• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی بادشاہ ہنری ہشتم (1527-40)کے دربار کے مشیرِ خاص تھامس کرومویل کے عروج و زوال کو انگریز ناول نگار، ہیلری مینٹل نے فکشن کا روپ دیا ہے۔ ’’ولف ہال‘‘، ’’برنگ اپ دی باڈیز‘‘ اور ’’دی مرر اینڈ دی لائٹ‘‘ کے عنوانات سے شائع ہونے والی ٹرالوجی کا شمار بیسویں صدی کے بہترین ادب میں ہوتا ہے۔کروم ویل ٹرالوجی ماضی کو زندگی کی حرارت سے لبریز کرکے قاری کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔ ایک انگریز نقاد کے مطابق ’’کرومویل پر لکھے گئے تین ناول زندگی سے بھرپور ہیں۔ اُن کے ساتھ لفظ ’تاریخی‘ غیرضروری ہے‘‘۔ ہیلری مینٹل نے تاریخی ریکارڈ کے قریب رہتے ہوئے امریکی شاعر اذرا پائونڈ کے مقولے ’’اسے نیا بنا دیں‘‘ پر عمل کیا ہے۔ مینٹل کا فن بہت گہرا ہے۔ وہ روسی کہاوت کے مطابق جھوٹ ایسے بولتی ہیں جیسے آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ یہ ناول فعل حال میں لکھے گئے ہیں اور ہم ان میں کرومویل کی بےیقینی میں ڈوبے ماضی، حال اور مستقبل، سبھی زمانے دیکھتے ہیں۔ ایسی ہی بےیقینی جس کا شکار ہوکر میں نے کرومویل پر لکھے گئے یہ ناول خریدے۔ میں نے ’’ولف ہال‘‘ خریدا جب اس نے 2009برطانیہ میں فکشن کا سب سے بڑا انعام بکر پرائز جیتا۔ تاہم اس کے چند ایک صفحے پڑھ کر دلچسپی ختم ہو گئی۔

مینٹل کو دوسرا بکر پرائز تین سال بعد ملا تو میں اُس کی دوسری کتاب بھی خریدنے پر مجبور ہو گیا۔ ایک ناول نگار کا دو مرتبہ بکر پرائز جیتنا اگر نایاب نہیں تو بھی غیرمعمولی واقعہ ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ مسلسل کتابوں پر کسی کو یہ انعام ملا ہو اور وہ بھی ایک ٹرالوجی کے دو حصوں پر۔ یہ ایک منفرد کامیابی تھی۔ میں نے ناول میں حیرت کی کھوج کے لیے ’’برنگ اپ باڈیز‘‘ پڑھنا شروع کر دیا۔ یہ ناول 1535-36کے واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ کنگ ہنری ہشتم کا مشیر تھامس کرومویل بادشاہ کو این بولین سے شادی کے بندھن سے آزاد کراتا اور این بولین کا سرقلم کرانے کا منصوبہ بناتا ہے۔ ’’برنگ اپ دی باڈیز‘‘ اس وقت شائع ہوا جب راقم الحروف پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا رکن بنا تھا۔ 2012تک مجھے اسمبلی کے فلور، کمیٹی روم، پارٹی کے دفاتر اور حکومتِ پنجاب کی میٹنگز میں بہت دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا۔ مختصر الفاظ میں دوٹوک نتیجہ یہ ہے کہ ہیلری مینٹل نے اقتدار کی کھائی کا بہت گہرائی تک جائزہ لیا ہے۔ اس کے فوراً بعد میں نے ’’وولف ہال‘‘ پڑھا۔ درحقیقت یہ ناول ہیلری مینٹل کے اصل کارنامے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں اقتدار کی سوچ قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ ناول قدرے محدود فہرست کا احاطہ کرتا ہے جیسے سفارتکاری، طبقاتی کشمکش، موت کی عملداری، مسیحیت میں تحریک اصلاح اور ہنری ہشتم کو جائز اولاد کی ضرورت تاکہ اُس کا بیٹا چرچ آف انگلینڈ کی تشکیل کے مطابق تخت کا وارث بن سکے۔

دوسرا ناول شائع ہونے کے آٹھ سال بعد گزشتہ ماہ یہ ٹرالوجی ’’دی مرر اینڈ دی لائٹ‘‘ کی اشاعت پر تمام ہوئی۔ چونکہ 480سال پہلے کرومویل کا کیا انجام ہوا تھا، یہ تو سب کے علم ہے، چنانچہ مینٹل کے سامنے بہت بڑا چیلنج تھا اور یہی اُس کا کمال ہے کہ ایک جانے پہچانے انجام کو اُس نے بہترین انداز میں فکشن کے رنگ میں اتارا۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’دی مرر اینڈ دی لائٹ‘‘ کے ابتدائی سات صفحات کرداروں کے بارے بتاتے ہیں کہ یہ ’’حال ہی میں مرے ہیں‘‘۔ اس ٹرالوجی میں بہت سی اموات ہیں تاہم مینٹل ہمیں مطلع کرتی ہیں ’’ایک کٹا ہوا سر آپ کے خیال سے بھی بھاری ہوتا ہے‘‘۔

ٹرالوجی کی ہر کتاب کسی سزائے موت پر ختم ہوتی ہے۔ ’’وولف ہال‘‘ کے اختتام پر کرومویل کے رقیب، تھامس مور کا سر قلم کیا جاتا ہے۔ ’’برنگ اپ باڈیز‘‘ کا اختتام این بولین کا سر کٹنے پر ہوتا ہے۔ تیسری کتاب اضافی صفحات میں ہیرو کی موت کو بیان کرتی ہے۔ ’’دی مرر اینڈ دی لائٹ‘‘ میں مصنفہ گزشتہ کتابوں کی جاندار تفصیل، ہنگامہ خیز توانائی اور گہری بصیرت برقرار رکھتی ہے۔

کرومویل کی ٹرالوجی میں کیا گیا سیاسی طاقت کا تجزیہ حالیہ برسوں کے انگریزی ادب میں بےمثال ہے۔ اس کا موازنہ اگر کسی سے کیا جا سکتا ہے تو ماریو ورگاس لوسا کا اسپینش زبان کا ناول جس کا انگریزی میں ترجمہ ’’دی فیٹ آف دی گوٹ‘‘ ہے۔ ہیلری مینٹل کی ٹرالوجی سے اگر کوئی کتاب سبقت لے سکتی ہے تو وہ رابرٹ کیرو کی تصنیف کردہ چھتیسویں امریکی صدر لیڈن جانسن کی سوانح عمری ہے؛ تاہم یہ نان فکشن ہے۔

ہیلری مینٹل نے سیاسی طاقت کی کھائی کی گہرائی میں جھانکا ہے۔ جرمن فلاسفر نطشے کے الفاظ میں، گہرائی بھی ہم میں جھانکتی ہے۔ اس ٹرالوجی سے معانی خیز اور دانش سے لبریز محاورے کشید کیے جا سکتے ہیں۔ ایک موقع پر کرومویل اقتدار کی حرکیات پر غور کرتا ہے ’’ہم صبح اُٹھتے ہیں؛ اپنی شریانوں میں دوڑتا ہوا خون محسوس کرتے ہیں؛ اور ہم سوچتے ہیں کہ آج میں نے کس کے سر پر مہر ثبت کرنی ہے۔ اب میرے سامنے فتح کرنے کے لیے کون سی دنیا ہے؟ یا ہم سوچتے ہیں کہ اگر خدا مجھے کسی بھٹکے ہوئے بحری جہاز کا ملازم بنا دے تو میں شرابی کپتان کو کس طرح قتل کرنے کے بعد جہاز کو تباہی سے بچا کر بندرگاہ تک لا سکتا ہوں؟‘‘ کرومویل اپنے بادشاہ کا مشاہدہ کرتا ہے ’’دروغ گوئی اُسے گہری اور لطیف خوشی دیتی ہے؛ اتنی گہری اور لطیف کہ اُسے خود بھی نہیں پتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؛ اپنے تئیں وہ سوچتا ہے کہ وہ انتہائی سچا شہزادہ ہے‘‘۔

کرومویل کے زوال کا باعث بادشاہ کا اپنی تیسری اہلیہ کو ناپسند کرنا تھا۔ اس اہلیہ کا انتظام کرومویل نے کیا تھا۔ جب بادشاہ کی نظریں بدل جاتی ہیں تو قسمت بھی روٹھ جاتی ہے۔ کرومویل ایک مشیر کو بتاتا ہے ’’ہمارے حکمران ہماری تباہی لکھ چکے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ منہ سے کچھ نہ بولیں لیکن اُن کے دل میں ایک خفیہ کتاب ہوتی ہے‘‘۔

تازہ ترین