• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ الفاظ سننے اور پڑھنے میں ہی بے حد پراثر اور مثبت تاثیر رکھتے ہیں، جیسے امنگ، جوش،ولولہ، امید اور طاقت اور ان ہی الفاظ کو مجسم دیکھنا ہو تو کسی بھی قوم کے نوجوانوں کو دیکھنا چاہئے جو ضد پر اڑ جائیں اور ان کے حوصلے چٹان ہوجائیں تووطن کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ نو عمری کا دور گزرے تو نوجوانوں کے دل عزم اور ارادے بننے لگتے ہیں۔ آنکھیں خوابوں سے جگمگاتی ہیں۔ 

یہ ارادے اپنے گھر، والدین اور فیملی کے لئے کچھ کرنے سے شروع ہو کر وطن عزیز پر نچھاور ہوجانے تک چلے جاتے ہیں اور یہ جذبات اتنے ہی قدرتی اور خالص ہوتے ہیںجتنا کسی معصوم بچے کی کلکاری۔ فرق پڑتا ہے تو صرف رہنمائی سے۔ صحیح وقت پر صحیح راہ سجھادی جائے تو ہر نوجوان کو کارآمد اور تعمیری سوچکا حامل بنایا جاسکتا ہے۔

نوجوان جو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو اندازہ ہونا چاہئے کہ یہ ملک کو مفلوج بھی کرسکتے ہیں اور مضبوط قدموں چلا بھی سکتے ہیں۔ المیہ ہے کہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار کوئی نوجوان جب اپنی راہ ڈھونڈنے نکلتا ہے تو یا تو سیاسی پارٹیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے یا نام نہاد فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر نمود ونمائش کے ایسے گرداب میں جا پھنستا ہے کہ سیلفی بنائے بغیر ایک آٹے کا تھیلا دینے کو راضی نہیں ہوتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر وہ نوجوان جو وبا سے پہلے یا اس کے دروان اور آنے والے دنوں میں خدمت خلق کا جذبہ رکھتاہے وہ کہاں جائے؟ کون سا راستہ اختیار کرے۔ تو سب سے پہلا راستہ تو انٹرنیٹ ہی ہے جو آن لائن گیمنگ اور سیلفی اوبسیشن کے علاوہ بھی بہت وسیع ہے۔ اس کھلونے کو ہی اپنا ہتھیار بنالیں یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے اپنے جیسے لوگوں سے مل کر کارواں بنانے کا، بشرطیکہ اس کو ایمانداری سے اسی مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔

اگر آپ کے پاس وسائل کی کمی ہے تو یہ آپ کو ان لوگوں سے ملوائے گا جو وسائل تو رکھتے ہیں مگر حقدار تک پہنچ نہیں رکھتے۔ اسی طرح آپ کے پاس وسائل ہیں مگر افرادی قوت نہیں ہے تو ٹیم بنانے کا پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں باتوں کے علاوہ اگر آپ جسمانی مشقت کے اہل نہیں تو سماجی آگاہی کا کام کرسکتے ہیں۔ افواہوں اور توہمات کے اس دور میں دوست اور کھری معلومات کا پھیلائو بھی صدقہ جاریہ سے کم نہیں ہے۔ مڈل کلاس اور عام عوام سے اٹھا نوجوان اپنے طبقے کی آواز بن سکتا ہے، ان کے مسائل اور مشکلات کو روشنی میں لا سکتا ہے۔

یاد رکھیں! نوجوان کسی بھی معاشرے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتے ہیں، ضرورت صرف مثبت اور تعمیری سوچ کی ہے!

(سید تحریم فاطمہ…کراچی)

تازہ ترین