• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے پی ٹی آئی کے ایک حامی نے ٹوئٹر پر سوال اُٹھایا کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب پر ایک عشرہ اور مرکز میں پانچ سال حکومت کرنے کے بعد کیا پنجاب میں کوئی عالمی معیار کا اسپتال بنایا؟

اب مسلم لیگ (ن) کے حامی یہی سوال پی ٹی آئی سے پوچھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا پر سات سال اور مرکز میں دو سال حکومت کرنے کے بعد کتنے اسپتال بنائے ہیں؟ حالیہ کورونا وائرس بحران کے دوران اس سوال کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ سب سے پہلے میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ پاکستان میں بہت سے شاندار اسپتال صحت کی اچھی سہولتیں فراہم کرتے ہیں، لیکن اُن میں عالمی معیار کا ایک بھی اسپتال نہیں ہے۔

میں مزید یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں ایک بھی جامعہ عالمی معیار کی نہیں۔ صرف یہی نہیں، عالمی معیار کا کوئی کارساز ادارہ بھی نہیں ہے۔ نہ ہمارے ہاں عالمی معیار کے لکھاری، سائنسدان، محقق، ماہرِ معاشیات، کمپیوٹر پروگرامر، ایتھلیٹ، ڈاکٹر، انجینئرز وغیرہ پائے جاتےہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان غیرترقی یافتہ انسانی وسائل رکھنے والا ایک غریب ملک ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کے جدول میں ہمارا شمار پہلے ایک سو ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔

ہماری فی کس آمدنی 1500ڈالر سالانہ سے کم ہے جو امیر ممالک کی فی کس آمدنی کا بمشکل آٹھ فیصد ہے تو جب ہم کسی بھی چیز میں عالمی معیار کے نہیں ہیں تو پھر ہم عالمی معیار کے اسپتالوں کی کیوں توقع کرتے ہیں؟

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی سطح پر کہیں کہیں بہت عمدہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں لیکن جب بات مجموعی کارکردگی کی ہو تو ہم عالمی معیار سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کراچی میں آغا خان اسپتال اور یونیورسٹی صحت اور تعلیم کی بہترین سہولتیں فراہم کرتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے کئی ایک ادارے بھی مناسب سہولتیں رکھتے ہیں لیکن آغا خان، یا پاکستان میں کہیں بھی طبی شعبے میں کوئی نئی پیش رفت یا تحقیقات نہیں ہو رہیں۔

اس بحث کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانی دیگر اقوام کی نسبت کم صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ دراصل ہماری سماجی اور معاشی ترقی کی شرح ایسی ہے کہ ہم عالمی معیار کے ادارے قائم نہیں کر سکتے۔

سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے یہ الزام تراشی کہ سرکاری اسپتال عالمی معیار کے نہیں، ایک بات؛ لیکن عقل اور معقولیت سے کام لیں تو یہ مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے صحرا میں گلاب نہ اُگنے پر الزام دھرنا، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

ہمیں صحرا کا ماحول اور آب و ہوا تبدیل کرنا پڑے گی، وہاں پانی اور زرخیز زمین اور کھادوں کا اہتمام کرتے ہوئے برس ہا برس تک محنت کرنا ہوگی تب کہیں جاکر صحرا میں پھول کھلیں گے۔

اسی طرح پاکستان کو بھی کئی برسوں تک قومی آمدنی بڑھا کر انسانی ذرائع اور تعلیم پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، تب کہیں جا کر ہم عالمی معیار کی جامعات، مصنوعات اور اسپتال بنا پائیں گے۔

یہ سوال پوچھا جاتا تو بہتر تھا کہ چونکہ صحت صوبائی معاملہ ہے تو مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنے دس سالہ اقتدار کے دوران صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت کچھ۔ مثال کے طور پر اس نے پچیس ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتالوں کی حالت بہتر بنائی۔ اُن میں طبی سہولتوں کی کمی دور کی گئی۔

ہر ایک میں چار بستروں پر مشتمل نیا آئی سی یو قائم کیا گیا جس میں وینٹی لیٹرز کی سہولت بھی میسر تھی۔ تحصیل ہیڈکوارٹر کی سطح پر آٹھ نئے اسپتال تعمیر کیے گئے جس میں وینٹی لیٹرز سمیت دو بستروں پر مشتمل آئی سی یو بھی تھا۔ اس کے علاوہ تحصیل کی سطح پر 117صحت کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ 2600بنیادی ہیلتھ یونٹس قائم کیے گئے یا پہلے سے موجود کو بحال اور بہتر بنایا گیا۔

مسلم لیگ (ن) نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور، چلڈرن کمپلیس اسپتال ملتان، چلڈرن اسپتال فیصل آباد، طیب اردوان اسپتال مظفر گڑھ، راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی، ماڈرن برن سنٹر نشتر اسپتال ملتان، سرجیکل ٹاور میو اسپتال وغیرہ قائم کیے۔

اس نے چار شہروں میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز بھی بنائیں۔ اس سے بھی اہم یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب میں ان تمام اداروں میں میرٹ پر ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی خدمات حاصل کیں۔

حکومت نے ہیلتھ کیئر کو دو حصوں میں تقسیم کیا: ایک علاج کے لیے، اور دوسرا بیماری کی روک تھام کے لیے۔ ڈینگی، یرقان، ٹی بی، ایڈز اور دیگر امراض کا پھیلائو روکنے کے لیے خصوصی پروگرامز شروع کیے گئے۔

یرقان کے مریضوں کے لیے خصوصی فلٹر کلینکس قائم کیے گئے جہاں سے اُنہیں چھ ماہ تک مفت ادویات ملتی تھیں۔ مریضوں کو کوریئر سروس کے ذریعے بھی ادویات بھیجی جاتیں تاکہ اُنہیں بار بار کلینک پر نہ آنا پڑے۔

ادویات خریدنے کے لیے ایک مرکزی نظام قائم کیا گیا جس کے تحت پاکستان اور غیرملکی مستند کمپنیوں سے ادویات خرید کر ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈکوارٹرز اور بنیادی ہیلتھ کیئر یونٹس کو فراہم کی جاتیں۔ اس نظام کے نتیجے میں خریداری کے عمل میں نہ صرف شفافیت آئی بلکہ مریضوں کو اعلیٰ معیار کی ادویات مفت میسر آنے لگیں۔

مریضوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کیا گیا۔ حاملہ خواتین کو اسپتال لے جانے کے لیے خصوصی ایمولینس کا پروگرام شروع کیا گیا۔ مریض کی دوسرے اسپتال منتقلی کا کمپیوٹرائز نظام وضع کیا گیا۔ جب کوئی مریض فرض کریں تحصیل اسپتال سے کسی بڑے اسپتال میں منتقل کیا جاتا تو اس کا ریکارڈ اُس بڑے اسپتال کو پہلے ہی پہنچ جاتا تاکہ وہ آنے والے مریض کے لیے انتظامات کر سکے اور اس کی طبی ہسٹری سے آگاہ ہو جائے۔

وسائل کی قلت کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں دس برسوں کے دوران صحت کے شعبے میں نمایاں پیش رفت کی۔ چونکہ صحت ایک صوبائی معاملہ ہے، اس لیے وفاقی حکومت اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ پھر بھی مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں ہیلتھ انشورنس پروگرام شروع کیا۔ اس میں ملک کے بہت سے اضلاع شامل کیے گئے۔

منصوبہ یہ تھا کہ آنے والے پانچ برسوں کے دوران اس انشورنس کا دائرہ تمام پاکستان میں پھیلا دیا جائے گا۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) دیگر صوبوں میں زیادہ مقبول نہیں، لیکن جہاں جہاں اسے حکومت کرنے اور عوام کی خدمت کا موقع ملا، وہاں اس کی مقبولیت برقرار ہے، جیسا کہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیراور پنجاب۔

تازہ ترین