• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم دردی اور غم خواری کا ماہِ مبارک، نیکیوں کا موسمِ بہار، رحمت، مغفرت اور جہنّم سے نجات کا مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘ ہم پر سایہ فگن ہے۔احادیثِ نبویؐ میں اِسے ’’شہرُ المُواساۃ‘‘ یعنی ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ ایسا مبارک مہینہ کہ جب سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں،خیر کے طالب کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور بدی کے محور کو روک دیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ اسلام کی عظمت کا نشان اور دین کا شعار ہے۔اِس مقدّس اور بابرکت مہینے میں جو افسوس ناک اور حد درجہ قابلِ مذمّت امر سامنے آتا ہے، وہ منہگائی، گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری ہے۔ رمضان آتے ہی اشیائے صَرف کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور اشیائے خورونوش کی مصنوعی قلّت ہو جاتی ہے۔ اِس کی جتنی مذمّت کی جائے، کم ہے اور اِس اَمر پر جتنا افسوس کیا جائے،بجا ہے۔ اسلامی مملکت میں اور مسلمان ہوتے ہوئے ہمارا یہ کردار حد درجہ شرم ناک ہے۔ 

اسلام تو ہمیں ایثار و ہم دردی،خدمتِ خلق اور نفع رسانی کا حکم دیتا ہے۔دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے مقدّس تہواروں کے موقعے پر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء مقرّرہ قیمت سے کم کرکے سستے داموں فروخت کرتے ہیں،رعایتی بازار اور تجارتی میلے لگائے جاتے ہیں،جب کہ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔یہ عمل اسلامی تعلیمات کے منافی، اعلیٰ اخلاقی اقدار کے برخلاف اور بدترین گناہ ہے۔علاوہ ازیں، گراں فروشی بدترین مالی خیانت اور دھوکا دہی ہے،جس کے متعلق رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’من غشّ فلیس منّا‘‘جس نے دھوکا دہی اختیار کی، وہ ہم میں سے نہیں۔ 

ناجائز اور حرام ذرائع سے حاصل شدہ مال، حرام اور بدترین مال ہے، جو بدترین گناہ اور نیکیوں کی بربادی کا ذریعہ ہے۔ رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا،جو طویل سفر کرتا ہے،پراگندہ بال اور غبار آلود،وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے،اے پروردگار(میری دعائیں قبول فرما)! حالاں کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور وہ حرام میں پرورش کیا گیا،پھر کیوں کر اُس کی دُعا قبول کی جائے؟‘‘(مشکوٰۃ کتاب البیوع، باب الکسب۲/۷۳)۔پھر یہ کہ ایک ایسے موقعے پر کہ جب دنیا میں کورونا کے مہلک و تباہ کُن اثرات کے نتیجے میں معاشی و اقتصادی حالات ابتر ہیں اور پاکستان بھی اس وبائی آفت کی لپیٹ میں ہے۔روز کمانے والے مزدور پیشہ اور عام افراد شدید دُکھ،پریشانی اور غذائی بحران سے دوچار ہیں، منہگائی،گراں فروشی، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی انتہائی شرم ناک عمل اور عذابِ خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ رمضان المبارک اور موجودہ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ عام دنوں کے مقابلے میں اپنے نفعے کی شرح کم کرکے بندگانِ خدا کے لیے راحت رسانی کا سبب اور ذریعہ بنا جائے۔

اسلام میں خدمتِ خلق،ایثار،راست گوئی،دیانت وامانت اور عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ نظام انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے۔چناںچہ معاشی سرگرمیاں ہوں یا تجارتی معاملات اور باہمی لین دین،اسلام نے ان میںدیانت و امانت کو بنیادی اہمیت دی ہے۔اِس حوالے سے اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہ تمام سرگرمیاں انسانیت کی بھلائی اور نفع رسانی کے لیے ہیں۔تجارتی معاملات اور کاروباری سرگرمیوں کی ابتدا اس سے ہوتی ہے کہ بنیادی اشیائے ضرورت اور صنعت و تجارت سے وابستہ اشیاء کے جو معیارات قائم کیے جائیں،اس میں دیانت و امانت اور عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں۔ اس حوالے سے رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’جس میں امانت نہیں، اُس میں ایمان نہیں، جسے عہد کا پاس نہ ہو، اُس میں دین نہیں،اس ذات کی قسم،جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے، کسی بندے کا اُس وقت تک دین درست نہیں ہوگا،جب تک کہ اُس کی زبان درست نہ ہو اور اُس کی زبان درست نہ ہوگی،جب تک کہ اُس کا دل درست نہ ہو اورجو کوئی کسی ناجائز کمائی سے کوئی مال کمائے گا اور اُس میں سے خرچ کرے گا، تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں دی جائے گی اور اگروہ اُس میں سے خیرات کرے گا،تو وہ قبول نہ ہوگی اور جو اُس میں سے بچ رہے گا،وہ اُس کے دوزخ کی طرف سفر کا توشہ ہوگا،بُری چیز بُری چیز کا کفّارہ نہیں بن سکتی،البتہ اچھی چیز،کفّارہ ہوتی ہے‘‘ (علی متقی الھندی/ کنزالعمال۲/۵)۔اسلام کا معاشی نظام اور تجارتی اصول،معاشی عدل،عوام النّاس کو نفع رسانی اور خیر خواہی کی تعلیم دیتا ہے،چناںچہ فقہاء نے اِس حوالے سے اسلام کا یہ اصول بیان کیا ہے کہ ’’تمام انسان باہم ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اُس وقت تک ممکن نہیں،جب تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور باہمی ہم دردی کا مظاہرہ نہ کریں(امام راغب اصفہانی/ الذّریعہ الیٰ مکارم الشّریعہ، ص ۱۴۷)۔

معاشی عدل اور تجارتی معاملات میں دیانت و امانت کے حوالے سے قرآن و سنّت میں بڑی واضح تعلیمات ملتی ہیں۔ باہمی خرید وفروخت اور تجارتی معاملات میں بددیانتی،دھوکا دہی،ناپ تول میں کمی اور گراں فروشی کواسلامی تعلیمات کے منافی عمل اور بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔اس حوالے سے حضرت شعیب علیہ السّلام اللہ کے وہ برگزیدہ پیغمبر ہیں،جن کی دعوت اور اصلاح کا بنیادی نکتہ ہی تجارتی سرگرمیوں اور خرید و فروخت کے معاملات کو عدل اور دیانت و امانت کے اصولوں پر رائج کرنا اور اسے پوری طرح نافذ کرنا تھا۔قرآن کریم میں اِس حوالے سے متعدّد ارشادات ملتے ہیں۔’’سورۃ الاعراف‘‘میں حضرت شعیبؑ کی یہ ہدایت ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’برادرانِ قوم،اللہ کی بندگی اختیار کرو،اُس کے سوا تمہارا کوئی پروردگار نہیں،تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی واضح رہ نمائی آگئی ہے،لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔‘‘ وہ مسلسل انحراف،بددیانتی اور اللہ کی نافرمانی کے سبب بالآخر بدترین عذابِ الٰہی سے دوچار ہوئے۔’’سورۃ الرحمٰن‘‘میں ارشادِ ربّانی ہے’’اور اُسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی، کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو۔‘‘(۷۔۹)’’سورۃ المطفّفین‘‘ میں فرمایا گیا:’’اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے،جو لوگوں سے ناپ کرلیں،تو پورا لیں اور جب اُنہیں ناپ کر یا تول کر دیں،تو کم دیں، کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ (قیامت کے روز) اُٹھائے بھی جائیں گے،ایک بڑے سخت دن،جس دن تمام لوگ ربّ العالمین کے روبرو کھڑے ہوں گے۔‘‘ محسنِ انسانیت، رہبرِ آدمیت، خاتم الانبیاءﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ تجارتی معاملات میں دیانت و امانت، سچائی اور راست گوئی کی ایک روشن اور اعلیٰ مثال ہے،خرید و فروخت اور تجارتی معاملات میں آپؐ ہمیشہ اپنا معاملہ صاف رکھتے تھے۔دیانت و امانت اور عدل و احسان کے اعلیٰ اصولوں پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ 

اعلانِ نبوّت سے قبل جن لوگوں سے آپؐ کا تجارتی حوالے سے تعلق رہا،وہ بھی اس کے معترف اور آپؐ کی عظمت کے قائل نظر آتے ہیں،کفّارِ مکہ نے آپؐ کو’’صادق و امین‘‘ کے خطابات سے نوازا۔سائب نامی ایک صحابیؓ جب مسلمان ہو کر خدمتِ نبویؐ میں حاضر ہوئے،تو لوگوں نے ان کی تعریف کی،آپؐ نے فرمایا:’’میں انہیں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ سائبؓ نے کہا،آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں،آپؐ میرے شریکِ تجارت تھے، کتنے اچھے شریک تھے،نہ کھینچا تانی کرتے اور نہ جھگڑا کرتے تھے‘‘(ابو دائود/ السنن ۵/۱۷۰)۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے:’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو،مگر یہ کہ تجارت ہو، تمہاری باہمی رضا مندی سے۔‘‘(سورۃ النساء/۲۹)اس ارشادِ ربّانی سے حلال ذرائع سے مال کے حصول اورکسبِ حلال کی اہمیت واضح ہوتی ہے ،جب کہ ناجائز ذرائع سے لوگوں کا مال حاصل کرلینے کو قرآن نے باطل قرار دیا ہے،ناجائز منافع خوری،دھوکا دہی اور گراں فروشی بھی باطل مال کے زمرے میں آتے ہیں، جسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’التّاجر الصّدوق الامین مع النّبیین والصّدّیقین والشّہداء‘‘سچّے اور امانت دار تاجر روزِمحشر انبیاءؑ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوںگے۔ اس فرمانِ نبویؐ میں راست گو اور دیانت دار تاجر کے مقام ومرتبے کو بیان کرتے ہوئے گویا اسلامی معاشرے کے ہر تاجر کو دیانت داری،معاملات کو صاف رکھنے اور راست گوئی کی تعلیم دی گئی ہے، یہ اسلام کے معاشی نظام اور تجارتی اقدار کا بنیادی ستون ہے۔رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے، جو اس کے کنبے سے زیادہ اچھا سلوک کرے۔‘‘ (مشکوٰۃ/ باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق)۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بندہ اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ نہ چاہے، جو اپنے لیے چاہتا ہے۔‘‘(بخاری/ الجامع الصحیح،کتاب الایمان ۱/۹)گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری سے انسانوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں،اعلیٰ اخلاقی اقدار پامال ہوتی ہیں،معاشی اور معاشرتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،لہٰذا اسلام نے اس کی مذمّت کرتے ہوئے اسے معاشی استحصال کا سبب اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اسلام اس امر کا خواہاں ہے کہ تاجر اور صنعت کار کا یہ حق ہے کہ وہ شرعی اور معاشرتی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی جائز ضرورتوں کی تکمیل کرے، تاہم اُسے اپنے اس فرض سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ اُس کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں انسانیت کے لیے خیر و فلاح اور خدمتِ خلق کی ضامن ہوں۔ اُس کی بنیاد ایثار و ہم دردی اوردیانت و امانت پر ہو۔کاروباری دیانت کا ایک اصول یہ ہے کہ اشیائے صرف اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتیں اور اُن کے نرخ جائز حدود میں رکھے جائیں۔صارفین پر ناجائز دبائو نہ ڈالا جائے۔گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری کو فقہاء نے ’’غبنِ فاحش‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور یہ اُصول متعین کیا گیا ہے کہ ناجائز منافع خوروں اور گراں فروشوں کو اسلامی ریاست عادلانہ اور جائز مناسب نرخ پر اشیائے صرف اور ضروریاتِ زندگی کے سامان کو فروخت کرنے پر پابند کرے۔

علاوہ ازیں قانون شکنی اور اس کی خلاف ورزی کی صُورت میں اُن کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔نبی صادق و امین حضرت محمدﷺ نے تجارت و معیشت کی ایسی تمام صُورتوں کو حرام اور ناجائز قرار دیا، جو غیر عادلانہ بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں،جس سے براہِ راست انسانوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ چناںچہ گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری کے متعلق آپؐ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص گرانی اور منہگائی کی غرض سے غلّہ اور دیگر اشیائے صرف روکتا ہے (ذخیرہ اندوزی کرتا ہے)وہ گناہ گار ہے‘‘ (صحیح مسلم/ کتاب المساقاۃ)۔آپؐکا ارشادِ گرامی ہے:’’ایسا شخص انتہائی بُرا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ غلّہ(اشیائے صرف) کو سستا کردے، تو وہ افسردہ ہوجائے اور منہگا ہوجائے تو اظہارِ مسرت کرے‘‘ (مشکوٰۃ/ ۲/۳)۔امام بخاریؒ نے رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی بیان فرمایا ہے کہ آپؐ نے ’’نجش‘‘ یعنی اشیائے صرف کو منہگے داموں فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کرنے سے بھی منع فرمایا‘‘(صحیح بخاری/ کتاب البیوع)۔

حضرت معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جو شخص مسلمانوںکے بازار کے نرخ میں اس لیے دخل دے کہ اسے گراں کردے،تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن اُسے دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دے‘‘ (سنن ابودائود)۔ذخیرہ اندوزی،اشیائے صرف کی مصنوعی قلّت، گراں فروشی اور ناجائز منافعےکے خاتمے کے لیے جس طرح تاجر برادری پر بنیادی ذمّے داری عاید ہوتی ہے،بالکل اسی طرح عوام النّاس کے بنیادی حقوق کا تحفّظ اور اس حوالے سے اقدامات کرنا ریاست کی بھی بنیادی ذمّے داری ہے۔اسلام کے ابتدائی ادوار میں اس اہم مقصد کے حصول کے لیے مسلم حکم راں اور محکمۂ احتساب اپنی ذمّے داریاں ادا کرتے تھے۔ اسلام میں ریاست کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ وہ عوامی فلاح، عدل وانصاف کے قیام، تجارتی معاملات کی درستی، گراں فروشی،حرام اور ناجائز ذرائع آمدنی کے سدِّباب اور معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے ایسے نگراں اور محتسب مقرّر کرے،جو اپنی ذمّے داریاں ادا کرتے ہوئے ناجائز تجارتی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام میں ’’حسبہ‘‘ کا بنیادی مقصد امربالمعروف، نہی عن المنکر کا قیام، ناجائز اور اسلامی تعلیمات کے منافی تجارتی سرگرمیوں کو اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کا پابند بنانا ہے۔ اس کارِ خیر کا آغاز عہدِ نبویؐ میں ہوا، روایت کے مطابق آپؐ بنفسِ نفیس بازار تشریف لے جاتے اور تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی فرماتے۔

اسلامی معاشرے میں تاجر برادری کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔اُنہیں معاشی، معاشرتی اور تجارتی سرگرمیوں میں دیانت و امانت، عدل و احسان، ایثار و ہم دردی کے جذبات اور اخلاقی اقدار پیشِ نظر رکھنی چاہئیں۔ناجائز اور اخلاقی اقدار کے منافی تجارتی سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ایثار، ہم دردی اور نفع رسانی وہ اعلیٰ اخلاقی قدر ہے،جس پر اسلام نے بے حد زور دیا ہے۔ رسول اکرم ﷺکا فرمان ہے:’’خیرِالنّاس من ینفع النّاس‘‘ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔رمضان المبارک کا یہ مہینہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے،اس میں ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے،یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے،اس ’’شہر المواساۃ‘‘ میں ہمیں، بالخصوص تاجروں کو، ایثار،خیر خواہی،خدمتِ خلق اور نفع رسانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اس طرح کہ؎’’اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اِس جہاں میں…ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔

تازہ ترین