• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید اطہر حسین نقوی

دسمبر 2019ء کا سورج غروب ہو رہا تھا اور دنیا کے تمام ممالک ہی تقریباً نئے سال کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے۔ نئے سال کا سورج بھرپور آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے جا رہا تھا۔ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ایک خطرناک اور مہلک وائرس کرّہ ارض میں داخل ہو چکا ہے ۔طبی ماہرین اور سیاستدانوں نے اس کو ’’ناول کورونا وائرس‘‘ "Novel Corona Virus" کا نام دیا ہے، چین کے صوبے ہوہائی کے دارالخلافہ ووہان کے باشندے اس وائرس کا شکار ہو چکے تھے۔

ابتداء میں چین کے نوجوان ڈاکٹر لی ویلینگ نے پہلی مرتبہ جنوری 2020ء کو اس وائرس سے اپنی قوم کو خبردار کیا تھا اور علاج شروع کیا تھا ، ماہرین نے وائرس کے خاتمے کی کاوشیں شروع کیں ، ان کے ساتھ ہی وہاں موجود پاکستانی نوجوان ڈاکٹر محمد عثمان جنجوعہ جو وہاں تدریس کے پیشے سے بھی وابستہ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی جان خطرے میں ڈال کر چینی قوم کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور اپنے علم اور تجربے سے وہاں پر موجود پاکستانی افراد خاص طور پر طالب علموں کی رہنمائی کی اور انہیں مفید معلومات فراہم کیں۔ 

جس سے پاکستانی طالب علموں اور دیگر افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور انہیں پابند کیا کہ اگر کوئی طالب علم یا کوئی بھی فرد (کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو) اس وائرس کا شکار ہے تو اسے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں اور کتنا عرصہ قرنطینہ (معیاد 14دن) میں گزارنا ہو گا۔دن گزرنے کے ساتھ ساتھ کورو ناوائرس اتنا خطرناک ہو چکا تھا کہ چائنا میں مریضوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر مسلسل بڑھنے لگی اور اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہونے لگا حتیٰ کہ اس ابتدائی ٹیم کے ارکان اور نوجوان ڈاکٹر لی ویلینگ بھی اس کا شکار ہو کر اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

ناول کورو ناوائرس کی روک تھام کے لیے چینی حکومت نے ملکی اور غیر ملکی طالب علموں کی صحت اور زندگی کو محفوظ کرنے کی غرض سے تمام تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بند کر دیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت کے دوران اس وائرس نے آس پاس کے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیاتو پاکستانی حکومت نے سب سے پہلے اپنے نوجوان، نو عمر طالب علموں کو محفوظ رکھنے کی غرض سے ابتدائی تدابیر کے طور پر تمام اسکول، کالج، سرکاری نجی تعلیمی اداروں، یونیورسٹیاں، مدارس، تکنیکی ادارے فوری طور پر بند کر دیئے، جبکہ تعلیمی سال کا اختتام ہونے ہی والا تھا۔ امتحانات کی تمام تیاریاں مکمل تھیں لیکن اس کے باوجود نرسری سے لےکرہائر ایجوکیشن کے تمام ادارے اور تدریسی شعبے بند کر دیئے گئے تاکہ اس ’’کورونا‘‘ وائرس سے بچا جا سکے ۔ عالمی ا دارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ نوجوانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہو سکتے ۔ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈانوم "Dr. Tedros Adhanom"نے ایک آن لائن پریس کانفرنس میں خطاب کیا کہ معمر افراد اس وائرس سے زیادہ متاثر ہیں۔ جن کی عمریں 50سال سے زیادہ ہیں لیکن اس وائرس نے نوجوانوں کو بھی نہیں بخشا۔ انہوں نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں، تھوڑی سی بے احتیاطی آپ کو اسپتال پہنچا سکتی ہے اور موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO نے اس سلسلے میں معلومات دنیا کے تمام ممالک کو فراہم کردی ہیں کہ ا پنے شہریوں کو اور اپنے ملک کے معمر افراد اور نوجوانوں کو کس طرح اس عالمی وباء سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا، اخبارات، رسائل ، الیکٹرانک میڈیا بھرپور طریقے سے لمحہ بہ لمحہ خبریں دُنیا کو دے رہے ہیں اور وہ تمام احتیاطی تدابیر بھی نشر کر رہے ہیں، جو اس وقت کی سب سے پہلی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں دنیا میں موجود تمام نوجوانوں کی تنظیمیں بھی آگے بڑھ رہی ہیں اور وہ اپنے اپنے ممالک میں اپنی حکومتوں کے تعاون سے شہریوں کو سہولتیں اور طبی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ اس وقت تقریباً دنیا کا تعلیمی نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ اسکول و کالجوں، یونیورسٹیوں کو قرنطینہ ہائوس میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے ناول کورو ناوائرس کی وجہ سے بگڑتی صورتحال کے پیش نظر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے جہاں معاشی، سیاسی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی ہیں وہاں تعلیم کے میدان پر بھی کاری ضرب لگی ہے۔ 190ممالک نے اپنے ملک بھر کے تمام اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور تدریسی مراکز کی بندش کر دی ہے۔ جس سے تقریباً1548ملین طلبا متاثر ہو رہے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام ممالک کی خواہش ہے کہ پہلے طلبا و طالبات اور زیر تعلیم افراد کو Covid-19وائرس سے روکنا ہے اور دوسرے اُن کی تعلیمی سرگرمیاں کس طرح جاری رکھی جائیں اُس کا حل نکلنا ہے۔WHOنے اقوام متحدہ کی تعلیمی ایجنسی "Egency of Education" کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں۔ جہاں دوسرے ممالک کے طلبا و طالبات مختلف جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشانی ہر ملک کو اُن غیر ملکی اسٹوڈنٹس کی ہے جو زیرتعلیم ہیں۔ 

ان کو اس بیماری سے دور بھی رکھنا ہے اور ہر طرح سے ان کو محفوظ بھی رکھنا ہے، کیونکہ یہ سب اُن کے بنیادی حقوق ہے۔ دنیا کی بیشتر حکومتوں نے مکمل طور پر لاک ڈائون کر رکھا ہے، زمینی اور فضائی راستے بند ہیں۔ جس طرح چائنا حکومت نے تمام غیر ملکی طالب علموں کی ہر طرح سے حفاظت کی، اُن صحت کا خیال رکھا، کچھ عرصہ قرنطینہ میں گزارنے کے بعد وہ تمام صورتحال کو کنٹرول کرتے رہے اور اب ان کا ماحول بدل چکا ہے اور وہ اس قدرتی وباء سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔

نوجوان ہر قوم کا ایک عظیم سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ اُن کے اندر محنت اور لگن کا جذبہ ہوتا ہے۔ وہ اعصاب کے بھی مضبوط ہوتے ہیں ۔وہ بڑی بڑی مشکلات کو باآسانی اپنی مثبت سوچ اور قوت ارادی سے تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا انسانی قوت مدافعت ہی ہر پریشانی اور مشکل کو زیر کر سکتی ہے۔ لہٰذا اس عالمی وباء کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ انسان ہمت نہ ہارے اور اپنی قوت مدافعت سے بیماری کا مقابلہ کرے۔ دیگر اقوام ہمت نہیں ہار رہیں وہ اس کورونا وائرس کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔

اس وقت یہی صورتحال پاکستان کی ہے۔ ان ہنگامی حالات میں جہاں ہر فرد پر جان کا خطرہ منڈلا رہا ہے وہاں ہمارے بلند حوصلہ ڈاکٹرز، نرسیں، وارڈ بوائے، میڈیکل اسٹاف، میڈیکل سامان کی ترسیل میں کام کرنے والے افراد، لیب اور لیبارٹریوں میں موجود ورکرز، مختلف تنظیموں کے رضاکار یہ سب پاکستان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس میں ہر جنس کے افراد شامل ہیں نوجوان لڑکے، لڑکیاں، مردو خواتین، بچے تک ہمیں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ 

مختلف تعلیمی اداروں کی رفاہی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں اور ان غریب گھرانوں کی مدد میں مصروف عمل ہیں جہاں معاشی تنگدستی ہے لہٰذا ہم سب پاکستانیوں کو ان تمام افراد کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہئے بلکہ بازئوں پر سفید پٹیاں اور گھروں پر سفید جھنڈے لہرا کر ان سب کو سلام پیش کرنا چاہئے، خاص کر ان شہداء کو جو اس مرض کا شکار ہوکر اس جہاں سے چلے گئے اور اُس عظیم نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کاجو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہو گئے اور اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

یہ وہ وقت ہے کہ جب تمام جماعتوں، تنظیمیں، مکاتب فکر کے افراد، تمام مسالک کے علماء اکرام اور تمام سماجی، رفاعی اداروں کے ارکان اور حکومت وقت کو ایک نقطے پر جمع ہونا چاہئے۔ اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر اس مہلک اور جان لیوا وائرس کے خلاف سب کو ایک صف میں کھڑے ہوکر ہم آواز بن کر اس بیماری کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے وطن کے تمام شہریوں کی صحت اور زندگیوں کے لئے ایک ساتھ کام کرنا ہے کیونکہ ہمیں ناول کورونا وائرس سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ اس سے لڑنا ہے اور لڑ کر جینا ہے یہی تو زندگی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔

’’اب بھی سوچ لو‘‘ ہم سب نے اس وبائی وائرس کو ’’شکست‘‘دینی ہے۔

تازہ ترین