• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لاپروائی اور رش: پشاور کے شہریوں نے لاک ڈاؤن کی دھجیاں بکھیر دیں

اس وقت جبکہ پورے ملک کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی حکومت اور محکمہ صحت کا عملہ کورونا وائرس کی وباء سے نبرد آزما ہے اور جزوی لاک ڈائون کے باوجود کورونا وائرس کا جن بوتل میں بند ہونے کی بجائے مسلسل بےقابو ہوتا جارہا ہے، ایسے میں پشاور میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں قائم مسجد قاسم علی خان کی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جمعہ 24اپریل کو صوبے بھر میں پہلے روزے کا اعلان کیا جب کہ مرکز نے ہفتہ25اپریل کو ملک بھر میں رمضان کے پہلے روزے کا اعلان کیا۔ ملک میں الگ الگ روزے اور عیدین منانے کی یہ غیر منتطقی روایت گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ معاملہ حل کیوں نہیں ہو رہا؟ 

اس میں حکمرانوں کی کوتاہی ہے یا رویت ہلال کمیٹیوں کی یا کسی شخصیات کی انا کا مسلہ ہے؟ اور کیا قوم کبھی وہ دن بھی دیکھے گی جب پورے ملک میں ایک ہی دن روزہ اور ایک دن عید ہوگی؟ یہ ایک ایسا سوال جو ہر رمضان اور عید کے اعلان کے بعد ہر گلی کوچے میں زیر بحث رہتا ہے۔ تاہم گزشتہ سالوں کے برعکس اس مرتبہ قوم کو رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں رمضان کی برکتوں اور عید کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس جیسی نظرنہ آنے والی ایک ایسی وباء کا سامنا ہے جس نے پوری دنیا کی تاریخ بدل ڈالی ہے بڑے بڑے سپرپاورز اس وباء کے آگے بے بس نظر آئے۔ تمام تر کوششوں اور احتیاطی اقدامات اور تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس وباء کا جن بوتل میں بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ پورے آب و تاب کے ساتھ شہریوں پر مسلسل حملہ آور ہے اور اب تو اس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے محکمہ صحت کے عملے کے ساتھ ساتھ منتخب عوامی نمائندوں پر بھی حملہ آور ہو چکا ہے اور پشاور میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے نوجوان مشیر برائے بلدیات کامران بنگش کے علاوہ قبائلی اضلاع سے قومی اسمبلی کے ایک رکن بھی اس کا شکار بن چکے ہیں۔ 

ایسے میں ملک بھر میں ایک ہی دن مشترکہ طور پر رمضان المبارک کا اعلان کرنے سے کسی حد تک قومی یکجہتی اور اتفاق رائے پیدا کرکے کم از کم اس مرتبہ ملک بلکہ دنیا بھر میں وباء صورت حال میں پاکستانی قوم اپنا مذہبی تہوار ایک دن مناکر اسلامی دنیا میں مذاق بننے سے بچا جاسکتا تھا مگر بدقسمتی سے بعض افراد کی انا پرستی کے باعث رواں سال بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا اور اس ہم مسئلے پر ایک مرتبہ پھر قوم تقسیم ہوتی نظر آئی۔ ادھر خیبرپختونخوا میں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے جزوی لاک ڈائون جاری رکھنے سمیت اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کے صوبے میں کوروناوائرس کی وباء رکنے کی بجائے پھیلتی جارہی متاثرہ مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ریکارڈکیا جارہا ہے۔ 

محکمہ صحت کے مطابق نئے کورونا کیسز میں سے 83 صوبہ بھر سے جبکہ 2 قرنطینہ سنٹرز میں سے ہیں نئے کیسز میں سب سے زیادہ 41مریض صوبائی دارالحکومت پشاور سے سامنے آئے ہیں جبکہ اب تک پشاور میں اس وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتوں نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اسی طرح صوبے میں24 گھنٹوں میں کورونا سے مزید 4 مریض جان کی بازی ہار گئے ہیں جس کے بعد صوبے میں اب تک کورونا وائرس کی وباء سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 93 تک پہنچ گئی ہے محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں کورونا وائرس کی وباء سے متاثرہ مصدقہ کیسز کی تعداد بڑھ کر 1793 ہو گئی ہے جبکہ اب تک 485 خوش قسمت مریض کورونا وائرس کو شکست دیکر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ 

وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے بلدیات کامران بنگش میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد انہیں اپنے ہی گھر میں آئیسولیٹ کر دیا گیا ہے اور ان کے خاندان کے مزید 11افراد کے نمونے ٹیسٹ کے لئے بھجوا دئے جا چکے ہیں جبکہ سابقہ قبائلی اضلاع سے قومی اسمبلی کے ایک رکن میں بھی کورونا وائرس کی موجودگی کی اطلاع ہے اس حوالے سے سب سے انتہائی افسوسناک خبر اس وقت سننے میں آئی جب ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے ای این ٹی سپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید کورونا وائرس کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید ایک ہفتہ قبل کورونا کے مرض میں مبتلا ہوئے تھے، وہ وینٹی لیٹر پر تھے جہاں وہ ایک ہفتے تک کورونا سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئے خیبر پختونخواہ میں اب تک 20 کے قریب ڈاکٹروں کا ٹیسٹ رزلٹ مثبت آچکا ہے جن میں پشاور کے بڑے ہسپتال کی کورونا سے متاثر ہونے والی دو خواتین ڈاکٹرز بھی شامل ہیں صوبائی حکومت نے کورونا کے خلاف لڑ کر جان دینے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید کو ہیرو قرار دتیے ہوئے انہیں قومی سول ایوارڈ اور ان کے اہل خانہ کے لئے مالی پیکج دینے کا اعلان کیا ہے یقینا ًوہ اس کے مستحق ہیں۔ 

حکومت کا یہ اعلان محض اعلان تک محدود نہیں ہونا چائیے اس پر عمل بھی ہونا چائیے۔ صوبے میں کورونا کی اس سنگین صورت حال کے پیش نظر کراچی کے بعد پشاور میں ڈاکٹرز میدان میں کود پڑے ہیں جنہوں نے کورونا سے نمٹنے کے لئے حکومت پر موثرلاک ڈائون کرنے پر زور دیا ہے۔ حکومت نے بھی صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے جزوی لاک ڈائون کے دوران مستثنیٰ اشیائے ضروریہ کی دوکانوں اور کاروبار کیلئے کے لئے نئے اوقات کار جاری کئے گئے جس کے تحت ماہ رمضان میں اشیائے ضروریہ کی دُکانیں بشمول کریانہ اسٹور، تندور، سبزی کی دُوکانیں، دودھ کی دُکانیں صبح سے لیکر شام 4 بجے تک کھلی رہیں گی جس کے بعد سب کچھ مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔ 

اجلاس کے فیصلوں پر فوری عمل درآمد کے لئے اسی روز سرکاری اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ مگر افسوس کی شہریوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ حکومت نے فیصلے تو کئے مگر ان پر عمل درآمد کے لئے کوئی موثر طریقہ یا نظام لاگو نہیں جس کی وجہ سے حکومتی فیصلوں کے اگلے ہی روز پشاور کے شہریوں نے ان فیصلوں کی دھجیاں اڑا دیں شہر کے بڑے بڑے مصروف بازاروں میں عوام کا رش دیکھنے والا تھا مگر سو میں سے صرف ایک یا دو افراد کے چہرے پر ماسک دیکھنے کو ملے جس سے یہ اندزہ لگانا مشکل نہیں کہ شہر میں کورونا پھیلنے میں کمی ہو گی یا اضافہ۔

تازہ ترین
تازہ ترین