج کے ساتھ اس بیماری سے جیت سکتے ہیں۔بڑی عمر کے افراد کو آسان اور سادہ زبان میں بتائیں کہ بیماری کیا ہے اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

کرونا کے شکار مریض کو یہ بھی بتائیں کہ اس بیماری میں ان کا کوئی قصور نہیں، یہ ان کی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسے مریض پہلے ہی خود کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ ان کے ارد گرد موجود افراد خیریت سے ہیں۔ماہرین یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ خبریں زیادہ نہ سنی جائیں۔آپ چند ویب سائٹس،جن کے مستند ہونے پر آپ کو مکمل یقین ہے، ان سے خبریں سنیں اوردیکھیں۔ 

ایسی وڈیوز، خبریں، پیغامات اور سوشل میڈیا کی پوسٹس نہ دیکھیں جو سنسنی پھیلاتی ہوں۔عام لوگ جب اس وبا سے متعلق خبریں سنتے ہیں تو وہ انتہائی حد تک سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کی یا ان کے پیاروں کی جان ہی چلی جائے گی۔ اس لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے میں وقفہ کریں۔ اس وبا سے متعلق ہیش ٹیگز کو بار بار فالو نہ کریں۔ آپ نے حفاظتی اقدامات کے بارے میں جان لیا، بس ان ہی پر عمل کریں۔

تازہ ترین