• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم سہیل وڑائچ نے پچھلی ربع صدی میں اخباری انٹرویو کی روایت کی اس ڈھب سے آبیاری کی کہ اردو صحافت کا یہ شعبہ بالکل اسی طرح ان کے نام سے منسوب ہو گیا جیسے ساٹھ کی دہائی میں اردو فیچر نویسی کے ضمن میں مرحوم ریاض بٹالوی کا نام گونجتا تھا۔ ہدف کے گرد ایسے سہج اور دھیرج سے اپنی شخصیت کا حصار قائم کرتے ہیں اور خود ایسی عقب نشینی اختیار کرتے ہیں کہ جیمز جوائس کی مولی بلوم کے لفظوں میں، ”اس نے اپنی آنکھوں سے، اپنے ہونٹوں سے، اپنے ہاتھوں سے پوچھا اور میں نے کہا بیا، دلدار من بیا“۔ جس سے بات کرتے ہیں، اس کی ذات کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ہم ایسے طالب علموں کو ماضی اور حال کے فیصلہ سازوں کے ذہن میں جھانکنے کا موقع مل جاتا ہے۔ وڑائچ صاحب نے کچھ برس پہلے تین جلدوں میں ان انٹرویوز کا انتخاب شائع کیا۔ ایک جلد میں مذہبی پیشواؤں کے ملفوفات سمیٹے۔ دوسری میں عدلیہ کے سابق ستونوں سے گفت و شنید مرتب کی اور تیسری جلد میں فوج کے سابق اعلیٰ عہدے داروں سے مکالمے درج کیے۔
ہمارے تاریخی تناظر میں ان شعبوں سے وابستہ افراد نے قومی نصب العین اور پالیسیاں مرتب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاکسار نے قومی قیادت کے ان نمائندہ افراد کے فرمودات کو ایک سے زائد مرتبہ بغور پڑھا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستانی قیادت کے فکری خدوخال اور ذہنی سانچوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ دیگر نکات کے علاوہ ایک نہایت دلچسپ پہلو یہ سامنے آیا کہ ہمارے کم و بیش سبھی مذہبی ، قانونی اور عسکری رہنماؤں کے ہاں ایک خاص ذہنی رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں ، عمومی طور پر ذہن رسا رکھتے ہیں، مختلف امور پر سلجھے ہوئے استدلال کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی عمومی ذہانت کا معیار یقینی طور پر اوسط سے زیادہ ہے لیکن ہر انٹرویو میں ایک یا دو سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان اصحاب کے خیالات جان کر منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ پڑھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رات کے وقت اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔ کوئی صاحب عورتوں کے حقوق پر مریضانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں، کسی کو یاد آتا ہے کہ ہٹلر ایک عظیم سیاسی مدبر تھا۔ کوئی صاحب آئین شکنی کا دفاع پیش کرنے پر اتر آتے ہیں ۔ کوئی مذہبی رہنما سلطنت اور جدید ریاست کے درمیان فرق کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ کوئی سابق فوجی عہدیدار العالمین کی لڑائی اور سرحدی جھڑپوں میں امتیاز نہیں کر پاتا۔ یہ صرف ذاتی رائے کا معاملہ نہیں بلکہ اس موقع پر یہ لوگ حقیقت سے بالکل کٹے ہوئے، واقعاتی شواہد سے نابلد اور منطق سے خوفناک حد تک عاری نظر آتے ہیں۔ فکراور تجزیے کے ایسے ناقابل یقین رخنے کو نفسیات میں عارضی دماغی سقوط یعنی Brain Freeze سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن قوم کے پچاس سے زائد سرکردہ رہنماؤں کی گفتگو میں ایک ہی معاملہ تواترکے ساتھ پیش آئے تو اسے محض طبی حوالے سے باور کرنا مشکل ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ اگر ہمارے سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کا بھی اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو صورت حال مختلف نہیں ہو گی۔
ہماری فکری ساخت میں یہ تاریک براعظم انفرادی اور اجتماعی سطح پرہمارے رویوں اور تفہیم کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کا گہرا تعلق ہمارے تصور تعلیم اور نصاب تعلیم سے ہے۔ ہمارا علم کا تصور متحرک نہیں بلکہ جامد ہے۔ تعلیم سے ہم مراد لیتے ہیں، الماری میں رکھی کسی کتاب کے مندرجات جاننا اور تسلیم کر لینا تاکہ ذہن کو پہلے سے طے شدہ سانچے میں ڈھالا جا سکے۔ ہم تعلیم میں فکری آزادی کے تصور سے آشنا نہیں ہیں۔ تعلیم کا مقصد آباؤ اجداد کی بتائی باتوں کو من و عن تسلیم کرنا نہیں۔ علم اس صلاحیت کا نام ہے جس کی مدد سے کسی معاملے کے تمام پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لے کر انسان کے امکان کا دائرہ وسیع کیا جاتا ہے۔ مروجہ خیالات، اقدار، مہارتوں اور ضابطوں کا بغیر کسی امتیاز کے محاکمہ کرنے کی روایت ہی تعلیمی آزادی کہلاتی ہے۔ تعلیمی آزادی کے بغیر علم میں وسعت پیدا نہیں کی جا سکتی اور نہ دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور عقیدہ دو الگ الگ شعبے ہیں۔ عقیدہ ہر انسان کا حق ہے اور عقیدوں پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ تعلیم نام ہی سوال اٹھانے کا ہے سو تعلیم کو عقیدے سے الگ رکھا جاتا ہے۔ تقدیس کے جزدان میں لپٹی ہوئی تعلیم سے پیدا ہونے والا ذہن منطق اور تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں انسانوں کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے عقیدے کی تعلیم دے سکتے ہیں لیکن درس گاہوں کا منصب مذہبی ذہن کو فروغ دینا نہیں۔ فزکس اور کیمسٹری کی تعلیم کا مقصد ان شعبوں میں اچھے سائنس دان پیدا کرنا ہے، مسلمان سائنس دان پیدا کرنا نہیں۔ یہ مقصد اختیار کیا جائے تو ایسا بند ذہن پیدا ہوتا ہے جو سائنسی طرز فکر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
ہم نے پاکستان میں کئی عشرے قبل یہ شوق پالا تھا کہ تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے کو مذہب سے وابستہ کر دیا جائے۔ یہ منصوبہ اس حد تک تو کامیاب ہوا کہ ہماری خود پسندی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہمیں اپنے میں کوئی عیب ہی نظر نہیں آتا اور اپنے علاوہ سب کو ہم کرپٹ سمجھتے ہیں لیکن ہم وہ صلاحیت کھو بیٹھے ہیں جس کی مدد سے قوم کو لاحق مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ استاذی آئی اے رحمن نے کئی برس پہلے ایک دفعہ تاسف بھرے لہجے میں کہا تھا کہ ہم سب بالشتیے ہو چکے ہیں۔ قبلہ نے درست فرمایا لیکن اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے بالشتیوں کی قامت میں مزید کمی واقع ہوگی کیونکہ ہم نے لو دھیمی نہیں کی۔
کئی عشروں تک ماہرین تعلیم کی طرف سے توجہ دلانے کے بعد پنجاب حکومت نے ایک مناسب قدم اٹھایا تھا کہ اردو زبان و ادب کی تعلیم کے نصاب کو تقدیس کی جکڑ بندیوں سے آزاد کیا جائے۔ پہلے ہی قدم پر خدائی فوجداروں کا ایسا شوروغوغا بلند ہوا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے انتخابی حریفوں کو اشتعال انگیزی کا موقع نہ دینے کا فیصلہ کیا اور نصابی کتاب میں کی جانے والی تبدیلیاں واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ نیز یہ کہ ایک کمیٹی بنا دی جس میں اردو کا کوئی استاد نہیں البتہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کا سربراہ شامل ہے۔ شہباز شریف اچھے منتظم ہیں لیکن انہیں سیاسی رہنمائی کا دعویٰ بھی تو ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اخبار میں جس رپورٹر نے یہ خبر دی ہے اردو ادب سے اس کی آشنائی کی سطح یہ ہے کہ وہ ڈپٹی نذیر احمد کی توبتہ ا لنصوح کے اقتباس کو مضمون بتاتا ہے۔ ماہرالقادری کو شاعر گردانتا ہے۔
مولوی عبدالحق کی ایک نہایت خوبصورت تحریرکی ادبی حیثیت پرکھنے سے قاصر ہے اور پطرس بخاری کے استاد مرزا سعید کے نام ہی سے ناآشنا معلوم ہوتا ہے۔ ملا کے ہاتھوں خود کو بے دست و پا کر کے ممکنہ ہنگامے سے وقتی نجات تو مل سکتی ہے لیکن اگر مسلم لیگ نواز انتخاب جیت جاتی ہے تو انہیں معیشت اور معاشرت میں بہت سے فیصلے کرنا ہوں گے اور ان فیصلوں کا بنیادی تعلق ہمارے انسانی سرمائے کے معیار سے ہے۔ شہباز شریف کو فکر کرنی چاہئے۔ صاحب اگر ہمارے اجتماعی ذہن میں تاریک براعظم موجود ہوں گے اور ہمارا نصاب تعلیم اس فکری افلاس کی آبیاری کرتا رہے گا تو کوئی چراغ جلتا نہیں رہے گا کیونکہ تعصب کی باد سموم کسی کا نام پتہ پوچھ کر حملہ آور نہیں ہو گی۔
تازہ ترین