• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کورونا کی وبا میں سیاست بھی ’قرنطینہ‘ کا شکار

کورونا؍حکومتی تذبذب کورونا وائرس کا عفریت دنیا بھر میں انسانی جانوں کو نگل رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت تک اس جان لیواوبا کے سبب ہلاکتوں کی تعدادایک لاکھ پندرہ ہزار سے تجاوزکرچکی ہے۔ جبکہ وبا کےمتاثرین کی تعداد 18لاکھ ساٹھ ہزار تک جاپہنچی ہے۔ پاکستان میں  اموات کی تعدادسوکے ہندسے کو چھو رہی ہےجبکہ متاثرین کی تعداد ساڑھے پانچ ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔ دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان جوپہلے ہی معاشی حالات کا شکار تھا۔ کورونا نے اس کی معیشت پرانتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ صورتحال کسی بڑے خطرے سے کم نہیں کہ اول توابھی تک اس خطرناک وبا کا علاج سامنے نہیں آسکادوئم یہ کہ کسی کومعلوم نہیں کہ دنیا اس وبا کا شکار کب تک رہیگی۔ اس حوالے سے محض اندازے اور خدشات ہی ہیں۔ 

بحرحال حکومت نے ملک میں جہاں لاک ڈائون میں توسیع کافیصلہ کیا ہے۔ وہیں تعمیراتی سیکٹرکھولنے جیسے اقدامات کا بھی آغاز کر دیا ہےتاکہ دونوں اپنی زندگی کو رواں دواں رکھ سکیں۔ لیکن ایک طرف تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کروناسے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے ازخود نوٹس لے لیا ہے تو دوسری طرف کوروناوائرس کے تناظر میں حکومتی سطح پرکیے جانے والے اقدامات پروفاق اورسندھ کے درمیان تلخی کی فضا بڑھتی جارہی ہے۔ عام خیال تو یہی تھا اورصورتحال کا تقاضا بھی کہ کوروناوائرس سے جوصورتحال پیداہورہی ہے۔اورجس طرح ترقی یافتہ ممالک جن میں سپرپاور امریکہ سرفہرست ہے وہاں جس تعداد میں اموات ہورہی ہیں ۔اس سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت اورتمام سیاسی جماعتیں تمام اختلافات کوپس پشت ڈال کراپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتوں کوانسانی جانیں بچانے کیلئے بروئے کار لائیں گے لیکن ایسا نظر نہیں آتا بلکہ جان لیوا وباکے ان حالات میں بھی نظرآنے والی سیاسی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ نظر نہ آنے والی ملاقاتیں ، رابطے اور حکمت عملی وضع کرنے کی نشستیں جاری ہیں۔ 

ایک طرف تو صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ خود حکومت میں شامل ناراض اتحادی اور نالاں وزیر، مشیر حکومت کے خلاف زیرزمین بارودی سرنگیں بچھانے میں مصروف ہیں تودوسری طرف شوگراورآٹے کے بعد شنید ہے کہ پاور پلانٹ، بجلی کمپنیوں کے حوالے سے ایک اور پنڈورابکس کھلنے والا ہے جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ چینی اورآٹے سے زیادہ بڑا سکینڈل ہے اور اس میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ملک کی معروف اورانتہائی اہم کاروباری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں اور اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اگریہ بات درست بھی ہوئی تو ملک میں سرمایہ کاری کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کو ان کے بہی خواہوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ فی الوقت ایسے متنازعہ معاملات کو اس وقت تک کیلئے موخر کردیں جب تک ملک کرونا وائرس کی غیریقینی صورتحال سے باہر نہیں نکل آتالیکن وہ مُصر ہیں کہ آئی پی پی میں دونوں بڑی جماعتوں کے حکمرانوں اور ان کے وزرا اورفرنٹ مینوں نے جواربوں روپے کمائے ہیں ۔ 

نہ صرف ان کے نام منظر عام پر لائے جائیں گے بلکہ ان کہ وصولی کے ساتھ ساتھ ان کو سزائیں بھی دی جائینگی ۔ وزیراعظم ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کے قائدین ، راہنمائوں اورحکومتی شخصیات کااحتساب کرنے میں خاصے پرعزم دکھائی دیتے ہیں اورپھر اس حوالے سے ان کے مستقبل کے عزائم بھی خاصے جارحانہ ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کہا جارہا ہے کہ ریاستی حلقوں میں یہ سوچ پیدا ہورہی ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں اگر کوئی غیر یقینی بھی پیدا ہوجاتی ہے توایسے حالات میں اُمور مملکت معمول کے مطابق کیسے چل پائیں گے ۔ خاص طورپر جب پڑوسی دشمن بھی کسی موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں دیر ہی نہیں کرتابلکہ وہ ایسے حالات پیدا کرنے اوران کے انتظار میں ہی رہتا ہے ۔ ان حالات میں بعض حلقے قومی حکومت کے قیام سے متعلق بھی امکانات اورقیاس آرائیوں میں مصروف ہیں اور اس بابت طرح طرح کی سیاسی دُرفنطنیاں بھی چھوڑی جارہی ہیں اورخاص طورپرقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی لندن سے واپسی کومعنی خیز قرار دیتے ہوئے اسے ایک خاص تناظر میں پیش کیا جارہا ہے ۔ ہوسکتا ہے اس میں کچھ حقیقت بھی ہو لیکن وفاقی دارالحکومت کے واقفان راز اورراولپنڈی کے خاموش رہ کر پیغام دینے والے اس حوالے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں جس سے باآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہی نہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات تک کسی قسم کی کوئی تبدیلی کاامکان نہیں ہے اوربالخصوصی کرونا کی صورتحال اوراس کے فوری بعد بھی فوری طورپربھی ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔جہان تک میاں شہباز شریف کی وطن واپسی کا تعلق ہےتو مسلم لیگی راہنما شاہد خاقان عباسی جنہوں نے اپنی گرفتاری کے بعد ضمانت پررہائی اورپروڈکشن آرڈر پرقومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے ضمانت پررہائی بھی قبول کی اوراسمبلی کے اجلاس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دھواں دھار تقریر بھی کی ۔ مریم نواز کی ان سے ملاقات کو بھی خاصی اہمیت ملی ہے۔ 

تمام سرگرم مسلم لیگی حلقوں کوایک پیغام دینے کے مترادف تھی اوراس صورتحال میں میاں شہباز شریف کی وطن واپسی کا جوازموجود تھا اورانھوں نے واپس آکر معاملات پر دسترس حاصل کرنےکیلئے کام کیا۔ ویسے بھی دونوں بڑی جماعتوں کے مرکزی قائدین علالت کے باعث بادی النظر میںسیاست سے عارضی طورپر ہی سہی کنارہ کش دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے بھی اپوزیشن منقسم ہے اوررہی گی جس کافائدہ بحرحال حکومت کوہی جارہا ہے۔شوگرسکینڈل کے نتیجے میں ابتدائی طورپروفاقی کابینہ میں توکچھ ردوبدل کیا جا چکا ہےجبکہ پنجاب میں کچھ لوگوں کو فارغ بھی کیا جاچکا ہے تاہم 25اپریل کو اس سکینڈل پرکوئی دس شوگرملوں کی فارنزک رپورٹ متوقع ہےتاہم کرونا صورتحال کے باعث اس رپورٹ میں تاخیر کا جواز بھی موجود ہے۔ لیکن اس رپورٹ کے بعد ہی یہ فیصلہ ممکن ہوسکے گا کہ اگرکوئی کارروائی ہوئی ہے تو وہ کس کے خلاف ہوئی اورکن بنیادوں پرہوئی ۔ 

اس حوالے سے جہانگیر ترین سمیت بعض حلقوں کا یہ استفسار بجا ہے کہ جب ملک میں شوگرملوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے توپھرصرف دس شوگرملز کافارنزک آڈٹ کرانا بے معنی سے بات ہے ۔حتمی رپورٹ آنے کے بعد مزید کارروائی کیلئے حکومت کے پاس دوطریقے ہوسکتے ہیں۔پہلا تو یہ کہ اس معاملے کو ایف آئی اے کی کرپشن کورٹس میں لے جایا جائےدوسرایہ بھی ہوسکتا ہے کہ فائنل رپورٹ کے بعدیہ معاملہ قومی احتساب بیورو یا نیب کو دیاجائے اورجے آئی ٹی بناکرمزیدپیش رفت کی جائے۔ تاہم بعض حلقے یہ خدشہ بڑے یقین کے ساتھ ظاہر کررہے ہیں کہ’’ہونا کچھ بھی نہیں سب طاقتور لوگ ہیں‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین