• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھنڈی سڑک،لاہور کی سب سے بڑی سڑک ہے۔ تارکول کے سیاہ چمکتے ہوئے لیپ کے دو طرفہ کنکریٹ فٹ پاتھ ہیں۔ دونوں فٹ پاتھوں پہ کہنہ سال درخت سایہ کرتے ہیں۔ خزاں کے موسم ہوا میںہوا دور تک زرد پتّوں کو ان فٹ پاتھوں پہ اُڑائےلیے پھرتی ہےاور جب آپ آہستہ آہستہ فٹ پاتھ پہ چلتے ہیں،تو بڑی سڑک کے ان بوڑھے درختوں کے شریر پتّے قدموں کے نیچے آکر چر چراتے ، کھڑ کھڑاتے ہیں، جیسے صدائے احتجاج بلند کررہے ہوں۔

جب توپ خانہ چوک سے بائیں طرف کو ٹھنڈ ی سڑک پہ چڑھتے ہیں تو قریباً چھے سو قدم پر بائیں ہاتھ کی طرف ایک کھنڈر نما عمارت نظر آتی ہے۔ لوہے کے جنگلے اور آہنی گیٹ کے پیچھے سے وہ کھنڈر ات بخوبی دکھائی دیتے ہیں۔ جنگلے اور گیٹ پر زنگ تہہ در تہہ لگ چُکا ہے۔ لوہے کی سلاخیں تک سُرخی مائل ہو چُکی ہیں۔

دو طرفہ راہ داری کے درمیان میں ایک باغیچے کے اثرات نمایاں ہیں، جہاں کسی زمانے میں انواع و اقسام کے درخت اور پھول پودے اپنی بہاریں دِکھاتے تھے۔ اب اس باغیچے میں جنگلی جھاڑیاں بکثرت اُگی ہوئی ہیں۔ گھاس کہیں کہیں بے ہنگم انداز میں اُگی ہےاور کہیں بالکل غائب ہے۔ کسی زمانے میں یہ ایک محل تھا، اب درو دیوار اُجڑ چُکے ہیں۔ دیواروں سے قلعی اور چونا گر گر کر یہاں وہاں بکھرا ہوا ہے۔ کہیں کہیں سیمنٹ تک اکھڑ چُکا ہے۔دیواروں میں جنگلی بیلیں اور چھوٹے چھوٹے پودےاُگ آئے ہیں۔ کوارٹروں کے شیشے ٹوٹ پھوٹ کر غائب ہو چُکے ہیں۔ کہیں جو رنگین ٹوٹے پھوٹے شیشے باقی بھی ہیں، تو ان پہ مٹی اَٹی ہے۔ چھتوں سے مکڑی کے جالےجا بجا لٹک رہے ہیں۔ ابابیلوں نے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ 

کبھی جو کوئی بھولا بھٹکا ،اجنبی ادھر آنکلےتو کئی ابابیلیں پُھر سے اُڑتی ہوئی باہر نکلتی ہیںاور اُن کے پَروں کی پھڑ پھڑاہٹ اس ویران سنّاٹے کو کچھ دیر کے لیے ختم کر دیتی ہے۔ ان اُجڑے، تاریک کھنڈروں میں کبھی کسی زمانے میں زندگی اپنی تمام تر توانائیوں، رعنائیوں کے ساتھ سانس لیتی تھی۔ یہ کھنڈرات کبھی اس شہر کا سب سے بڑا محل تھے۔ روشن آراء کا محل ۔ جس کے دن عیدیںاور راتیں ،شب برأت ہواکرتیں۔ لوگوں کی چہل پہل ایسی کہ محل ہر وقت خوشیوں کا گہوارہ بنا رہتا۔ اب وہ ویرانی سی ویرانی ہے کہ ان کھنڈرات کے سامنے سے بھی گزر جائیں تو دل میں ہول اُٹھتے ہیں۔

اس ٹھنڈی سڑک پر چار، پانچ کلو میٹر چلتے جائیں، تو یہ چھوٹا سا شہر ختم ہوجاتا ہے۔ داہنے ہاتھ کی طرف ایک قبرستان آجاتا ہے، جس کے دروازوں کے آس پاس پھول والوں کی دکانیں ہیں۔ مرکزی دروازے سے قریباًدو سو قدم اندر جائیں ، تو بائیں ہاتھ کو ایک چھوٹا سا احاطہ ہے، جسے سنگِ مر مر کے جنگلے نےگھیر رکھا ہے۔احاطےکے بیچوں بیچ ایک قبر ہے، جس کا تعویذ سنگِ مر مر کا ہے۔ قبر کےچاروں طرف آیت الکرسی کے حروف کُھدے ہوئے ہیں۔

اُسے قبر کیاکہیں کہ وہ تو جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ کوئی عقیدت سےقرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ، تو کوئی دعائے مغفرت میں۔کوئی آنکھوں کے چراغ آنسوؤں سے روشن کیے گڑگڑا رہا ہے،تو کوئی عطر چھڑک رہا ہےاورکوئی لوبان جلانے میں میں مصروف ہے ۔کسی نے اگر بتّی جلائی، تو کوئی گلاب پاشی میں مشغول ہے۔ اس طرح یہ قبر رات بھر روشن رہتی ہے۔ رات بھر لوگوں کا ہجوم آتا رہتا ہے، فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ گھی کے چراغ روشن کیے جاتے ہیں کہ یہ کوئی عام قبر نہیں ’’ماں جی ‘‘ کی قبر ہے۔

ماں جی کا اصل نام تو خال خال لوگ ہی جانتے ہیںاور آنے والوں میں زیادہ تر اَن پڑھ ہی ہوتے ہیں، تو کوئی قبر کے کتبے پہ لکھے نام کو نہیں پڑھ پاتا۔ سب ماں جی کے لیے عقیدت کے پھول دامن میں بھر لاتے ہیںاور یوں ان کی آخری آرام گاہ ہر وقت مہکتی رہتی ہے۔ اس قبر کا نام’’ روشن قبر‘‘ پڑ گیا ہے۔ کچھ لوگ اسے ’’روشن دربار‘‘ بھی کہتے ہیں۔ قبر کی لوح پڑھیں تو اس پر لکھا ہے، ’’روشن آراء بیگم عرف ماں جی ، بنتِ حکیم مدد علی خان۔ روشن آراء بیگم اس شہر کے ہزاروں لا وارث ، یتیم بچّوں کی ماں تھیں۔ ٹھنڈی سڑک پر واقع روشن محل ، جو اب بس ایک کھنڈر رہ گیا ہے، اس کی اکلوتی وارث بھی ماں جی ہی تھیں۔

حکیم مدد علی خان کا مطب شہر کے بڑے بازار میں واقع تھا۔ وہ طیّب کالج دہلی کے فارغ التّحصیل تھے۔ حاز ق الملک حکیم اجمل خاں کے شاگرد تھےاور ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتا تھا۔ خدا نے ان کو ہاتھ نہیں، دستِ شفا عطا کیا تھا، جس مریض کا نسخہ ایک دفعہ لکھ دیا، اللہ کے حکم سے وہ چارپائی سے لگا بھی ہو، توچند ہی دِنوں میں چلتا پِھرتا نظر آنے لگتا تھا۔ سورج کی پہلی کرن پھوٹنے سے پہلے ہی لوگ مطب کے باہر جمع ہونا شروع ہوجاتے اور رات گئے تک مریضوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ کہیں ہاون دستے میں دوائیں کُوٹی جارہی ہیں، کہیں پٹیاں بندھ رہی ہیں، کسی کو معجون چٹائی جا رہی ہے،تو کسی کو شربت پلایا جا رہا ہے۔ حکیم صاحب مسیحائی کا حق اداتو کرتے ہی تھے،مگر خاندانی رئیس بھی تھے۔ روپے، پیسے اور دولت کی ریل پیل تھی، مطب بھی خوب چلتا۔

سیکڑوں ، ہزاروں مِیل دورسے لوگ ان کی شہرت سُن کر دوا لینے آتے تھے۔ان دنوں شہر میں موٹریں خال خال ہی تھیں، حکیم صاحب نے لمبی چمچماتی کا ررکھی ہوئی تھی۔ روشن آراء بیگم ان کی اکلوتی اولاد تھیں۔ ماں کے مرنے کے بعد حکیم صاحب نے روشن آراء کو ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی، ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا۔ ٹھنڈی سڑک پر وہ عالی شان محل، روشن محل انہوں نے روشن آراء بیگم کی شادی پہ اُنہیں تحفے میں دیا تھا۔ اس دھوم دھام سے شادی کی کہ ایسی شادی شہر نے نہ پہلے کبھی دیکھی، نہ بعد میں۔

حکیم صاحب کا ایک یتیم بھتیجا تھا، جس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔اسے انہوں نے ہی پال پوس کر بڑا کیا تھا، طب کی تعلیم دلوائی ، مطب پہ بھی ساتھ ہی لے جاتے تھے۔ اس لڑکے کا نام حکیم فرزند علی خان تھا۔ بہت ہونہار، ذہین اور خوب رُو نوجوان تھا۔ اس کا بیاہ روشن آراء بیگم سے ہوا، لگتا تھا یہ جوڑی آسمانوں پر بنی ہے۔ چاند، سورج کی جوڑی تھی۔ دونوں میں بے پناہ پیارتھا۔حکیم مدد علی کا آخری وقت آیا ،تو سب کچھ روشن آراء بیگم کے نام کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ فرزند علی خان اور روشن آراء ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ فرزند مطب جاتا ، تو روشن کی آنکھیں سا را سارا دن دروازے پر ٹکی رہتیں۔نوکر چاکر ہونے کے با وجود اپنے شوہر کا ہر کام خود کرتی۔ 

اس کے کپڑے استری کرتی، جوتے پالش کرتی، اپنے ہاتھ سے پکوان تیار کرتی۔ فرزند علی روزانہ دوپہر میںمطب سے ایک گھنٹے کی رخصت لے کر گھر آتا، تو دونوں میاں بیوی ایک ساتھ کھانا کھاتے۔ شادی کے دو سال بعد اللہ پاک نے انہیں چاندسا بیٹا دیا۔ روشن آراء بیگم کو بیٹے سے بہت پیار تھا، وہ کبھی کسی تکلیف سے روتا تو روشن آراء کا دل تڑپ اُٹھتا۔ ساری ساری رات کندھے سے لگا کر لوریاں دیتی۔ محل کی سیڑھیوں پر اوپر ، نیچے لیے پِھرتی۔ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کی سنگت پاکر اتنی خوش تھی ، اتنی خوش تھی کہ ہواؤں میں اُڑتی پھرتی۔ اُن دنوں زندگی اتنی حسین تھی ، جتنی ہو سکتی تھی۔ مگرکچھ دن عجیب ہوتے ہیں، ایسے عجیب جو اپنے ساتھ مصیبتوں کا طوفان لے کر آتے ہیں، ایسا طوفان جو سب کچھ تباہ و برباد کردیتاہے۔

اُن دنوں شہر میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔ زندگی منہگی اور موت ارزاں ہوگئی۔ شہر ویران اور قبرستان آباد ہوتا چلا گیا۔ حکیم فرزند علی خان کو ان دنوں سر کھجانے کی بھی فر صت نہیں تھی، لوگ گھروں میں دُبکے تھے ۔ باہر نکلنے سے کتراتے، ملنے جُلنے سے دور بھاگتے، کاروبار ، دکانیں سب بند تھیں۔ گلیوں میں سارا دن آوارہ کتّوں کا راج رہتا، کوئی ذی روح سڑکوں پر نظر نہ آتا۔ مگر فرزند علی کیسے گھر بیٹھ سکتا تھا، اس کا تو کام ہی لوگوں کی جان بچانا تھا، سو اسے تو روز مطب جانا پڑتا۔

مریضوں کا ایک جمِ غفیر اس کے مطب پر اکٹھا رہتا، کئی بار تو اسے ساری ساری رات مطب پر گزارنی پڑتی۔ اس دوران اُسے اپنی صحت کا خیال ہی نہیں رہا اور وہ خود اس بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس نے سارے شہر کی نیند اُڑا رکھی تھی۔بیماری کی وجہ سے اُس کی صحت دن بہ دن گِرتی جا رہی تھی۔روشن آراء شوہر کی خدمت کرکر ہی ہلکان تھی کہ جگر گوشہ بھی ہیضے کا شکار ہوگیا۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند روز میں دونوں باپ، بیٹا خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ روشن آراء کی تو جیسے زندگی ہی تباہ ہوگئی۔ ہیضے کی وبا تو ختم ہوگئی، لیکن جاتے جاتے روشن محل کے چراغ بھی گُل کر گئی۔

روشن آراء کی گود تو اُجڑ گئی، لیکن مامتا کہاں مرتی ہے۔ سو،وہ شہر کے ہزاروں لاوارث، بے سہارا، یتیم بچّوں کی ’’ماں جی ‘‘ بن گئی۔ وہ یتیم بچّوں کو کبھی ان کے حقیقی والدین کی کمی نہ ہونے دیتی، ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتی۔ کہنے کو تو ایک ماں بے اولاد ہو ئی تھی، لیکن حقیقتاً کئی بچّوں کے سر جیسے مامتا کی گھنی چادر سی تن گئی۔ وقت گزرتا گیا اور روشن آراء بیگم ، شہر میں ’’ماں جی‘‘ کے نام سے مشہور ہوتی چلی گئی۔ ماں جی نے کئی بچّوں کی پرورش کی، انہیں بڑا کیا اور پھر 60سال کی عُمر میں خود بھی ایک دن خاموشی سےابدی نیند سو گئیں۔

ان کے مرنے کے بعد ٹھنڈی سڑک پر واقع ’’روشن محل‘‘ تو تاریک و ویران ہو گیا، مگر ان کےبے شمار بچّوں کی عقیدت اپنی ماں جی سے ختم نہ ہوئی۔ وہ بچّےاور اُن بچّوں کے بھی بچّے آج بھی اپنی ماں جی سے ملنے، دعائے مغفرت کرنے روز قبرستان جاتے ہیں، فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’ ماں مرنے کے بعد بھی نہیںمرتی ، اپنے بچّوں کے دِلوں میں، ان کی آنکھوں میں، ان کی خوشی، غم میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔‘‘

تازہ ترین