• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاتحِ سندھ، غازی محمد بن قاسمؒ اسلام کی عظمتِ رفتہ کا امین

محمد عبدالمتعالی نعمان

تاریخ شاہد ہے کہ عرب ممالک کے تاجر جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں تجارت کی غرض سے اکثر وبیش تر بحر ہند سے گزرا کرتے تھے۔ اسلام کی آمدسےقبل بھی کچھ عرب تاجر مالا بار سرندیپ (سری لنکا) اور مالدیپ کے جزیروں میں آباد ہو چلے تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد عرب تاجروں کے کافی قافلے اس سمت آنے لگے، ان کی حیثیت نمایاں ہو گئی۔ مسلمان نہ صرف اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار بلکہ اپنے کاروبار میں نہایت دیانت دار اور با اخلاق ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔ ان کی تجارت کی بدولت یہاں کے لوگ اور راجا خوش حال ہوئے۔انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر بھی یہاں کے راجائوں نے مسلمانوں سے کئی طرح کے معاہدے کیے۔

آٹھویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں کچھ عرب تاجر جوتجارت کے لیے سری لنکا گئے تھے،ان میں سے کچھ وفات پا گئے۔ سری لنکا کے حکمراں نے عربوں سے عمدہ تعلقات کے پیش نظر ان تاجروں کے اہل خانہ کو ایک بحری جہاز میں بیش بہا تحائف کے ساتھ واپس عربستان روانہ کیا، لیکن جہاز کراچی کے قرب و جوار میں ایک بندر گاہ کے قریب جا پہنچا۔ ان دنوں سندھ کے علاقے پر راجا چچ کا بیٹا راجہ داہر حکومت کرتا تھا۔ دیبل کے فرماںروا راجہ داہر کے سپاہیوں نے کشتی کو روک کر مال و اسباب لوٹنے کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو اپنا قیدی بنا لیا۔ جب اس کی خبر اور ایک مسلمان قیدی لڑکی کا لکھا ہوا خط جس میں اس نے خلیفہ سے فریاد اور مدد طلب کی تھی، بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف کو اس کی اطلاع ملی جو اپنی انتظامی صلاحیتوں اور سخت گیر طبیعت کی وجہ سے مشہور تھا تو اس نے فوری طور پر راجہ داہر سے قیدیوں کی رہائی اور مال و اسباب کی واپسی کا مطالبہ کیا، لیکن راجہ داہر نے کوئی مناسب جواب نہ دیا اور انکار کر دیا۔ چناںچہ حجاج بن یوسف نے خلیفہ وقت ولید بن عبدالملک کی اجازت سے راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے دو دفعہ لشکر روانہ کیے، لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔حجاج کے ان دونوں سپہ سالاروں کو ابتدائی حملے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ میدان جنگ میں شہید ہو گئے۔ 

ابتدائی مہم کی ناکامی نے حجاج کو عماد الدین محمد بن قاسم ثقفی کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ محمد بن قاسم خداداد صلاحیتوں سے مالامال ایک خدا ترس ،نڈر اولوالعزم اور فہم و فراست کا حامل بہادر جرنیل تھا۔ 17 سالہ یہ نوجوان حجاج بن یوسف کا داماد اور بھتیجا بھی تھا۔ بالآخر حجاج نے اس نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک اور لشکر روانہ کیا جس میں چھ ہزار گھڑ سوار، اونٹ سواروں کا دستہ،جنگی سامان،اور دوسری ضروریات کا قافلہ شامل تھا۔ یہ لشکر جرار شیراز اور مکران سے ہوتا ہوا 93ھجری 711ء عیسوی کے آخر میں دیبل کے نزدیک خیمہ زن ہوا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔دیبل بندرگاہ کے چاروں طرف ایک مضبوط فصیل تھی،جس کی وجہ سے شہر کے لوگوں نے کئی ہفتوں تک شہر میں خود کو بند کر کے مدافعت کی۔ اسی دوران سمندر کے راستے توپ خانہ (منجنیق) بھی پہنچ گیا جس کے آتے ہی محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کر دیا اور منجنیق کے ذریعے سنگ باری کے نتیجے میں دیبل کے وسط میں واقع عبادت گاہ کی گنبد ٹوٹنے اور اس پر لہراتے جھنڈے کے گرتے ہی راجہ داہر کی فوجیں جو پہلے ہی ہمت ہار بیٹھی تھیں۔ 

ان کے اوسان خطا ہو گئے، کیوںکہ ہندوئوں کا یہ عقیدہ تھا کہ جب تک یہ پرچم لہراتا رہے گا، کوئی اس شہر کو فتح نہیں کر سکتا۔ اب مسلمان پوری قوت سے حملہ کرتے ہوئے فصیل پر چڑھ گئے اور شہر میں داخل ہو گئے۔ گھمسان کا رن پڑا۔ راجہ داہر کی فوج نے مقابلے کی کوشش کی،لیکن وہ محمد بن قاسم کے جواں ہمت لشکریوں کے زور دار حملوں کی تاب نہ لا سکے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور دیبل پر اسلامی پرچم لہرا دیا گیا ۔دیبل کے قید خانے میں موجود قیدی،عورتوں اور بچوں کو بازیاب کرا کے حجاز روانہ کر دیا گیا۔ یہ نہایت اہم دن تھا جب جنوبی ایشیا کی تاریخ میں اس سر زمین پر پہلی بار اسلامی پرچم سربلند ہوا۔

راجہ داہر دیبل میں شکست کھانے کے بعد برہمن آباد کے قلعے میں جا کر محصور ہو گیا اور محمد بن قاسم کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے پوری تیزی سے جنگی تیاریاں کیں اور ایک بہت بڑا لشکر جمع کیا ۔ محمد بن قاسم بھی مقابلے کے لیے تیار تھا ، اس نے زیریں سندھ کے مختلف علاقوں جن میں نیرون کوٹ (موجودہ حیدر آباد) اور سہون بھی شامل ہیں کو فتح کرتے ہوئے 712ء میں اپنے مجاہدوں کے ساتھ دریائے سندھ عبور کیا اور راجہ داہر کے مورچوں پر ہلہ بول دیا۔نہایت گھمسان کی جنگ ہوئی،محمد بن قاسم کی بہترین جنگی حکمت عملی اور ان کے سپاہیوں کی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کی بدولت فتح و نصرت نے مسلمانوں کے قدم چومے اور یوں محمد بن قاسم نے اپنے سے چار گنا بڑی فوج کو شکست فاش دی۔ راجہ داہر میدان جنگ ہی میں مارا گیا۔ برہمن آباد کی فتح کے بعد زیریں سندھ پوری طرح عرب سپہ سالار کے زیر تسلط آ گیا۔ اب محمد بن قسم نے اروڑ (سکھر) اور بالائی سندھ کا رخ کیا اور یکے بعد دیگر ے مختلف مقامات کو فتح کرتے ہوئے ملتان کے قریب پہنچ گیا ۔ جو راجہ داہر کے بھتیجے کی حکومت میں شامل تھا اور اس زمانے میں سندھ کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔ ملتان کے ارد گرد نہایت مضبوط حصار تھی، لیکن محمد بن قاسم کی حکمت عملی نے انہیں یہاں بھی کامیابی سے ہمکنار کیا اور ملتان پر بھی اسلامی پرچم سربلند ہوا۔ یوں محمد بن قاسم کی فتوحات نے تاریخ میں ایک عظیم باب رقم کیا اور باب الاسلام سندھ میں عرب فاتحین کی آمد سے ایک مثالی دور کا آغاز ہوا۔

محمد بن قاسم کے ساتھ بہت سے عرب قبائل اورتابعین، تبع تابعین کی ایک جماعت سندھ میں آ کر آباد ہو گئی اور جگہ جگہ ان لوگوں نے علمی مراکز قائم کر دیے، جہاں کتاب و سنت کی تعلیم دی جانے لگی۔ محمد بن قاسم سندھ میں صرف ساڑھے تین سال تک ہی بطور منتظم و حکمراں قیام پذیر رہا، مگر اپنے مختصر دور حکومت میں غیر مسلموں کو وہ عزت بخشی جس کی نظیر دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ محمد بن قاسم نے مفتوح علاقوں میں نظم و نسق کو بہتر بنایا ۔مقامی آبادی سے نہایت منصفانہ اور عادلانہ سلوک کیا اور دیانت دار ہندو امراء کی سرپرستی کی۔چناںچہ راجہ داہر کے وزیر داہر کے بھتیجے کو اہم مرتبوں پر فائز کیا۔عوام کی تکالیف دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے اور انہیں سماجی تحفظ فراہم کیا ۔ غیر مسلموں کے وظائف جاری کیے۔ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تھی۔ مندروں اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت کے ساتھ ساتھ ان کی تزئین و آرائش کے فرائض انجام دیے۔ غیر مسلموں کو حکومت و اقتدار میں شریک کیا گیا۔غرض محمد بن قاسم نے ایسا منصفانہ نظام قائم کیا جو وہاں کے غیر مسلم باشندے و حکمراں قائم نہ کر سکے تھے۔

برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد زندگی کے ہر شعبے میں ایک خوش گوار انقلاب کا مژدہ بنی۔ مسلمانوں کی آمد یہاں رہنے والوں کے لیے ایک نیاپیغام لے کر آئی۔ایک ایسا پیغام جس میں اخوت و محبت کی چاشنی تھی۔ مروت و رواداری کی خوشبو رچی بسی تھی اور عدل و انصاف کی نوید تھی۔ اس خطے کے رہنے والوں نے جو صدیوں سے ظلم و ستم ،معاشرتی ناہمواری اور ذات پات کی اونچ نیچ کا شکار تھے۔ یہ جاں فزا پیغام لانے والے کو خوش آمدید کہا، وہ حلقہ بگوشان اسلام کے حسن اخلاق اور عظمت وکردار کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ حملہ آور فاتح محمد بن قاسم کو اپنا نجات دہندہ اور محسن سمجھنے لگے اور اسلام کو اپنے لیے راہ نجات جان کر جوق در جوق اس میں داخل ہونے لگے۔ بقول اقبال

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہی مردوں کی شمشیریں

محمد بن قاسم کا شمار نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ تاریخ عالم کے عظیم جرنیلوں میں ہوتا ہے۔ اتنی کم عمری میں اتنے شاندار کارنامے شاید ہی کسی نے انجام دیے ہوں۔ محمدبن قاسم کی فتوحات سے اسلامی سرحدوں کو مزید وسعت ملی اور ان کی قلم رو یورپ میں پرتگال سے برصغیر میں لاہور تک پھیلی ہوئی تھی۔ ملتان کی فتح کے بعد محمد بن قاسم بھارت کو فتح کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ دارالخلافہ سے ان کی واپسی کا حکم آ گیا۔واپسی پر محمد بن قاسم کو قید کر دیا گیا اور کچھ عرصے بعد جیل ہی میں انہیں شہید کر دیا گیا ۔ محمد بن قاسم کی سرکردگی میں فتح کردہ علاقوں پر مشتمل اتنی و سیع و عریض مملکت کا نظم و نسق چلانا آسان نہ تھا ۔

چناںچہ محمد بن قاسم کی واپسی کے بعد مفتوحہ علاقے قدرے سکڑ کر سندھ اور جنوبی پنجاب تک محدود ہو گئے،ممکن تھا کہ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ پورے ہندوستان (برصغیر پاک و ہند) کے زیر نگیں ہونے تک جاری رہتا، لیکن بنو امیہ کے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے ذاتی عناد نے محمدبن قاسم جیسے فاتح اور عظیم سپہ سالار کو موت کی نذر کر دیا اور عالم اسلام ایک عظیم جرنیل اور فتوحات سے محروم ہو گیا ۔ آج تیرہ سو سال گزرنے کے باوجود لوگ محمد بن قاسم کو نجات دہندہ اور محسن سندھ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

تازہ ترین