دیارِ غیر میں اگر کوئی پاکستانی انتقال کر جاتا تو اُس کی میت کو پاکستان پہنچانے تک بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا ۔میت کے کاغذات کو مکمل کرنا ، سفری اخراجات کا انتظام کرنا اور پھر جلد از جلد تمام سرکاری کاموں کو مکمل کرکے میت کو متعلقہ جگہ تک پہنچانا دشوارگزار تھا ۔اسی طرح جب پاکستانیوں کو دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کی شادیوں کی فکر لاحق ہوتی ، تو یورپی ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش کرکے انہیں پاکستان لایا جاتا اور یہاں شادیاں کی جاتیں، کچھ شادیاں کامیاب ہوتیں اور کچھ ناکامی کا شکار ہو جاتیں کیونکہ دو ثقافتوں کا ملاپ مشکل مرحلہ ثابت ہوتا ۔ آہستہ آہستہ یہ مسائل حل ہوتے گئے ، خاندان اور دو ثقافتیں ایک دوسرے کو سمجھنا شروع ہو گئیں ۔
برطانیہ ، امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور متحدہ امارات کے بعد مشرقی یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی مسائل درپیش تھے ، اِ ن ممالک میں اٹلی ، فرانس ، جرمنی ، ہالینڈ ، بیلجیم ، آ سٹریا ، یونان ، پرتگال اورا سپین ایسے ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کی کثیر تعداد آباد ہے ،جو مختلف شعبوں میں روزگار کے لئے نبرد آزما ہے ۔ان یورپی ممالک میں وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی میتّوں کو پاکستان پہنچانا نہایت دشوار ہوتا تھا ، میت کے اخراجات کے لئے ’’ چندہ ‘‘ اکٹھا کیا جاتا ، تب وہ میت پاکستان پہنچتی تھی ۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے دوسرے ممالک میں وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی میّت کو بغیر کسی قسم کے اخراجات کے پاکستان لے جانے کے احکامات صادر فرما ئے تھے ،اُس کے بعد میّت کو سفارت خانہ پاکستان کی جانب سے ایک ہزار یورو کی امداد ملنا شروع ہوئی۔ مقامی اداروں سے سرکاری کاغذات کو جلد مکمل کیا جانے لگا اور میت پاکستان پہنچانے کا عمل پانچ سے سات دنوں میں مکمل ہونے لگا ۔
اسپین میں مسلمانوں کی تدفین کے لئے کوئی باقاعدہ قبرستان نہیں ، پاکستانی مسلم، قبرستانوں اور اسلامی شعار سے تدفین کے لئے مقامی کمیونٹی اور اداروں سے رابطے میں ہیں لیکن انہیں فی الوقت کوئی کامیابی دکھائی نہیں دےرہی ۔ پاکستانی کمیونٹی کے چند افراد مقامی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اپنی وابستگیاں ظاہر کرتے ہیں اور کبھی کبھار یہ بیان بھی سامنے آ تا ہے کہ فلاں پاکستانی سیاستدان نے مقامی ہسپانوی سیاسی پارٹی سے مسلم قبرستان منظور کروا لیا ہے ، کچھ دن قبل اسپین کی سیاسی پارٹی سے وابستہ خالد شہباز چوہان نے کہا کہ مسلم قبرستان منظور ہو گیا ہے، لیکن پاکستانیوں کی تدفین ، غسل اور میت کے سرکاری کاغذات مکمل کرنے والے پاکستانی راہنما چوہدری نوید وڑائچ نے بیان دیا کہ ایسا کچھ نہیں اسپین کے ایک جزیرے مالا گاہ میں یہ سہولت موجود ہے کہ ہم وہاں تدفین کے لئے ایسی قبر حاصل کر سکیں جہاں ہمیشہ کے لئے میت دفن رہے، ورنہ اسپین میں قبر کرایہ پر لی جاتی ہے جس کے مطابق اگر آپ زیر زمین قبر لیں یا دیوار میں میت کے لئے تابوت یا الماری حاصل کریں تو دونوں کے کرایے الگ ہوتے ہیں ۔
ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے جو پاکستانی اسپین میں وفات پا رہے ہیں اُن کی میتّوں کو پاکستان لانے میں مسائل کا سامنا ہے، اسی لئےا سپین میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے راہنماوں جن میں راجہ اسد حسین ، چوہدری صفدر اقبال وڑائچ ، چوہدری امتیاز آکیہ اور دوسرے افراد شامل ہیں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کا رشتہ وطن عزیز کی مٹی سے نہ توڑیں اور میتّوں کو پاکستان لے جانے کے لئے خاطر خواہ انتظام کریں کیونکہ اس وقت اسپین میں پاکستانیوں کی میتیں اپنی دھرتی میں دفن ہونے کے لئے منتظر ہیں ۔
اس حوالے سے قونصل جنرل بارسلونا عمران علی چوہدری نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم بہت جلد اس معاملے کو حل کر لیں گے کیونکہ ہم نے میتوں کو ’’ کارگو ‘‘ کے ذریعے پاکستان بھجوانے کی کوشش کی جس میں ہمیں ایک کامیابی مل گئی ہے ، انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون اورا سپین میں جاری ایمرجنسی کی وجہ سے فلائٹس آپریشن منسوخ ہو چکے ہیں لہذا ہمیں کارگو کا راستہ ہی اپنانا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنی جگہ لیکن ہم پاکستانی کمیونٹی کو اسپین میں تنہا اور بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ سکتے، اسی لئے ہم ان حالات میں بھی قونصلیٹ جنرل آف پاکستان آفس کھول رہے ہیں تاکہ کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہو تو وہ فوری حل کیا جا سکے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ قونصل جنرل نے جب سے اپنا چارج سنبھالا ہے تب سے وہ واحد آفیسر ہیں جو پاکستانی کمیونٹی کے دُکھ درد کا مداوا اور کمیونٹی کے مسائل کے حل کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی اُن کو اپنا راہنما سمجھتی ہے ۔
اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ چونکہ چوہدری شجاعت حسین کے دور حکومت میں میتّوں کو پاکستان لیجانے کی مفت سہولت دی گئی تھی، پاکستان سےا سپین کے لئے قومی ایئر لائن کی براہ راست پروازوں کا اجراء ہوا اور بارسلونا میں مقیم پاکستانیوں کے لئے قونصلیٹ آفس کا قیام بھی چوہدری برادران کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے لہذا اب پاکستانیوں کی میتّوں کو پاکستان لے جانے کی سہولت دلانے میں چوہدری شجاعت حسین موجودہ حکومت پر زور دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ، کمیونٹی کا کہنا ہے کہ قونصل جنرل بارسلونا جیسی ہمدرد شخصیت کے ساتھ چوہدری شجاعت حسین موجودہ حکومت کو اِن نازک حالات کے بارے میں بریفنگ دے کر ایسی پالیسیاں مرتب کروا سکتے ہیں کہ جس سے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے ، حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ہسپانوی حکومت سے رابطہ کرکے دوہری شہریت ، مسلم قبرستان ،پاکستانی بینک کا اجراء ،کمیونٹی سینٹرز ،پاکستانی اسکول اور دوسرے ایسے مسائل جو ہسپانوی حکومت حل کر سکتی ہے ،کے لئے اُنہیں قائل کریں جس کے لئے وزیر خارجہ کا اسپین کا سرکاری دورہ مستقبل میں اِ ن مسائل کے حل کے لئے بہت مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔